سیاسی نظریہ امتناعی اقدامات

تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے اقتدار میں احتساب کے نام پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو جیلوں میں بند کیا

tauceeph@gmail.com

عدالتی فیصلوں سے سزا پانے والے شخص کی عوامی نمائندگی کے لیے نااہلی کی مدت پانچ سال ہوگی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے اس قانون کی منظوری کے بعد قائم مقام صدرصادق سنجرانی نے اس قانون کے نفاذ کی منظوری دیدی ہے۔

اس قانون کے نفاذ کا فوری فائدہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سابق فنانسر جہانگیر ترین کو ہوگا۔ بعض وکلاء کا یہ مفروضہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کو کسی مقدمہ میں نااہل قرار دیا گیا تو وہ بھی اس ترمیم سے مستفید ہوں گے۔

تحریک انصاف کا کوئی ''مجاہد'' اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گا اور یہ قانون ستمبر تک معطل ہو جائے گا۔ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دورکے آغاز کے ساتھ ہی صورتحال تبدیل ہوجائے گی۔

سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے پارلیمنٹ کی اہمیت کو کم کرنے اور اپنے ایجنڈے کو محفوظ بنانے کے لیے آئین میں آرٹیکل 62 شامل کیا گیا مگر اس آئین میں منتخب نمایندے کے صالح اور ایماندار ثابت نہ ہونے پر سزا کا ذکر تھا، البتہ سزا کی مدت کا تعین نہیں تھا۔

سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے فیصلہ کی تشریح کرتے ہوئے نااہلی کی مدت عمر بھر کے لیے رکھنے کا حکم صادر کیا تھا۔ ازخود نوٹس مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کا حق نہیں تھا۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی غیر جانبداری ظاہر کرنے کے لیے پی ٹی آئی چیئرمین کے بجائے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے قائد کی خواہش پر ہوا تھا، یوں مخالفین کو میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کو عمر بھر کے لیے نااہلی پر ایک کھلا میدان میسر آگیا ہے۔

یوں ایک پروجیکٹ کے تحت تحریک انصاف برسرِ اقتدار آئی اور پونے چار سال حکومت کی مگر میاں نواز شریف کی نااہلی احتساب عدالت سے سزا اور پھر لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کے باوجود سابق حکومت اپنی پانچ سال کی آئینی مدت پوری نہ کرسکے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے اقتدار میں احتساب کے نام پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو جیلوں میں بند کیا۔ میڈیا کے بیانیہ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال ہوئے۔ کچھ صحافیوں پر پابندی لگی، کچھ نامعلوم افراد کے تشدد کا شکار ہوئے۔

پی ٹی آئی کے دور میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلا۔ پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار سیٹھ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے مقدمات چلانے کے خلاف فیصلہ دیا تھا تو سابقہ حکومت نے سپریم کورٹ سے اپیل کر کے اس پر حکم امتناعی حاصل کر لیا تھا۔

سابقہ حکومت اقتدار کے پونے چار سال ہی مکمل کر پائی تھی کہ اتحادی علیحدہ ہوگئے اور تاریخ میں پہلی دفعہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی تحریک منظور ہوئی اور میاں شہباز شریف وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

تحریک انصاف کے ساتھ وہی سب کچھ ہونے لگا جو تحریک انصاف کی حکومت میں مخالفین کے ساتھ ہوا تھا۔ ملکی تاریخ کے اس حصہ کا تجزیہ کرنے کے لیے تاریخ کے اوراق پلٹیں جائیں تو کچھ سوالات کا جواب ملتا ہے۔


1947ء میںمسلم لیگ نے پاکستان کا اقتدار سنبھالا تو پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مسلم لیگ کے مخالفین کو سیاست سے نکالنے کا مشن شروع کیا۔ صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت توڑ دی گئی، سرخ پوش تحریک کو طاقت کے ذریعہ کچلا گیا، غفار خان کو جیل میں رکھا گیا۔ مولانا بھاشانی، شیخ مجیب الرحمن سندھ میں جی ایم سید وغیرہ کو گرفتار کیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی۔

ایبڈو کے قانون کے تحت بہت سے سیاست دانوں کو نااہل قرار دیا گیا مگر ان تمام اقدامات کے باوجود مسلم لیگ کا اقتدار ڈانوا ڈول رہا۔ آخرکار بیوروکریٹ اسکندر مرزا نے اپنے اقتدار کو بچانے اور ملک میں انتخابات نہ کرانے کے لیے مارشل لاء نافذ کیا اور جنرل ایوب خان پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صدر بن گئے۔

ایوب خان نے جبرکے تمام طریقے استعمال کر کے 10 سال حکومت توکی مگر 1968 میں چلنے والی عوامی تحریک کا مقابلہ نہ کرسکے، اپنا آئین خود منسوخ کیا اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کو منتقل کر گئے۔ منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی، حیدرآباد سازش ٹربیونل قائم کیا۔

نیپ کے علاوہ پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان اور علی بخش تالپورکو بھی اس مقدمہ میں ملوث کیا مگر ضیاالحق اور اس کے ساتھی جرنیلوں نے 5 جولائی 1971 کو بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا اور مارشل لاء لگا دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے لاہور ہائی کورٹ پر دباؤ ڈالا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو سزائے موت دلوائی۔ پھر سپریم کورٹ کے ججوں نے دباؤ اور خوف کے ماحول میں ذوالفقار علی بھٹوکی اپیل کو مسترد کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو پھانسی دیدی گئی۔ بھٹوکی قربانی نے پیپلز پارٹی کو ایک نئی زندگی دی۔ پیپلز پارٹی اور بائیں بازوکی تنظیموں کے کارکنوں نے فوجی حکومت کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔ 1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک میں ہزاروں افراد جیلوں میں گئے،کئی کو پھانسی کی سزا ہوئی، سیکڑوں افراد کوکوڑے مارے گئے اور پھر بھٹوکی بیٹی بے نظیر بھٹو 1988 میں اقتدار میں آگئیں۔

1988 سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ایک بے معنی سیاسی جنگ ہوئی، اس سیاسی جنگ کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو ہوا۔ عوامی سیاست دانوں کی ساکھ کم ہوگئی، یہی وجہ ہے کہ دونوں رہنماؤں نے بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے 2006 میں میثاقِ جمہوریت کیا۔

میثاقِ جمہوریت سے نہ صرف سیاسی استحکام پیدا ہوا بلکہ صوبوں کی محرومی کا سدِباب بھی ہوا۔ پی ٹی آئی کے قائد نے اسٹیبلشمنٹ اور دیگر طاقتور غیرجمہوری قوتوںکی ایماء پر میثاقِ جمہوریت کے خلاف مہم چلائی۔غیرجمہوری قوتوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنے کا منصوبہ بنایا۔

پی ٹی آئی قائد نے اس منصوبہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کرایا۔ قانون کی پاسداری پر یقین رکھنے والوں کے لیے یہ بات حیرت کی ہے کہ پاناما اسکینڈل میں 450کے قریب افراد کا ذکر تھا مگر کارروائی صرف شریف فیملی کے خلاف ہوئی۔

اب پھر حالات تبدیل ہوئے ہیں اور میاں نواز شریف کو دوبارہ سیاست کرنے کا موقع ملنے والا ہے مگر یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ میاں نواز شریف،آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ سیاسی شخصیتوں اور ان کے نظریات کو امتناعی اقدامات سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایم کیو ایم کے بانی قائد کی ایک متنازعہ تقریرکے اوپر ایک آپریشن ہوا جو مختلف شکلوں میں آج بھی کسی طرح جاری نظر آتا ہے۔

ایم کیو ایم کے ہزاروں افراد جیل بھیج دیے گئے، درجنوں افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں مگر کراچی کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافیوں کی رائے ہے کہ بانی قائد کی مقبولیت بدستور برقرار ہے۔

تحریک انصاف کے اکابرین کو اب تو یہ سیکھ جانا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ اور انتہاپسند غیرجمہوری قوتوںکی مدد سے کسی سیاسی رہنما کو سیاست سے وقتی طور پر بے دخل کیا جاسکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔ پی ٹی آئی قائد کو اب اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ڈھونڈنے کے بجائے تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی کوشش کرنی چاہیے۔

تمام سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی بنانے والے ماہرین کو یہ سبق یاد رکھنا چاہیے کہ کسی سیاسی لیڈر اور سیاسی نظریے کو عوام ہی مسترد کرسکتے ہیں۔
Load Next Story