وقت ہی نہیں

دنیا میں لوگوں کے پاس روپے پیسے کی اتنی کمی نہ ہوگی جتنی وقت کی کمی ہے

کسی بھی چیز یا انسان کو اہم بنانے میں سب سے اہم کردار وقت کا ہے۔ (فوٹو: فائل)

البم میں لگی تصویریں ہوں یا باغ میں کیاریوں سے جھڑتے ہوئے مرجھائے ہوئے پھول۔ کہیں کسی مزار پر لگا بے رنگ پرچم ہو تو کہیں کسی ڈائری کا بوسیدہ ورق... ان سب کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، چاہے ہماری زندگی میں پہلے یہ کتنا ہی اہمیت رکھتے ہوں۔ کیوں کہ وقت بہت کچھ بھلا دیتا ہے۔


کہتے ہیں کہ اچھے وقت سے زیادہ دل نہ لگاؤ کہ اس نے بھی گزر جانا ہے اور برے وقت سے دکھی نہ ہو کیونکہ وہ بھی گزر جاتا ہے۔ زندگی میں ہر چیز کی اہمیت ہوتی ہے لیکن کسی بھی چیز یا انسان کو اہم بنانے میں سب سے اہم کردار وقت کا ہے۔ جی ہاں! وقت ایک ایسا بیش قیمت خزانہ ہے جو ہم پیاروں پر لٹاتے ہیں، ان کو ان کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔


لیکن آج کل یوں ہوتا ہے کہ جسے وقت دو اسے قدر نہیں ہوتی اور جس کی قدر کرو وہ وقت نہیں دیتا۔ یعنی ساری بات ہی وقت کی ہے۔ بچے ہیں تو وہ موبائل موبائل کر رہے ہیں اور بڑے بھی صبح سے شام تک اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں، جیسے خدانخواستہ ذرا سی نظر چوکی تو قیامت آجائے گی۔


خاوند موبائل پکڑے بیٹھا ہے، بیوی آوازیں دیے گلا سکھا رہی ہے ''اجی سنتے ہیں، میری بات تو سن لیں، آپ تھوڑا سا وقت مجھے بھی تو دے دیں۔'' مگر مجال ہے کہ اس طرف شوہر کا دھیان ہو۔ موبائل یوں تھامے رکھیں گے گویا ایک کروڑ کی لاٹری نکل آئی ہو۔


شومئی قسمت اگر بات سن بھی لیں تو یہی کہ ''یہی بات پہلے بتا دیتیں، ایسا بھی کیا تھا، نظریں موبائل پر تھیں سنا تو کانوں سے جاتا ہے، وہ میرے تمھاری طرف تھے''۔


اگر بحث ہونے لگے تو یہی کہا جاتا ہے ''ارے تم تو ناشکری عورت ہو، سارا دن تمھارے اور بچوں کےلیے ہی تو سر کھپاتا ہوں، دو پل سکون کا سانس تک نہ لوں''۔


بچے بڑے سب کے پاس وقت ہی نہیں۔ مجھے تو اس توجیہہ پر بہت حیرت ہوتی ہے کہ وقت نہیں۔ ہم معذرت خواہ ہیں وقت نہیں۔ ہم یہ نہیں کرسکتے، وہاں نہیں جاسکتے وقت نہیں۔


دنیا میں لوگوں کے پاس روپے پیسے کی اتنی کمی نہ ہوگی جتنی وقت کی کمی ہے۔ جبکہ دن بھر میں 24 گھنٹے سب کے پاس ہیں۔ سب کے پاس اپنی اپنی حیثیت کے مطابق وسائل بھی ہیں اور سب کے پاس اپنے اپنے بہانے بھی ہیں، جن کی بنیادی وجہ ترجیحات ہیں۔



جو آپ کی ترجیح ہے وہی آپ کی زندگی ہے۔ کسی کےلیے یونیورسٹی اہم، کسی کےلیے دوست، کسی کےلیے رشتے اور سب کےلیے موبائل۔ اب ہم ترجیحات اپنے حساب سے سیٹ کرتے رہتے ہیں۔ اور اسی حساب سے تمام چیزوں کو وقت دیتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ وقت ہم دوستوں یاروں، میاں بیوی، بہن بھائیوں، والدین اور بچوں سب میں سے محبت، پیار اور اخلاص کو نکال دیتا ہے۔ جب وقت ہم میں سے رشتوں کو باہر نکال کر ختم کردیتا ہے تب ہم صرف کھوکھلے انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں، یعنی ایسے افراد پھر جنہیں نہ کسی تعلق کی پروا ہوتی ہے اور نہ ہی اخلاص کی قدر۔ اور یہ بھی ہے کہ اس کے بعد ہم زندگی میں آنے والے مخلص لوگوں کی قدر نہیں کرتے اور انھیں دھتکارنے لگتے ہیں۔


زیادہ دکھ تو مجھے تب ہوتا ہے جب میں یہ نوٹس کرتی ہوں کہ میاں بیوی، بہن بھائی آپس میں ایک دوسرے کو وقت نہیں دیتے اور جب وقت ان کے مابین رشتہ ختم کردیتا ہے اور نظر انداز ہونے والے رشتے اپنے لیے الگ دلچسپیاں ڈھونڈ لیتے ہیں تو بلیم گیم شروع ہوجاتا ہے جو کسی صورت درست نہیں کہ تم نے میرا خیال نہیں کیا۔


اب کوئی یہ پوچھے کہ جب آپ کا خیال کیا جارہا تھا تو تب آپ نے کون سا پروا کی تھی، تب تو آپ گونگے کا گڑ کھا کر منہ سجا کر بیٹھے ہوئے تھے اور جب دوسرے بندے نے ذرا سی بے نیازی کیا دکھا دی، آپ تو ہتھے سے ہی اکھڑ گئے۔


یہ بھی غلط ہے کہ اگر ایک شخص آپ کو وقت کی کمی کا بتائے تو آپ اس کی مجبوری کو نہ سمجھیں اور اس کےلیے مشکل کھڑی کریں۔ بلکہ رشتوں میں توازن اور محبت سے چلیں لیکن اگر بار بار آپ کی ناقدری ہو تو آپ کا ایک سمت ہوجانا بہتر ہوتا ہے۔


تو بہتر یہی ہے کہ زندگی میں پچھتاوے سے بچا جائے کیونکہ یہ زندہ انسان کو بھی مردہ بنا دیتے ہیں۔ پھر خالی تصویریں البم میں لگی رہ جاتی ہیں، فون پر آخری ایس ایم ایس یا کال باقی رہ جاتی ہے اور بوسیدہ قبریں موجود رہ جاتی ہیں۔ لیکن اس سب کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دل میں ہمیشہ کےلیے ایک کسک اور خلش باقی رہ جاتی ہے۔ اس کسک اور خلش سے بچیے اور زندگی میں ہی اپنے رشتوں کا خیال کیجیے۔ مرنے کے بعد قبروں پر چراغ جلا کر یا فاتحہ پڑھ پڑھ کر نہیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story