دہشت گردی… چند حقائق
دہشت گردی پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور سب نے مل کر اس عفریت سے لڑنا ہے
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ خطے میں پائیدار امن شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام رکن ممالک کی ذمے داری ہے، ریاستی دہشت گردی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کے ساتھ پورے عزم سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ ریاستی دہشت گردی میں معصوم لوگوں کا قتل اور سیاسی ایجنڈے کے تحت مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانا قابل مذمت فعل ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے 23 ویں سربراہی اجلاس سے خطاب میں دہشت گردی کے عالمی مسئلے کی درست نشاندہی کی،کیونکہ آج دہشت گردی کا عفریت پوری دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے، پچھلی صدی سے لے کر آج تک بلا مبالغہ لاکھوں انسان اس کا شکار ہوچکے ہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ پوری دنیا کے اہل فکر اس مسئلے کی شدت کا رنگ، نسل، مذہب اور دیگر ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہوکر نہ صرف جائزہ لیں بلکہ اس کے حل کے لیے عملی تجاویز بھی پیش کریں۔ آج دنیا میں غیر ریاستی دہشت گردی کی بازگشت تو بڑی واضح ہے لیکن ریاستی دہشت گردی کا ذکر بوجوہ گول کر دیا جاتا ہے، حالانکہ غیر ریاستی دہشت گردی کو مہمیز دینے میں ریاستی دہشت گردی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔
2001 کے بعد سے پاکستان کو 19 ہزار سے زیادہ دہشت گردانہ حملوں کا سامنا رہا ہے۔ عالمی دہشت گردی میں طاقتور ممالک کا بھی کردار رہا ہے۔ عالمی برادری نے تمام تر حقائق کے باوجود اس اہم معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے اور فنڈنگ کر نے کے الزامات لگانے میں بھی بھارت اور افغانستان کی خارجہ پالیسی کے اہم اہداف رہے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام بھی انھی ملکوں کی حکومتوں کے پراپیگنڈے کا نتیجہ رہا ہے۔ افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت کے ذمے داران سے جب بھی ٹی ٹی پی اور پاکستان میں دہشت گردی کا سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ پاکستان اپنے اندر دہشت گرد تلاش کرے، اس کا کیا مقصد ہے۔ اس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہیں ہیں بلکہ پاکستان میں ہی ہیں۔
افغانستان پر کرزئی سے لے کر اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ کے اقتدار تک اور اب طالبان کے دور میں بھی افغانستان سے بہتر کسی ملک نے دہشت گردی کو استعمال نہیں کیا ہے یعنی افغانستان کا برسراقتدار گروہ مظلوم بن کر امریکا اور اتحادی ممالک سے اربوں روپے کی امداد ہڑپ کرتا رہا لیکن طالبان سے لڑنے کی باری آئی تو بھاگ کھڑے ہوئے بلکہ طالبان کے ساتھ مل گئے، اسی طرح کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت کے دوران بھی افغانستان کا ستراسی فیصد طالبان کے زیر کنٹرول تھا، قطر میں ان کا دفتر قائم تھا۔
پاکستان میں دہشت گردی ہوتی تو افغانستان کی حکومت پاکستان پر الزام عائد کردیتی جب کہ افغان طالبان بھی بیان داغ دیتے کہ پاکستان میں دہشت گردی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ افغان طالبان کے پاکستان میں موجود نظریاتی گروپس ان کی کھلے عام حمایت کرتے رہے، غیرقانونی تجارت،اسلحہ اور گاڑیوں کی اسمگلنگ، ڈرگز اورمنشیات کی اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ کردیا۔
بھارت نے بھی ان حالات سے خوب فائدہ اٹھایا، ماضی میں بھی بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ رہا اور اب طالبان حکومت بھی بھارت سے گندم کا عطیہ وصول کرنے میں ندامت محسوس نہیں کررہی ہے ۔
جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا تعلق ہے تو بھارت اور افغانستان دونوں نے یہ جنگ نہیں لڑی، اس خطے میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ صرف پاکستان کی افواج،رینجرز، ایف سی، پولیس اور انٹیلی جنس اداروں نے لڑی ہے، پاکستان کی سیاسی جماعتوں، مذہبی سیاسی جماعتوں، تنظیموں، این جی اوز کا بھی اس میں ذرہ برابر حصہ نہیں ہے۔
ملک کے ادبی حلقے، شاعر ، ادیب، اسکرین پلے رائٹرز،ڈرامہ نویس کا بھی دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ لڑنے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ افغان طالبان تو اس جنگ کا خود ایک فریق تھے، انھوں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے کیا کردار ادا کرنا تھا۔
بھارت کی اسٹیبلشمنٹ نے اس حالات سے خوب فائدہ اٹھایا، پہلے خالصتانیوں کو کچلا اور پھر مقبوضہ کشمیر کی جنگ آزادی کو دہشت گردی کا رنگ دیا، بھارت میں ہونے والی کئی دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور ہندو انتہاپسند جماعتیں ملوث نکلی ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کی جانب سے بھارت کو خبردار کیا گیا ہے۔ بھارتی فوجی کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا حصہ چلے آرہے ہیں، اپنی اس مہم کو چھپانے کے لیے بھارت نے بڑے پاپڑ بیلے، لیکن بھارت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
بھارت میں انتہا پسندی کا عروج ہے جس کا سورج پچھلی دو دہائیوں سے پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے بلکہ اس کی حدت اور تمازت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے لیکن مغربی دنیا اور امریکا نہ صرف، اس کو نظر انداز کررہے ہیں بلکہ بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ ان کی مسلسل خاموشی بھارتی انتہا پسند حکومت کی بھر پور حمایت کرتی نظر آتی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی راتوں رات اقتدار میں نہیں آئے بلکہ یہ تقریباً پون صدی قبل اپنے انتہا پسند نظریات ''ہندو توا '' کی بنیاد پر بھارتی معاشرے میں مقبولیت حاصل کر چکے تھے۔ مودی کے چیف منسٹری کے دور 2002 میں مسلمانوں کی بھارتی ریاست گجرات میں جس طرح سے قتل وغارت کی گئی اس پر جدید تاریخ کے مورخین بھی حیران ہیں۔ یہ بھارت کی جمہوری ریاست کے چہرے پر وہ بد نما داغ ہے جو یقینا کبھی مٹایا نہ جا سکے گا۔ مظلوم مسلمانوں کو بھارتی عدالتیں بھی انصاف نہ دے سکیں اور وہ آج بھی اپنے شہداء کے کیسوں کو کندھوں پر اٹھائے انصاف کی طلب میں خوار ہوتے پھر رہے ہیں۔
بھارتی عدالتوں نے عدم پیروی اور دوسرے بہانوں سے کبھی انصاف کی نیّا کو پار نہیں لگنے دیا۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام،1992 میں بابری مسجد کا انہدام بھارت میں انتہاپسندی کا ثبوت ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ نے بھی بھارتی انتہا پسندی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور 9 نومبر 2019 کو ایک متنازع فیصلہ جو تقریباً واقعہ کے پیش آنے کے 25 سال بعد منظر عام پر آیا، نے بھی مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دے کر یہ ثابت کر دیا کہ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کو قطعاً کوئی تحفظ نہیں۔
موجودہ بھارتی حکومت کے دور میں اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں مزید بڑھتی جا رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے متعلق بھارتی قانون سے شق370 اور آرٹیکل 35A کا حذف کیا جانا بھی انتہا پسندی کے عزائم کی توسیع کی طرف ایک قدم ہے۔
5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے جب یہ قدم اٹھایا تو وہ مکمل طور پر پُراعتماد تھی کہ اسرائیل اور دوسرے مسلمان مخالف ممالک کی سرپر ستی میں مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر بھارتی یونین میں مدغم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، لیکن کشمیری عوام بھارتی افواج کی جارحانہ اور متشددانہ کارروائیوں کے سامنے سر نگوں نہ ہو ئے اور تو اور، بھارتی کرفیو اور سرچ آپریشن کی آڑ میں آئے دن کشمیری مظلوم، نہتے اور معصوم جوانوں کی شہادت بھی ان کے عزائم کو متزلزل نہیں کر سکی اور آج بھی مقبوضہ کشمیر پاکستانی پرچم اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعروں سے گونج رہا ہے۔
دہشت گردی کی تاریخ تو بہت طویل ہے مگر پاکستان کے ساتھ اس کی جڑ کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب افغانستان کی انقلابی حکومت نے سوویت یونین سے فوجی مدد طلب کی تھی جس کی بنیاد پر سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ امریکا، نیٹو اور دیگر اتحادیوں نے اپنے سامراجی مفادات کے تحفظ کی خاطر افغانستان کو میدان جنگ میں تبدیل کرکے اس لڑائی کو کفر اور اسلام کے درمیان جنگ بنا ڈالا۔
افغانستان کی مذہبی قیادت اور بادشاہت کی پیداوار افغان اشرافیہ نے اپنے ہی ملک کو جنگ کا میدان بنانے کی منظوری دی اور سامراجی قوتوں کے آلہ کار بن گئے، پھر دنیا بھر سے مسلمان نوجوان جو شدت پسندانہ رحجانات رکھتے تھے، وہ افغانستان میں وارد ہوگئے ۔دراصل دہشت گردی کی اتنی شاخیں اور مختلف انتہا پسند تنظیموں کی وبا اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ انسانیت اپنی دونوں بانہیں سر پر رکھ کر رو رہی ہے۔ ہر ملک اور ہر سماج دوسرے پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا رہا ہے۔
سچ بات تو یہی ہے کہ دہشت گردی پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور سب نے مل کر اس عفریت سے لڑنا ہے۔ دنیا کے عدل پسندوں کو بہر حال یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف اس قدر قربانیاں نہ تو امریکا اور اس کے شہریوں نے دی ہیں، اور نہ ہی یورپ کے کسی ملک یا عوام نے دی ہیں، جس قدر قربانیاں پاکستان کے عوام اور سیکیورٹی فورسز نے دی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا کفیل ملک نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ملک ہے۔ امریکا ، یورپ اور دنیا بھر کے عدل پسندوں کو اس حقیقت کا اعتراف و ادراک کرنا چاہیے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے 23 ویں سربراہی اجلاس سے خطاب میں دہشت گردی کے عالمی مسئلے کی درست نشاندہی کی،کیونکہ آج دہشت گردی کا عفریت پوری دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے، پچھلی صدی سے لے کر آج تک بلا مبالغہ لاکھوں انسان اس کا شکار ہوچکے ہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ پوری دنیا کے اہل فکر اس مسئلے کی شدت کا رنگ، نسل، مذہب اور دیگر ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہوکر نہ صرف جائزہ لیں بلکہ اس کے حل کے لیے عملی تجاویز بھی پیش کریں۔ آج دنیا میں غیر ریاستی دہشت گردی کی بازگشت تو بڑی واضح ہے لیکن ریاستی دہشت گردی کا ذکر بوجوہ گول کر دیا جاتا ہے، حالانکہ غیر ریاستی دہشت گردی کو مہمیز دینے میں ریاستی دہشت گردی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔
2001 کے بعد سے پاکستان کو 19 ہزار سے زیادہ دہشت گردانہ حملوں کا سامنا رہا ہے۔ عالمی دہشت گردی میں طاقتور ممالک کا بھی کردار رہا ہے۔ عالمی برادری نے تمام تر حقائق کے باوجود اس اہم معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے اور فنڈنگ کر نے کے الزامات لگانے میں بھی بھارت اور افغانستان کی خارجہ پالیسی کے اہم اہداف رہے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام بھی انھی ملکوں کی حکومتوں کے پراپیگنڈے کا نتیجہ رہا ہے۔ افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت کے ذمے داران سے جب بھی ٹی ٹی پی اور پاکستان میں دہشت گردی کا سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ پاکستان اپنے اندر دہشت گرد تلاش کرے، اس کا کیا مقصد ہے۔ اس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہیں ہیں بلکہ پاکستان میں ہی ہیں۔
افغانستان پر کرزئی سے لے کر اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ کے اقتدار تک اور اب طالبان کے دور میں بھی افغانستان سے بہتر کسی ملک نے دہشت گردی کو استعمال نہیں کیا ہے یعنی افغانستان کا برسراقتدار گروہ مظلوم بن کر امریکا اور اتحادی ممالک سے اربوں روپے کی امداد ہڑپ کرتا رہا لیکن طالبان سے لڑنے کی باری آئی تو بھاگ کھڑے ہوئے بلکہ طالبان کے ساتھ مل گئے، اسی طرح کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت کے دوران بھی افغانستان کا ستراسی فیصد طالبان کے زیر کنٹرول تھا، قطر میں ان کا دفتر قائم تھا۔
پاکستان میں دہشت گردی ہوتی تو افغانستان کی حکومت پاکستان پر الزام عائد کردیتی جب کہ افغان طالبان بھی بیان داغ دیتے کہ پاکستان میں دہشت گردی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ افغان طالبان کے پاکستان میں موجود نظریاتی گروپس ان کی کھلے عام حمایت کرتے رہے، غیرقانونی تجارت،اسلحہ اور گاڑیوں کی اسمگلنگ، ڈرگز اورمنشیات کی اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ کردیا۔
بھارت نے بھی ان حالات سے خوب فائدہ اٹھایا، ماضی میں بھی بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ رہا اور اب طالبان حکومت بھی بھارت سے گندم کا عطیہ وصول کرنے میں ندامت محسوس نہیں کررہی ہے ۔
جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا تعلق ہے تو بھارت اور افغانستان دونوں نے یہ جنگ نہیں لڑی، اس خطے میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ صرف پاکستان کی افواج،رینجرز، ایف سی، پولیس اور انٹیلی جنس اداروں نے لڑی ہے، پاکستان کی سیاسی جماعتوں، مذہبی سیاسی جماعتوں، تنظیموں، این جی اوز کا بھی اس میں ذرہ برابر حصہ نہیں ہے۔
ملک کے ادبی حلقے، شاعر ، ادیب، اسکرین پلے رائٹرز،ڈرامہ نویس کا بھی دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ لڑنے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ افغان طالبان تو اس جنگ کا خود ایک فریق تھے، انھوں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے کیا کردار ادا کرنا تھا۔
بھارت کی اسٹیبلشمنٹ نے اس حالات سے خوب فائدہ اٹھایا، پہلے خالصتانیوں کو کچلا اور پھر مقبوضہ کشمیر کی جنگ آزادی کو دہشت گردی کا رنگ دیا، بھارت میں ہونے والی کئی دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور ہندو انتہاپسند جماعتیں ملوث نکلی ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کی جانب سے بھارت کو خبردار کیا گیا ہے۔ بھارتی فوجی کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا حصہ چلے آرہے ہیں، اپنی اس مہم کو چھپانے کے لیے بھارت نے بڑے پاپڑ بیلے، لیکن بھارت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
بھارت میں انتہا پسندی کا عروج ہے جس کا سورج پچھلی دو دہائیوں سے پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے بلکہ اس کی حدت اور تمازت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے لیکن مغربی دنیا اور امریکا نہ صرف، اس کو نظر انداز کررہے ہیں بلکہ بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ ان کی مسلسل خاموشی بھارتی انتہا پسند حکومت کی بھر پور حمایت کرتی نظر آتی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی راتوں رات اقتدار میں نہیں آئے بلکہ یہ تقریباً پون صدی قبل اپنے انتہا پسند نظریات ''ہندو توا '' کی بنیاد پر بھارتی معاشرے میں مقبولیت حاصل کر چکے تھے۔ مودی کے چیف منسٹری کے دور 2002 میں مسلمانوں کی بھارتی ریاست گجرات میں جس طرح سے قتل وغارت کی گئی اس پر جدید تاریخ کے مورخین بھی حیران ہیں۔ یہ بھارت کی جمہوری ریاست کے چہرے پر وہ بد نما داغ ہے جو یقینا کبھی مٹایا نہ جا سکے گا۔ مظلوم مسلمانوں کو بھارتی عدالتیں بھی انصاف نہ دے سکیں اور وہ آج بھی اپنے شہداء کے کیسوں کو کندھوں پر اٹھائے انصاف کی طلب میں خوار ہوتے پھر رہے ہیں۔
بھارتی عدالتوں نے عدم پیروی اور دوسرے بہانوں سے کبھی انصاف کی نیّا کو پار نہیں لگنے دیا۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام،1992 میں بابری مسجد کا انہدام بھارت میں انتہاپسندی کا ثبوت ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ نے بھی بھارتی انتہا پسندی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور 9 نومبر 2019 کو ایک متنازع فیصلہ جو تقریباً واقعہ کے پیش آنے کے 25 سال بعد منظر عام پر آیا، نے بھی مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دے کر یہ ثابت کر دیا کہ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کو قطعاً کوئی تحفظ نہیں۔
موجودہ بھارتی حکومت کے دور میں اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں مزید بڑھتی جا رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے متعلق بھارتی قانون سے شق370 اور آرٹیکل 35A کا حذف کیا جانا بھی انتہا پسندی کے عزائم کی توسیع کی طرف ایک قدم ہے۔
5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے جب یہ قدم اٹھایا تو وہ مکمل طور پر پُراعتماد تھی کہ اسرائیل اور دوسرے مسلمان مخالف ممالک کی سرپر ستی میں مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر بھارتی یونین میں مدغم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، لیکن کشمیری عوام بھارتی افواج کی جارحانہ اور متشددانہ کارروائیوں کے سامنے سر نگوں نہ ہو ئے اور تو اور، بھارتی کرفیو اور سرچ آپریشن کی آڑ میں آئے دن کشمیری مظلوم، نہتے اور معصوم جوانوں کی شہادت بھی ان کے عزائم کو متزلزل نہیں کر سکی اور آج بھی مقبوضہ کشمیر پاکستانی پرچم اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعروں سے گونج رہا ہے۔
دہشت گردی کی تاریخ تو بہت طویل ہے مگر پاکستان کے ساتھ اس کی جڑ کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب افغانستان کی انقلابی حکومت نے سوویت یونین سے فوجی مدد طلب کی تھی جس کی بنیاد پر سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ امریکا، نیٹو اور دیگر اتحادیوں نے اپنے سامراجی مفادات کے تحفظ کی خاطر افغانستان کو میدان جنگ میں تبدیل کرکے اس لڑائی کو کفر اور اسلام کے درمیان جنگ بنا ڈالا۔
افغانستان کی مذہبی قیادت اور بادشاہت کی پیداوار افغان اشرافیہ نے اپنے ہی ملک کو جنگ کا میدان بنانے کی منظوری دی اور سامراجی قوتوں کے آلہ کار بن گئے، پھر دنیا بھر سے مسلمان نوجوان جو شدت پسندانہ رحجانات رکھتے تھے، وہ افغانستان میں وارد ہوگئے ۔دراصل دہشت گردی کی اتنی شاخیں اور مختلف انتہا پسند تنظیموں کی وبا اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ انسانیت اپنی دونوں بانہیں سر پر رکھ کر رو رہی ہے۔ ہر ملک اور ہر سماج دوسرے پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا رہا ہے۔
سچ بات تو یہی ہے کہ دہشت گردی پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور سب نے مل کر اس عفریت سے لڑنا ہے۔ دنیا کے عدل پسندوں کو بہر حال یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف اس قدر قربانیاں نہ تو امریکا اور اس کے شہریوں نے دی ہیں، اور نہ ہی یورپ کے کسی ملک یا عوام نے دی ہیں، جس قدر قربانیاں پاکستان کے عوام اور سیکیورٹی فورسز نے دی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا کفیل ملک نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ملک ہے۔ امریکا ، یورپ اور دنیا بھر کے عدل پسندوں کو اس حقیقت کا اعتراف و ادراک کرنا چاہیے۔