شاعر سیف الدین سیف خاکسار تحریک سے فلمی دنیا تک
اس دوران ان کے ایک دوست نے ان کو مشہور فلم ساز مصنف و ہدایت کار انور کمال پاشا سے ملوایا
ابھی ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد نہیں ہوا تھا، آزادی کی تحریکوں کا زور اور شور تھا، انھی تحریکوں میں ایک تحریک خاکسار کے نام سے بھی ہندوستان میں سرگرم تھی، نامور شاعر مزاحمتی شاعری کر رہے تھے۔ ایک طرف ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، جاں نثار اختر تھے تو انھی میں سیف الدین سیف بھی شاعری کر رہے تھے۔
پنجاب خصوصاً لاہور میں خاکسار تحریک بڑی سرگرم تھی اور سیف الدین سیف اس تحریک کا حصہ تھے۔
ان تحریکوں سے وابستہ نامی گرامی افراد اور مزاحمتی شاعری کرنے والوں کو پا بہ زنجیر کیا جا رہا تھا، اسی دوران سیف الدین سیف بھی گرفتار کر لیے گئے تھے اور دو سال کی جیل ہوگئی تھی، جیل کی سختیاں جھیل کر جب یہ رہا ہو کر آئے تو ان کے گھر والوں نے ان کو بہت سمجھایا کہ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہو جاؤ، بے شک شاعری کرتے رہو۔
اس دوران ان کے ایک دوست نے ان کو مشہور فلم ساز مصنف و ہدایت کار انور کمال پاشا سے ملوایا۔ انور کمال پاشا نے ان کو اپنی فلم ہچکولے کے گیت لکھنے کے لیے منتخب کر لیا ، یوں سیف الدین سیف خاکسار تحریک سے علیحدہ ہو کر انور کمال پاشا کی پروڈکشن سے وابستہ ہوگئے تھے۔
اب میں آتا ہوں ان کے گیت نگاری کے سفر اور ابتدائی زندگی کی طرف۔ سیف الدین سیف 1922 میں امرت سر میں پیدا ہوئے، امرت سر ہائی اسکول سے دسویں جماعت پاس کی، پھر والدین کے ساتھ لاہور آگئے، انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کیا ،کالج کے زمانے ہی وہ مختلف ادبی رسائل اور اخبارات کے لیے لکھتے رہے۔
لاہور اس زمانے میں ادب کا مرکز تھا، مشاعروں کا ماحول تھا، سیف الدین سیف بھی اس ادبی ماحول کا حصہ بنتے چلے گئے اور ان کی شاعری کی دھوم مچتی چلی گئی تھی ۔
انور کمال پاشا کی فلم ہچکولے کے گیت ،کہانی و مکالمے بھی لکھے ، اس طرح انور کمال پاشا کی پروڈکشن سے انھوں نے اپنے کیریئرکا آغاز کیا، ہچکولے 1949 میں ریلیز ہوگئی اور ناکام ہوئی مگر سیف الدین سیف کے فلمی سفر کا آغاز ہو گیا تھا۔
ہچکولے کے بعد فلم امانت اور نویلی کے مکالمے اور گیت لکھے مگر وہ فلمیں بھی خاص کامیاب نہ ہو سکی تھیں، پھر انورکمال پاشا کی فلم غلام کے گیتوں سے شہرت کا آغاز ہوا۔
غلام کے بعد محبوبہ اور فلم آغوش کے بھی گیت لکھے۔ فلم غلام کامیاب ہوئی پھر انور کمال پاشا ہی کی فلم گمنام بھی ہٹ ہوئی اور اس فلم میں قتیل شفائی اور سیف الدین سیف کے گیتوں نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی۔ ایک گیت:
تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے
قتیل شفائی کا لکھا ہوا ہٹ ہوا جسے گلوکارہ اقبال بانو نے گایا تھا تو دوسرا گیت سیف الدین سیف کا لکھا ہوا تھا جس کے بول تھے:
چاندی کی اک جھنکار پر جیون کی بازی ہار کر
کوئی بک گیا کوئی بک گیا سستے مول
پھر انور کمال پاشا کی فلم قاتل اور انتقام کے گیت بھی سیف الدین سیف نے لکھے تھے جو بڑے ہٹ ہوئے تھے ،جیسے قاتل کا گیت:
واہ رے بدلتے زمانے
کبھی چھکا کبھی تین دانے
فلم انتقام کا گیت بڑا مشہور ہوا تھا، جس کے بول تھے:
جانے دے جانے دے
دل میں جو آتا ہے کر لے
دنیا کو سمجھانے دے
اب گیت نگاروں کی فہرست میں دو شاعر ہی لاہور کی فلمی دنیا کو سہارا دے رہے تھے جن میں قتیل شفائی اور سیف الدین سیف شامل تھے۔ 1956 میں ایک فلم لخت جگر ریلیز ہوئی تھی جس کے موسیقار جی اے چشتی تھے۔ اس فلم میں ایک گیت کو بڑی شہرت ملی تھی جس کے بول تھے:
وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا امید گئی ارمان گئے
اے دنیا ہم سے چال نہ کر ہم خوب تجھے پہچان گئے
فلمی دنیا میں بحیثیت رائٹر اور نغمہ نگار مقبولیت حاصل کرنے کے دوران سیف الدین سیف فلم سازی کی طرف بھی آگئے تھے، انھوں نے اپنا ذاتی فلم ساز ادارہ راہ نما فلمز کے نام سے بنایا اور اپنی ذاتی فلم رات کی بات کے نام سے بنائی مگر وہ فلم رات گئی بات گئی کی طرح ہی فلاپ ہوگئی تھی۔ پھر ہمت کر کے ایک اور فلم ''سات لاکھ'' کے نام سے بنائی جس کے فلم ساز، ہدایت کار اور مصنف بھی تھے۔
اس فلم میں سنتوش کمار، صبیحہ اور نیلو کے ساتھ طالش وغیرہ نے بھی کام کیا تھا ، فلم سات لاکھ اپنے دور کی سپرہٹ فلم اور بزنس کے اعتبار سے بھی بلاک بسٹر فلم تھی۔
اس فلم کی کامیابی نے سیف الدین سیف کے سارے پچھلے حساب چکا دیے تھے یہاں میں فلم آنکھ کا نشہ اور فلم انارکلی کے گیتوں کا بھی تذکرہ کروں گا جو سیف صاحب کے لکھے ہوئے تھے، وہ اپنے دور کے بڑے ہی مقبول گیت تھے اور ہر ریڈیو اسٹیشن سے بار بار نشر کیے جاتے تھے، ایک گیت تھا:
جلتے ہیں ارمان مرا دل روتا ہے
قسمت کا دستور نرالا ہوتا ہے
اور دوسرا گیت تھا:
بے وفا ہم نہ بھولے تجھے
ساری دنیا نے ہم سے کہا بھول جا
اب میں آتا ہوں سیف الدین سیف کی ایک ایسی پنجابی زبان کی فلم کی طرف جس نے فلمی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ وہ فلم تھی کرتار سنگھ جس کا موضوع بڑا ہی سلگتا ہوا تھا۔ ہندوستان کی تقسیم کے دوران ہجرت کے پس منظر میں کیا کیا ظلم ہوئے۔
کیسے کیسے لوگوں کو اپنے گھر بار، اپنی عزتیں لٹانی پڑیں، کرتار سنگھ کی کہانی میں سب کچھ بڑی مہارت کے ساتھ سمو دیا گیا تھا۔ یہ اپنے وقت کی ایک معرکۃالآرا فلم تھی جس نے ہر شہر ہر گاؤں اور ہر بستی میں دھوم مچا دی تھی۔ اس کے گیتوں کو بڑی شہرت ملی تھی، ایک گیت:
دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا
ویر میرا گھوڑی چڑھیا
یہ ایک ایسا گیت بن گیا تھا جو ہر گھر میں گایا جانے لگا تھا۔ یہ گیت ایک رسم اور رواج بن کر معاشرے پر چھا گیا تھا، اس فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ اس فلم میں سیف الدین سیف صاحب نے ایک گیت وارث لدھیانوی سے بھی لکھوایا تھا جس کو بڑی شہرت ملی تھی،گیت کے بول تھے:
اج مک گئی غماں والی شام
تینوں ساڈا پہلا سلام
اس فلم میں سلیم اقبال کی موسیقی نے بھی چار چاند لگا دیے تھے۔ اسی موسیقار کی ایک اور فلم دروازہ میں سیف صاحب کا لکھا ہوا ایک گیت بڑا ہٹ ہوا تھا جس کے بول تھے:
چھپ گئے تارے ندیا کنارے
تم ہی نہ آئے پیا تم ہی نہ آئے
سیف الدین سیف نے بے شمار فلموں کے لیے گیت لکھے، ان میں کئی منفرد انداز کی فلمیں بھی تھیں۔ جیسے ثریا بھوپالی، تہذیب، مادر وطن، امراؤ جان ادا جن میں لکھے ہوئے گیت کبھی بھلائے نہیں جاسکتے، وہ ماحول کے مطابق خوبصورت گیت لکھنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔
پنجاب خصوصاً لاہور میں خاکسار تحریک بڑی سرگرم تھی اور سیف الدین سیف اس تحریک کا حصہ تھے۔
ان تحریکوں سے وابستہ نامی گرامی افراد اور مزاحمتی شاعری کرنے والوں کو پا بہ زنجیر کیا جا رہا تھا، اسی دوران سیف الدین سیف بھی گرفتار کر لیے گئے تھے اور دو سال کی جیل ہوگئی تھی، جیل کی سختیاں جھیل کر جب یہ رہا ہو کر آئے تو ان کے گھر والوں نے ان کو بہت سمجھایا کہ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہو جاؤ، بے شک شاعری کرتے رہو۔
اس دوران ان کے ایک دوست نے ان کو مشہور فلم ساز مصنف و ہدایت کار انور کمال پاشا سے ملوایا۔ انور کمال پاشا نے ان کو اپنی فلم ہچکولے کے گیت لکھنے کے لیے منتخب کر لیا ، یوں سیف الدین سیف خاکسار تحریک سے علیحدہ ہو کر انور کمال پاشا کی پروڈکشن سے وابستہ ہوگئے تھے۔
اب میں آتا ہوں ان کے گیت نگاری کے سفر اور ابتدائی زندگی کی طرف۔ سیف الدین سیف 1922 میں امرت سر میں پیدا ہوئے، امرت سر ہائی اسکول سے دسویں جماعت پاس کی، پھر والدین کے ساتھ لاہور آگئے، انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کیا ،کالج کے زمانے ہی وہ مختلف ادبی رسائل اور اخبارات کے لیے لکھتے رہے۔
لاہور اس زمانے میں ادب کا مرکز تھا، مشاعروں کا ماحول تھا، سیف الدین سیف بھی اس ادبی ماحول کا حصہ بنتے چلے گئے اور ان کی شاعری کی دھوم مچتی چلی گئی تھی ۔
انور کمال پاشا کی فلم ہچکولے کے گیت ،کہانی و مکالمے بھی لکھے ، اس طرح انور کمال پاشا کی پروڈکشن سے انھوں نے اپنے کیریئرکا آغاز کیا، ہچکولے 1949 میں ریلیز ہوگئی اور ناکام ہوئی مگر سیف الدین سیف کے فلمی سفر کا آغاز ہو گیا تھا۔
ہچکولے کے بعد فلم امانت اور نویلی کے مکالمے اور گیت لکھے مگر وہ فلمیں بھی خاص کامیاب نہ ہو سکی تھیں، پھر انورکمال پاشا کی فلم غلام کے گیتوں سے شہرت کا آغاز ہوا۔
غلام کے بعد محبوبہ اور فلم آغوش کے بھی گیت لکھے۔ فلم غلام کامیاب ہوئی پھر انور کمال پاشا ہی کی فلم گمنام بھی ہٹ ہوئی اور اس فلم میں قتیل شفائی اور سیف الدین سیف کے گیتوں نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی۔ ایک گیت:
تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے
قتیل شفائی کا لکھا ہوا ہٹ ہوا جسے گلوکارہ اقبال بانو نے گایا تھا تو دوسرا گیت سیف الدین سیف کا لکھا ہوا تھا جس کے بول تھے:
چاندی کی اک جھنکار پر جیون کی بازی ہار کر
کوئی بک گیا کوئی بک گیا سستے مول
پھر انور کمال پاشا کی فلم قاتل اور انتقام کے گیت بھی سیف الدین سیف نے لکھے تھے جو بڑے ہٹ ہوئے تھے ،جیسے قاتل کا گیت:
واہ رے بدلتے زمانے
کبھی چھکا کبھی تین دانے
فلم انتقام کا گیت بڑا مشہور ہوا تھا، جس کے بول تھے:
جانے دے جانے دے
دل میں جو آتا ہے کر لے
دنیا کو سمجھانے دے
اب گیت نگاروں کی فہرست میں دو شاعر ہی لاہور کی فلمی دنیا کو سہارا دے رہے تھے جن میں قتیل شفائی اور سیف الدین سیف شامل تھے۔ 1956 میں ایک فلم لخت جگر ریلیز ہوئی تھی جس کے موسیقار جی اے چشتی تھے۔ اس فلم میں ایک گیت کو بڑی شہرت ملی تھی جس کے بول تھے:
وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا امید گئی ارمان گئے
اے دنیا ہم سے چال نہ کر ہم خوب تجھے پہچان گئے
فلمی دنیا میں بحیثیت رائٹر اور نغمہ نگار مقبولیت حاصل کرنے کے دوران سیف الدین سیف فلم سازی کی طرف بھی آگئے تھے، انھوں نے اپنا ذاتی فلم ساز ادارہ راہ نما فلمز کے نام سے بنایا اور اپنی ذاتی فلم رات کی بات کے نام سے بنائی مگر وہ فلم رات گئی بات گئی کی طرح ہی فلاپ ہوگئی تھی۔ پھر ہمت کر کے ایک اور فلم ''سات لاکھ'' کے نام سے بنائی جس کے فلم ساز، ہدایت کار اور مصنف بھی تھے۔
اس فلم میں سنتوش کمار، صبیحہ اور نیلو کے ساتھ طالش وغیرہ نے بھی کام کیا تھا ، فلم سات لاکھ اپنے دور کی سپرہٹ فلم اور بزنس کے اعتبار سے بھی بلاک بسٹر فلم تھی۔
اس فلم کی کامیابی نے سیف الدین سیف کے سارے پچھلے حساب چکا دیے تھے یہاں میں فلم آنکھ کا نشہ اور فلم انارکلی کے گیتوں کا بھی تذکرہ کروں گا جو سیف صاحب کے لکھے ہوئے تھے، وہ اپنے دور کے بڑے ہی مقبول گیت تھے اور ہر ریڈیو اسٹیشن سے بار بار نشر کیے جاتے تھے، ایک گیت تھا:
جلتے ہیں ارمان مرا دل روتا ہے
قسمت کا دستور نرالا ہوتا ہے
اور دوسرا گیت تھا:
بے وفا ہم نہ بھولے تجھے
ساری دنیا نے ہم سے کہا بھول جا
اب میں آتا ہوں سیف الدین سیف کی ایک ایسی پنجابی زبان کی فلم کی طرف جس نے فلمی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ وہ فلم تھی کرتار سنگھ جس کا موضوع بڑا ہی سلگتا ہوا تھا۔ ہندوستان کی تقسیم کے دوران ہجرت کے پس منظر میں کیا کیا ظلم ہوئے۔
کیسے کیسے لوگوں کو اپنے گھر بار، اپنی عزتیں لٹانی پڑیں، کرتار سنگھ کی کہانی میں سب کچھ بڑی مہارت کے ساتھ سمو دیا گیا تھا۔ یہ اپنے وقت کی ایک معرکۃالآرا فلم تھی جس نے ہر شہر ہر گاؤں اور ہر بستی میں دھوم مچا دی تھی۔ اس کے گیتوں کو بڑی شہرت ملی تھی، ایک گیت:
دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا
ویر میرا گھوڑی چڑھیا
یہ ایک ایسا گیت بن گیا تھا جو ہر گھر میں گایا جانے لگا تھا۔ یہ گیت ایک رسم اور رواج بن کر معاشرے پر چھا گیا تھا، اس فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ اس فلم میں سیف الدین سیف صاحب نے ایک گیت وارث لدھیانوی سے بھی لکھوایا تھا جس کو بڑی شہرت ملی تھی،گیت کے بول تھے:
اج مک گئی غماں والی شام
تینوں ساڈا پہلا سلام
اس فلم میں سلیم اقبال کی موسیقی نے بھی چار چاند لگا دیے تھے۔ اسی موسیقار کی ایک اور فلم دروازہ میں سیف صاحب کا لکھا ہوا ایک گیت بڑا ہٹ ہوا تھا جس کے بول تھے:
چھپ گئے تارے ندیا کنارے
تم ہی نہ آئے پیا تم ہی نہ آئے
سیف الدین سیف نے بے شمار فلموں کے لیے گیت لکھے، ان میں کئی منفرد انداز کی فلمیں بھی تھیں۔ جیسے ثریا بھوپالی، تہذیب، مادر وطن، امراؤ جان ادا جن میں لکھے ہوئے گیت کبھی بھلائے نہیں جاسکتے، وہ ماحول کے مطابق خوبصورت گیت لکھنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔