ریڈ لائن منصوبے کی تکمیل میں تاخیر پروجیکٹ 2025 میں مکمل ہوگا

منصوبہ ماڈل کالونی تا ٹاور براستہ یونیورسٹی روڈ، ایم اے جناح ایکسٹیشن روڈ اور نمائش چورنگی تک تعمیر ہوگا

 یوٹیلٹی ادارے تعاون کررہے ہیں،کنٹریکٹرز کا تعمیراتی مٹیریل کے نئے نرخ کامسئلہ حل کرلیا،کام تیز ہوگیا، جی ایم ٹرانس کراچی، سیفٹی اقدامات ناقص ہیں، ڈاکٹر نواز ۔ فوٹو : فائل

یوٹیلٹی لائنوں کی منتقلی، کنٹریکٹرز سے ریٹس کے امور پر تنازع، تعمیراتی کاموں میں سست روی، تجاوزات، پارکنگ اور دیگر وجوہ کے باعث ریڈ لائن منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کا امکان ہے۔

منصوبہ بندی کے مطابق اس پروجیکٹ کے کوریڈور کو اگست 2024 میں مکمل ہونا ہے تاہم اب موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ منصوبہ 2025 میں مکمل ہوگا، سندھ حکومت کے ادارہ ٹرانس کراچی کی زیر نگرانی منصوبے کا سنگ بنیاد اگست 2022 میں رکھا گیا جسے دو سال میں مکمل کیا جانا ہے۔

منصوبہ ماڈل کالونی تا ٹاور براستہ یونیورسٹی روڈ، ایم اے جناح ایکسٹیشن روڈ، نمائش چورنگی تک تعمیر کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ ریڈ لائن بس منصوبے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک 235ملین ڈالر، ایشین انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ بینک 71.81ملین ڈالر اور فرانسیسی ترقیاتی ادارہ 71.81 ڈالر قرضہ فراہم کرے گا۔

گرین کلائمنٹ فنڈ 49ملین ڈالر فنڈنگ کرے گا جس میں 11.8ملین ڈالر گرانٹ ہوگی اور 37.2ملین ڈالر قرضہ ہوگا۔ اس منصوبے میں سندھ حکومت بھی فنڈز فراہم کر رہی ہے۔

صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کے متعلقہ افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹھیکیداروں نے تعمیراتی میٹریل میں مہنگائی کے سبب ریٹس میں اضافے کا مطالبہ کرکے گزشتہ دو ماہ بعض کمپوننٹ پر ترقیاتی کام بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے مجموعی طور پر پروجیکٹ سست روی کا شکار ہوگیا تاہم اب یہ تنازع حل کرلیا گیا ہے اور تمام اجزا پر ترقیاتی کام جاری ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی روڈ پر قائم تجاوزات بالخصوص نیپا واٹر ہائیڈرنٹس اور صفورا چورنگی پر قائم ہائیڈرینٹس کی وجہ سے واٹر ٹینکرز کی نقل و حرکت اور سڑک پر پارکنگ، یونیورسٹی روڈ کے مختلف مقامات پر کار موٹر سائیکل پارکنگ کی وجہ سے ترقیاتی کام متاثر رہتا ہے۔

ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن ایسٹ آفس کے سامنے پروجیکٹ کے رائٹ آف وے پر قربانی کے جانور کھڑے کیے گئے اور اطراف کے ایریا میں چھوٹی سے مویشی منڈی بھی لگائی گئی، گزشتہ دنوں پرانی سبزی منڈی کے قریب بااثر افراد نے پارکنگ کے مسئلے پر تعمیراتی کام میں رخنہ ڈالا جسے اگرچہ حل کرلیا گیا تاہم کچھ دنوں یہاں تعمیراتی کام متاثر رہا۔


متعلقہ افسران نے کہا کہ یوٹیلیٹی لائنوں کی منتقلی بھی ایک بڑا معاملہ ہے، گزشتہ دنوں جامعہ کراچی کے سامنے کھدائی کے دوران پانی کی 36انچ کی لائن پھٹ گئی جس کی مرمت کی گئی اور اس دوران وہاں تعمیراتی کام بند کرنا پڑا، اس کے علاوہ مین کوریڈور پر زیر زمین پانی و سیوریج کی پائپ لائنیں، بجلی، گیس اور ٹیلی کمیونیکشن کی لائنیں بچھی ہیں جنھیں وقتاً فوقتاً منتقل کرنا پڑ رہا ہے۔

ریجنل پلانر ڈاکٹر نواز الہدیٰ نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ریڈ لائن منصوبے میں سیفٹی اقدامات ناقص ہیں، بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کیا جا رہا ہے اور لیکن رات کو روشنی کا انتظام نہیں، یونیورسٹی روڈ پر سڑک کہیں چوڑی ہے اور کہیں یک دم تنگ ہوجاتی ہے، اگرچہ ان مقامات پر بیریئر رکھے ہوئے ہیں لیکن بہتر روشنی نہ ہونے کے سبب حادثات ہوسکتے ہیں، ٹریفک کے لیے بہتر متبادل راستے نہیں دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی روڈ مختلف مقامات سے خستہ حال ہوچکی ہے لیکن اسے موٹریبل نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر رہتی ہے، ایکسپو سینٹر کے قریب جو کراسنگ بنائی گئی ہے وہ انتہائی خطرناک اور ٹریفک انجینیئرنگ کے مطابق نہیں ہے جس کے سبب حادثات کا خدشہ ہے۔

ٹرانس کراچی کے جنرل منیجر پیر سجاد نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہ مارچ اپریل میں ترقیاتی کام بند رہا تاہم انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ کنٹریکٹرز کی جانب سے ریٹس میں اضافے کے مطالبے کی وجہ سے کام کی رفتار سست ہوگئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ حل ہوگیا اور کنٹریکٹرز کو یقین دہانی کرا دی گئی ہے کہ ان کے مطالبات پر غور کیا جائے گا اور متعلقہ اداروں کی منظوری کے بعد ریٹس میں اضافہ کر دیا جائے گا۔

پیر سجاد نے کہا کہ اب ترقیاتی کام مکمل رفتار سے ہو رہا ہے، ٹرانس کراچی سیفٹی اقدامات بھرپور طریقے سے اٹھا رہا ہے جہاں کھدائی کی جا رہی ہے وہاں جال لگا دیے گئے ہیں، البتہ جہاں مشینری موومنٹ ہو رہی ہے وہاں جال لگانا ممکن نہیں، روشنی کے لیے جگہ جگہ نیوجرسی بیرئیر پر ریفلیکٹر ٹیپ لگا دیے گئے۔

انھوں نے کہا کہ یوٹیلیٹی لائنوں کی منتقلی متواتر جاری ہے اور اس سے ترقیاتی کام قدرے متاثر ہوجاتا ہے، تمام یوٹیلیٹی ادارے بھرپور طریقے سے تعاون کر رہے ہیں، تجاوزات کو ہٹانے کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی بھی مکمل طور پر تعاون کررہی ہے۔ سڑکوں پر پڑے گڑھوں پر فوری بھرائی کرکے اسے موٹریبل بنا دیا جاتا ہے تاہم اس میں بہتری کی گنجائش ہے اور ادارہ کوشش کر رہا ہے کہ کہیں بھی ٹریفک کی روانی متاثر نہ ہو، ٹرانس کراچی ہر کام ٹریفک پولیس کی مشاورت سے کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی روڈ صرف ان مقامات پر دو لین کی ہوئی ہے جہاں اسٹیشنوں کی تعمیر ہو رہی ہے لیکن بیشتر مقامات پر سڑک تین سے چار لین ہیں۔

روجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں پیر سجاد نے محتاط رویہ اختیار کیے رکھا اور کئی بار پوچھے جانے کے بعد انھوں نے کہا کہ منصوبے کے ٹائم فریم کے مطابق کوریڈور کی تعمیر 2024 اور بسوں کی درآمد اور آپریشنل 2025 میں کرنی ہے تاہم موجودہ صورتحال کے پیش نظر کوریڈور بھی 2025 تک مکمل ہوگا اور بسوں کی آمد کے ساتھ یہ اسی سال فعال ہو جائے گا۔
Load Next Story