اہم مقدمات

یہ دو ماہ پاکستان کی سیاست اور نظام انصاف کے لیے بہت اہم ہیں

msuherwardy@gmail.com

چیف جسٹس محترم عمر عطاء بندیال کی یوٹیوبرز سے ملاقات کی خبریں سامنے آئی ہیںاور اس کے مندرجات بھی سوشل میڈیا پر آئے۔ شاید جنھیں بلایا نہیں گیا' انھوں نے کسی سے سن کر مندرجات جاری کیے ہیں کیونکہ جنھوں نے ملاقات کی ہے' وہ ابھی تک خاموش ہیں۔

ویسے جو باتیں سامنے آئی ہیں 'موجودہ صورتحال میں ان پر یقین کیا جا سکتا ہے' جب ججز کے اختلاف زبان زد عام ہیں تو یقیناً اس ایشو پر بھی سوال و جواب تو ہوئے ہی ہوں گے۔اگر اس پر سوال ہو گا تو کوئی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اختلاف نہیں ہے تاہم سوال یہ اہم ہے کہ محترم چیف جسٹس کو یوٹیوبرز سے ملاقات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟یقیناً پس منظر میں کچھ نہ کچھ تو ہو گا۔

بہر حال کیا ایسی ملاقات کی جانی چاہیے تھی' اس حوالے سے میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا کیونکہ میں کوڈ آف کنڈکٹ کے پیرا میٹرز سے آگاہ نہیں ہوں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پر باتیں تو ہوں گی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ 16ستمبر کو ہے۔ اس طرح ان کی ریٹائرمنٹ میں تقریباً دو ماہ ہی رہ گئے ہیں۔ یہ دو ماہ پاکستان کی سیاست اور نظام انصاف کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ ابھی عدالت عظمیٰ میں کافی اہم مقدمات زیر سماعت ہیں جن کا فیصلہ دو ماہ میں ہو سکتا ہے' ان مقدمات کے فیصلے ملک کی سیاسی مبادیات پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں' ایک انتہائی اہم مقدمہ تو ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کا ہے۔ کیا نو مئی کے ملزمان کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل روکنے کافیصلہ آئے گا؟

اس مقدمہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے عید سے قبل غیر معینہ مدت تک ملتوی کی ہے۔ لیکن وہ یہ مقدمہ دوبارہ کب سنیں گے؟یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ کیا جسٹس یحییٰ آفریدی دوبارہ اس بنچ کا حصہ بنیں گے؟ کیا ان کے فل کورٹ بنانے کے نوٹ کے بعد وہ یہ مقدمہ سنیں گے۔ اگر جسٹس یحییٰ آفریدی بنچ سے علیحدہ ہو جائیں گے تو پھر کیا نیا بنچ بنایا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر پانچ جج رہ جائیں گے۔ اس لیے ملٹری کورٹ کا کیس ایک اہم کیس بن گیا ہے۔


میں تو ویسے ججز کی گروپنگ کا کوئی زیادہ قائل نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر جج اپنے اندر ایک مکمل جج ہوتا ہے۔ اور اسے کسی بھی قسم کی گروپنگ کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ہر جج اپنے اندر مکمل آزاد ہوتا ہے۔ اسے اپنے کام میں کسی کی کوئی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن پھر بھی ہم نے سپریم کورٹ میں کافی گروپنگ دیکھی ہے۔ یہ صورتحال کوئی اچھی نہیں۔ کیا چیف جسٹس صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ گروپنگ جاری رہے گی؟ اس کا خاتمہ کسی بھی طرح ممکن نظر نہیں آرہا۔

چیف جسٹس پر مشتمل بنچ کے حکم کے مطابق پنجاب میں14مئی کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات نہیں ہو سکے ہیں۔ عدالت نے اپنا حکم بھی واپس نہیں لیا ہے لیکن اس پر عمل بھی نہیں ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریٹائرمنٹ سے پہلے اس معاملہ کو بھی نبٹانا ہے۔ انھوں نے توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی ہے۔ لیکن حکم بھی واپس نہیں لیا ہے۔ یہ عجیب صورتحال ہے۔ وہ اس کو ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتے کیونکہ بعد میں کوئی دوسرا بنچ کوئی اور فیصلہ بھی دے سکتا ہے۔

اسی طرح پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا معاملہ بھی درمیان میں ہے۔ ججزمیں اس حوالے سے واضح اختلاف ہے۔ ابھی تک یہی سمجھ آرہی ہے کہ حکم امتناعی سے ہی معاملہ چلتا رہے گا تاکہ اس معاملے پر اگلا چیف جسٹس فیصلہ کرے۔ تا ہم یہ تنازعہ کافی بڑھ چکا ہے۔ اس کو اس طرح چھوڑنا بھی بعد میں نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کے تبادلے کا معاملہ بھی ایسا ہے جو درمیان میں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وفاقی حکومت ان کے تبادلے کا حکم دے چکے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں سپریم کورٹ میں جونیئر ججز کی تعیناتی بھی ایک متنازعہ معاملہ رہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کر کے تعیناتیوں کے حق میں نہیں رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ محترم چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے کے بعد جب جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس بنیں گے تووہ جونیئر ججز کا کیا کرتے ہیں۔ یہ ایک اہم سوال ہے۔

بہر حال یقیناً چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے پاس وقت کم رہ گیا ہے۔ ہر گزرتا دن ان کے لیے اہم ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی اننگ کیسے ختم کرتے ہیں۔ کیا یہ تنازعات میں ہی ختم ہوگی یا وہ ان دو ماہ میں تنازعات کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔
Load Next Story