ہم آج کہاں کھڑے ہیں

پاکستان دشمن طاقتوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایٹمی ملک پر فوجی حملہ کرنے کے بجائے اس پر معاشی حملہ کیا جائے


اطہر قادر حسن July 05, 2023
[email protected]

اس بات پر بحث لاحاصل ہے کہ کوئی دشمن ملک خصوصاً ہندوستان پاکستان پر جنگ مسلط کر سکتا ہے لیکن اس پر بحث اور غورو فکر لازم ہے کہ پاکستان کی معیشت برباد کرنے اور اسے سیاسی ابتری، بدامنی پیدا کرے مملکت خدادا پر ایسی کاری ضربیں لگائی جائیں کہ یہاں کاروبار کرنا ممکن نہ رہے اور حالات ایسے بنا دیے جائیں جن کا خدانخواستہ کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا ہے کیونکہ ایسی بے چینی اور تباہ حالات کا قوم مشکل سے ہی مقابلہ کر سکتی ہے۔

لہٰذا پاکستان دشمن طاقتوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایٹمی ملک پر فوجی حملہ کرنے کے بجائے اس پر معاشی حملہ کیا جائے جو فوجی حملے کے مقابلے میں کہیں موثر ، آسان ، کم خرچ اور کاری ہے اور یہ کاری وارکامیابی سے جاری ہیں کیونکہ آج کے جدید دور میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک کوطاقت سے نہیںبلکہ معاشی بربادی سے ہی مغلوب کیا جاسکتا ہے اورہم سب اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

بلاشبہ امریکا اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور کا کردار ادا کر رہا ہے اور دنیا کے ہر کونے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے وہ کسی بھی مہم جوئی سے نہیں چوکتا اور نہ ہی اس کے ہاں معافی کا کوئی خانہ موجود ہے، وہ جب چاہے جہاں چاہے دنیا کے کسی ملک کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے اور بجا رہا ہے ۔

پاکستان امریکا کا ہمسایہ ملک نہیں ہے بلکہ اس سے سات سمندر پار والا تعلق ہے اوراس تعلق کا فیصلہ قیام پاکستان کے فوری بعد ہی ہمارے اس وقت کے فیصلوں سازوں نے کر دیا تھا جنھوں نے اس وقت کی دوسری سپر پاور سوویت یونین جو کہ ہماری جغرافیائی حدوں کے کافی قریب تھی اور کسی حد تک اسے ہمسائیگی کا اعزاز بھی بخشا جا سکتا تھا لیکن شاید اس وقت کوئی مصلحت یا منطق ہوگی جس کی وجہ سے سات سمندر پار والے تعلق کو اہمیت دی گئی اور یوں پاکستان امریکا کا اور ہندوستان روس کا تعلق دار بن گیا اور دونوں نوزائیدہ ملک دو عالمی طاقتوں میں بٹ گئے۔

ہم نے جس دو قومی نظریے کا سہارا لے کر پاکستان بنایا تھا، اس دو قومی نظریے کی بنیاد ہندو مسلم دو قومیں تھیں۔ انڈین نیشنل کانگریس ہر ہندوستانی کو ایک قوم کا فرد قرار دیتی تھی لیکن علامہ محمد اقبال اور ان کے بعد محمد علی جناح نے یہ طے کیا کہ ایک قوم کا تصور عملاً ناممکن ہے۔

اگر ہم انگریزوں سے وہ ہندستان واپس نہیں لے سکتے جو ان کے قبضے سے پہلے ہمارا تھا تو ہمیں مسلمانوں کے لیے اسی ہندوستان میں سے ایک الگ ملک ضرور حاصل کر لینا چاہیے جہاں ہم ہندو ثقافت سے محفوظ رہ کر اپنی پسند کی زندگی گزر سکیں۔ اس کے لیے فضا پہلے سے تیار تھی اور 1940 میں ایک علیحدہ ملک کے حصول کے لیے اعلان کے بعدصرف سات برس کے مختصر عرصے میں پاکستان وجود میں آگیا جس نے دنیا کو بھی حیران کر دیا اور بھارت کی پریشانی میںاضافہ کر دیا۔

پاکستان کے حکمرانوں نے انگریز سے آزادی کے فوری بعد ہی ایک اور غلامی کو ترجیحی دی ، امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیااور یہ آج پچھتر برس کے بعد یہ طوق ہمارے لیے پھانسی کا پھندہ بن چکا ہے۔ ہم پاکستانیوں اور ہماری قیادت نے اس مملکت خداداد کے ساتھ جو سلوک کیا ، اس کو دہرانے کا مطلب اپنے زخموں پر خود ہی نمک پاشی کرنا ہے۔

تاریخ میں اپنے وقت کی کئی ناقابل تسخیر سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور اپنے پیچھے صرف داستانیں چھوڑ گئیں یا پتھروں کی بنی عمارتیں ، جن کی وجہ سے ان کا نام باقی ہے ۔ سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کا نام و نشان مٹ گیا حالانکہ یہ ایک صرف فوجی طاقت نہیں تھی بلکہ ایک نظریے کی بھی علمبردار تھی ۔سوویت یونین کے کیمونسٹ نظریے کو دنیا بھر میں بڑی پذیرائی ملی لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ کیمونسٹ ریاست اپنے ساتھ کمیونزم کو بھی لے ڈوبی۔ دوسری بچ جانے والی طاقت امریکا ہے جو بلاشبہ اس وقت انسانی تاریخ کی سب سے طاقت ور حکومت ہے لیکن امریکا عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا مرکز ہے۔

اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ کسی ملک پر براہ راست حکمرانی کے جائے بلکہ اب زمانہ معاشی حکمرانی کا ہے اور امریکا معاشی ہتھیار کو کامیابی سے استعمال کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر کم وسیلہ ملکوں پر ان ڈائریکٹ حکمرانی کر رہا ہے، ان میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ آئی ایم ایف وہ کاری ہتھیار ہے جس کو امریکا دنیا کی کمزور ریاستوں کو کنٹرول کرتا ہے۔

اس طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ معاشی اور سیاسی بحرانوں میں گھر کرہم آج کہاں کھڑے ہیں، کیا ہمارا ماضی کا فیصلہ درست تھا یا ہم آج جو فیصلے کر رہے ہیں، وہ درست ہیں اوران فیصلوں کے بعد ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔

امریکا سے فاصلے کی دوری کے باوجود اس کے اتحادی والا فیصلہ درست تھا یا آج روس اور ہمسایہ دوست ملک چین کے ساتھ معیشت کے بگاڑ کو ٹھیک کرنے کے لیے امریکا کی مرضی کے بغیر جومعاہدے کیے جا رہے ہیں کیا وہ درست ثابت ہوں گے، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گااور وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں