امیرالمومنین سیدنا عثمان ذوالنورینؓ

حضرت سیدنا عثمان غنیؓ کی شان بہت بلند وبالا ہے، آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے

ashfaqkhan@express.com.pk

امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کی مشہور شاخ بنو امیہ سے ہے، ماں اور باپ دونوں قریشی تھے۔ پانچویں پشت میں آپ کا سلسلہ نسب حضورﷺ سے مل جاتا ہے۔

آپ آقا کریم رسول اللہﷺ کے دہرے داماد ہیں، نبی کریمﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپؓ کے نکاح میں آئیں، جس کی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کا لقب دیا گیا۔ آپؓ کا نام عثمان بن عفان ہے، زمانہ جاہلیت میں آپ کی کنیت ''ابو عمرو'' تھی، جب اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوئے اور رسول اللہﷺ نے اپنی لخت جگر حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے آپ کا نکاح کردیا تو ان کے بطن سے عبداللہ پیدا ہوئے، تب آپ نے اپنی کنیت ابو عبداللہ رکھ لی۔

آپ کا لقب''ذوالنورین'' یعنی دو نور والا ہے، جب رسول اللہﷺ کو نبوت و رسالت سے نوازا گیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تحریک پر آپ اسلام لائے۔ آپ چوتھے مرد تھے جو دولت اسلام سے بہرہ ور ہوئے۔ آپ کو ذوالہجرتین یعنی دو ہجرتوں والے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی، آپ خلفائے راشدین یعنی حضرت سیدنا ابو بکرصدیق، حضرت سیدنا عمر فاروق، حضرت سیدنا عثمان غنی، حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تیسرے خلیفہ ہیں۔

حضرت سیدنا عثمان غنیؓ کی شان بہت بلند وبالا ہے، آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ عشرہ مبشرہ وہ دس خوش نصیب صحابہ کرام ہیں جنھیں حضور اکرم ﷺ نے ان کی حیات میں ہی جنتی ہونے کی بشارت عطا فرمادی تھی۔

حضرت عثمان غنی ؓ دولت و ثروت کے اعتبار سے تمام صحابہ میں ممتاز تھے لیکن آپ نے اپنی دولت و ثروت کو کبھی راحت و آرام، عیش و عشرت کا ذریعہ نہیں بنایا۔ آپ کی دولت ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے کام آئی۔ جب حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا جو یہودی کا تھا وہ اس کنویں کا پانی فروخت کرتا تھا غریب مسلمان قیمت دیے بغیر میٹھا پانی نہیں پی سکتے تھے آپ نے 24 ہزار درہم میں یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔

سنن ترمذی میں ہے: حضرت سیدنا عبد الرحمان بن خبابؓ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھا اورحضورﷺ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو ''جیش عسرت'' (یعنی غزوہ تبوک)کی تیاری کے لیے ترغیب ارشاد فرما رہے تھے۔

سیدنا عثمان بن عفانؓ نے اٹھ کر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ پالان اور دیگر متعلقہ سامان سمیت 100 اونٹ میرے ذمے ہیں، حضور اکرمﷺ نے صحابہ کرامؓ سے پھرترغیباً فرمایا تو سیدنا عثمان غنیؓ دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہﷺ ، میں تمام سامان سمیت 200 اونٹ حاضر کرنے کی ذمے داری لیتا ہوں، حضور اکرمﷺ نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے پھرترغیباً ارشادفرمایا تو سیدنا عثمان غنی ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں مع سامان300 اونٹ اپنے ذمے لیتا ہوں، راوی فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ حضورﷺ یہ سن کر منبرسے نیچے تشریف لائے اور دومرتبہ فرمایا: آج سے عثمانؓ جوکچھ کرے اس پر مواخذہ یعنی پوچھ گچھ نہیں (سنن ترمذی دارالفکر بیروت)۔

ہجرت کے بعد جب مسلمان مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تھے نبی کریمﷺ نے ایک چھوٹی مسجد بنائی لیکن چند روز بعد مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تو یہ مسجد نماز کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہوگئی۔ نبی کریمﷺ نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا''جو شخص مسجد سے ملے فلاں فلاں مکانات خرید کر مسجد میں شامل کردے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں مکان عطا فرمائے گا اور اس کے گناہ معاف کر دے گا۔'' حضرت عثمان ؓ نے پچیس ہزار اشرفیوں سے وہ مکانات خرید کر مسجد نبوی میں شامل کردیے۔

حضرت عثمان غنی ؓ نے جہاں ہر مرحلے پر اپنی جان و مال سے اسلام اور مسلمانوں کی پوری پوری مدد کی وہاں خاص طور پر اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خدمت سے بھی آپ کبھی غافل نہیں رہے۔ ہمیشہ اہل بیت کی ضرورتوں کا خیال رکھتے اور جب بھی آپ کو ان کی کسی ضرورت کی خبر ہوجاتی تو اس کو پورا کرنے کی حد درجہ کوشش کرتے۔


ایک بار چار دن تک اہل بیت رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کھانا میسر نہ آیا۔ رسول اللہﷺ تشریف لائے، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے پوچھا تم کو کچھ کھانے کو ملا؟ ام المومنین نے فرمایا یارسول اللہ! کہاں سے ملتا؟ ہمیں جو کچھ اللہ تعالٰی عطا فرماتے ہیں وہ آپ ہی کے ذریعے سے عطا کرتے ہیں۔

رسول اکرمﷺ یہ سن کر خاموش ہوگئے، وضوکیا اور مسجد میں نفل پڑھنے لگے۔ آپ تھوڑی تھوڑی دیر بعد نماز کی جگہ تبدیل فرماتے تھے اتنے میں حضرت عثمان ؓ آگئے اور اجازت طلب کی، حضرت عثمانؓ نے ام المومنین سے رسول اﷲﷺ کا حال دریافت کیا۔ انھوں نے کہا اے ابن عم! چار دن سے اہل بیت رسول نے کچھ نہیں کھایا۔

یہ سن کر عثمان غنیؓ رونے لگے۔ روتے روتے واپس چلے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد کئی اونٹ گیہوں، اور کھجور سے لدے ہوئے، ایک بکرا، سو درہم لے کر آئے۔ پھر خیال آیا کہ اس کو پکانے میں دیر لگے گی، پھر پکا ہوا کھانا لے کر آئے۔ جب حضور اکرمﷺ مسجد سے واپس تشریف لائے تو ام المومنین نے تمام تفصیل بتائی۔ آپﷺ بیٹھے نہیں واپس مسجد میں تشریف لے گئے اور عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے دعا فرمائی۔

حدیبیہ میں رسول اللہﷺ نے آپ کو اپنا نمایندہ بنا کر مکہ بھیجا کفار مکہ نے آپ کو قید کرلیا مگر رسول خداﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ عثمانؓ کو شہید کردیا گیا ہے۔ آپ کو بہت صدمہ ہوا اور آپ نے موت کے لیے صحابہ سے بیعت لی۔ بعد ازاں آپ کو یہ خبر ملی کہ عثمانؓ زندہ ہیں مگر قید میں ہیں۔ یہ خبر سن کر آپﷺ نے اپنے ہاتھ کو حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ بیعت عثمانؓ کی طرف سے ہے۔ اس بیعت کا نام بیعت الرضوان ہے۔

حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں میں نے حضرت عثمانؓ کومسجدنبوی میں فرش پراس کیفیت میں قیلولہ کرتے دیکھا کہ جسم پرکنکروں کے نشانات نمایاں تھے، حالانکہ وہ اس وقت خلیفہ تھے جب کہ اس وقت ایشیااورافریقہ کے اکثرحصے پران کی حکمرانی تھی، سیدنا عثمان بن عفانؓ شرم و حیا کے پیکر تھے، آپ کو جامع القرآن بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ حضرت عثمان بن عفانؓ کی دینی خدمات میں اہم ترین اوریادگار خدمت کتابت قرآن کریم کے لیے مخصوص رسم الخط کا تعین ہے، قرآن مجید کو کتابی شکل میں لانے کے لیے ان کی کوششیں نمایاں ہیں۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن سلامؓ فرماتے ہیں کہ جن دنوں باغیوں نے حضرت سیدنا عثمانؓ کے مکان کا محاصرہ کیا ہوا تھا، ان کے گھر میں پانی کی ایک بوند تک نہیں جانے دی جا رہی تھی اور حضرت سیدناعثمان غنیؓ پیاس کی شدت سے نڈھال ہو جاتے تھے میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو آپؓ اْس دن روزہ سے تھے، مجھ کو دیکھ کر فرمایا: اے عبد اللہ بن سلامؓ! میں نے آج رات تاجداردو جہان صلی اللہ علیہ وسلم کو اس روشن دان میں دیکھا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں ارشاد فرمایا ''اے عثمانؓ! ان لوگوں نے پانی بند کر کے تمہیں پیاس سے بے قرار کر دیا ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں، تو فوراً ہی آپ نے ایک ڈول میری طرف لٹکا دیا جو پانی سے بھرا ہوا تھا، میں اس سے سیراب ہوا اور اب اس وقت بھی اس پانی کی ٹھنڈک اپنے سینہ اور دونوں کندھوں کے درمیان محسوس کر رہا ہوں۔

پھر حضور اکرمﷺ نے مجھ سے فرمایا، اے عثمانؓ اگر تمہاری خواہش ہو تو ان لوگوں کے مقابلے میں تمہاری امداد کروں اور اگر تم چاہو تو ہمارے پاس آکر روزہ افطارکرو، میں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ آپ کے دربارپر انوار میں حاضر ہو کر روزہ افطار کرنا مجھے زیادہ عزیز ہے، حضر ت سیدنا عبداللہ بن سلامؓ فرماتے ہیں کہ میں اس کے بعد رخصت ہو کر چلا آیا اور اسی روز باغیوں نے آپؓ کو شہید کر دیا۔ 18 ذوالحجہ 35 ہجری کو جلیل القدرصحابی امیر المومنین سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ نہایت مظلومیت کے ساتھ شہید کیے گئے۔

امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی نہایت مظلومانہ شہادت مسلمانوں کے لیے ایک بڑے سانحہ ، پْردرد المیہ اور عظیم حادثہ سے کم نہیں تھی اس موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شدتِ غم میں ڈوب گئے۔
Load Next Story