کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کاش کوئی ایسا شفاف نظام ہو جس میں ایمانداری ، قابلیت اور کردار کی بنیاد پر صرف مستند لوگوں کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک پاکستان کی بھاگ دوڑ سنبھال سکیں۔
کہتے ہیں ذمہ داری جتنی بڑی ہوتی ہے اس کے سنبھالنے والے کے انتخاب کا عمل بھی اتنا ہی کڑا ہوتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بلکل برعکس صورتحال ہے۔عوام کو سالوں بعد رہزنوں کے ہجوم سے رہبر کے انتخاب کا ایک نایاب موقع ملتا ہے۔ لیکن افسوس عوام اپنے حق کا بھر پور استعمال کرنے کے بعد بھی پہلے جیسی یا اس سے بھی بد تر صورتحال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میں، آپ اور ہم سب اسی عوام میں سے ہیں جو عرصہ داز سے ظلم و ستم سہتے چلے آرہے ہیں۔ ہم سب ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت یا اس کے نمائندوں پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سارا قصور حکمرانوں کا ہی ہے بلکہ ہم خود بھی اندر ہی اندر خود غرض ، لالچی اور بے حس ہو چکے ہیں۔ نہیں سمجھے؟ ارے صاحب یہ سارا چکر ''فائدے'' کا ہے۔
محلہ کمیٹی کی بیٹھک سے لے کر وزیراعظم کے دفتر تک ہر کام فائدے کے لئے کیا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں تمام انسانوں کی مفادات کی کڑیاں ایک دوسرے سے منسلک ہوں۔ وہاں ناکام ریاست اور کھوکھلی جہموریت کا ایسا ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔
ذرا سوچئے کہ ہم کس بنیاد پر کسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں؟ کیا اس پارٹی کا نمائندہ جو یقنا سابقہ ایم پی اے یا ایم این اے ہوگا کیا اس کے ہمارے والد ، چچا ،تایا، ماموں کے ساتھ تعلق ہیں؟ کیا وہ ہمارا اچھا جاننے والا ہوتا ہے؟ یا پھر تھانے کچہری کے کاموں میں مدد کرتا ہے؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف ہم بلکہ ہم اپنے محلے والوں، دوست احباب اور رشتے داروں کے ووٹ کا بھی انہی سے سودا کریں گے۔ جس کے بدلے میں ہمیں سرکاری نوکری کا وعدہ دیا جاتا ہے۔ یا کسی کو بیٹے کے لئے ویزہ مل جاتا، کسی کو بینک سے قرضہ اور کسی کا عدالت میں رکا ہوا کوئی کیس حل ہوجاتا۔ غرض یہ کہ اس سب کے پیچھے کوئی نہ کوئی لالچ ضرور ہوتی ہے۔ اور یہ بتاتے ہوئے ہم بہت فخر محسوس کرتے ہیں کہ فلاں ایم پی اے نے ہمارے کہنے پر ایس ایچ او کو فون کیا یا اپنے کارڈ پر پٹواری کےنام پیغام لکھا وغیرہ وغیرہ۔
محلے ،کالونی یا کسی دیہات کا چوہدری بھی اسی پارٹی کی حمایت کرے گا جس سے اسے فائدے کی امید ہے اور اس کے زیراثر لوگ بھی اپنے مقصد کے لئے ہی اس کے پیچھے آئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سارے عمل میں ہم نے اپنی ذات سے ہٹ کر ملک کے مفاد کے لئے کچھ سوچا ؟ کیا ہم نے ایک لمحے کے لئے بھی غور کیا کہ یہ پارٹی اس قوم کا مستقبل سنوارنے کے قابل ہے بھی کہ نہیں ؟کیا ہم نے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ یہ تو وہی لوگ ہیں جن کے پاس کئی سالوں سے جھوٹ ،مکاری اور اداکاری کے سوا کچھ بھی نہیں؟
کیا آپ کو ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اور ہمارے حکمران ایک جیسے ہی ہیں؟ ہر کوئی اپنی حیثیت اور اپنی اوقات کے مطابق اپنے ہی فائدے کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ جو جتنی اونچی جگہ پر ہے اس کا فائدہ بھی اتنا ہی بڑا ہوگا۔ بحثیت عوام ہمارا فائدا ہزاروں ، لاکھوں یا پھر کروڑوں روپے تک کا ہو سکتا ہے تو پھر حکمرانوں کے فائدے تو اربوں اور کھربوں تک ضرور ہوں گے۔ لیکن ہمیں اس کی کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیئے کیوں کہ اپنے فائدے کی دوڑ میں وہ بھی اندھے ہیں اور ہم بھی تو پھر رونا کس بات کا ؟ یہ واویلا کس لئے ؟ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے اور انفرادی فائدوں کی خاطر مستقبل کے بڑے نقصان کا خود انتخاب کرتے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں ہمارے نوجوانوں کے بڑے حصے نے مثبت اور تعمیری سوچ کا انداز اپنایا جو امید کی ایک چھوٹی سی کرن ہے اور میری التجا ہے ان سارے نوجوانوں سے کہ سوچ کی تبدیلی کے اس عمل کو ماند نہ پڑنے دیں۔ بلکہ آگے بڑھ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالیں اور ایک ایسا پاکستان بنائیں جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا۔ کاش ہم چھوٹے چھوٹے فائدوں کے بجائے اجتماعی اور قومی فائدے کا سوچیں تو ملک کی کوئی طاقت ہمیں ترقی سے نہیں روک سکتی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔