
یہ بہت بڑا پروگرام ہے، مارشل پلان سے بھی11 گنا بڑا جس نے یورپ کو دوسری جنگ عظیم کے کھنڈرات سے دوبارہ تعمیر کیا، اس کا مقصد نئی سڑکوں، تیز رفتار ریل، پاور پلانٹس، پائپ لائنوں، بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کے ذریعے سلک روڈ کو بحال کرنا ہے۔
سی پیک ایشیا، یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے60 ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ٹیلی کمیونیکیشن روابط کا بھی اہم ذریعہ ہے۔یہ ایک بار مکمل ہونے کے بعد دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کا احاطہ کر سکتا ہے اور21 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی جی ڈی پی پیدا کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کو سی پیک میں رکاوٹ بننے کے بجائے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، وزیراعظم
امریکی تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے یہ ممکنہ طور پر عالمی جغرافیائی سیاست کے ساتھ ساتھ جیو اکنامکس کو بھی متاثر کر سکتا ہے اور امریکہ کو چیلنج کر سکتا ہے۔ ان خدشات نے مغربی میڈیا میں بحث چھیڑ دی ہے جس میں تجزیہ کاروں نے بی آر آئی یعنی سی پیک کو ایک قرض کے جال کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جو ان کے بقول شکاری قرضے کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو غیر پائیدار قرضوں میں پھنساتا ہے۔
پاکستانی حکام کی جانب سے اس منصوبے کو گیم چینجرکے طور پر بیان کیا گیا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ توانائی کے ایک پرانے بحران کو ختم کرے گا، پرانے ڈھانچے کی بحالی، صنعتی پارکس قائم کرے گا اورگوادر پورٹ کے ذریعے چین کے لیے ٹرانزٹ ٹریڈ کے امکانات کو کھول دے گا۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔