باغی گروپ کے سربراہ پریگوزن ساتھیوں سمیت واپس روس چلے گئے صدر بیلا روس

باغی گروپ کے سربراہ معاہدے کے تحت اسلحہ اور پیسہ لینے کے لیے روس گئے ہیں، امریکی اخبار کا دعویٰ

فوٹو انٹرنیٹ

بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے کہا ہے کہ ویگنز گروپ کے باغی سربراہ وگینی پریگوزن اپنے جنگجوؤں کے ساتھ روس میں موجود ہیں اور ماسکو حکام کے ہاتھوں اُن کی ہلاکت کی خبریں بے بنیاد ہیں۔

جمعرات کے روز میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ وگینی پریگوزن کو معاہدے کے تحت نجی ملائیشیا ختم کر کے ساتھیوں سمیت بیلا روس منتقل ہونا تھا مگر انہوں نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور وہ اب بھی روس میں ہی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بیلا روس اب بھی پریگوزن کی میزبانی کی پیش کش پر کھڑا ہے، روس میں ہونے والی بغاوت پر نیٹو ممالک کو تشویش ہے جس پر جلد ہی پیوٹن سے بات کروں گا۔

الیگزینڈر نے کہا کہ پریگوزن بیلا روس میں تو نہیں البتہ پیٹرز برگ میں تھا اور اُسے صبح ماسکو کیلیے روانہ ہونا تھا، غالبا روس کی سیکیورٹی فورسز نے اُس پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔

لوکاشینکو نے کہا کہ اگر پیوٹن ویگنر گروپ کے سربراہ کو قتل کرنا چاہتے تھے تو اس سے بہت زیادہ خونریزی ہوتی مگر ہماری مداخلت پر انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ایسی کوئی بھی انتقامی کارروائی نہیں کریں گے اور وہ اپنی اس بات پر قائم جبکہ باغی گروپ کے جنگجو بھی یوکرین میں قائم کیمپوں میں ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: روس میں فوجی بغاوت کا خطرہ ٹل گیا، باغی گروپ کے سربراہ کا اہلکاروں کو واپس جانے کا حکم


بیلاروسی رہنما نے اس سوال کو مسترد کر دیا کہ آیا پیوٹن بحران سے کمزور ہوئے ہیں، لیکن کہا کہ وہ بغاوت کے پیچھے محرکات کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال اپنے عروج پر اتنی سنگین تھی کہ بیلاروسی خصوصی دستے ماسکو کے دفاع میں مدد کے لیے پرواز کے لیے تیار تھے۔

لوکاشینکو نے کہا کہ پیوٹن پریگوزن کو 30 سال سے جانتے تھے، اور یہ کہ ویگنر کی بنیاد روس کی GRU ملٹری انٹیلی جنس سروس نے رکھی تھی اور وہ روس کی بہترین جنگجو قوت تھی۔

بیلا روز کے صدر نے کہا کہ روسی صدر اور باغی گروپ کے سربراہ سے فون پر رابطہ ہے اور اُن دنوں کے فیصلے پر آئندہ کی صورت حال واضح ہوگی۔

لوکاشینکو نے کہا کہ پریگوزن اور ویگنر نے روس کے لیے کام جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے تجویز پیش کی ہے کہ نجی کمپنی کے جنگجوؤں کو یوکرین کے خطرناک علاقوں میں بھیجا جائے۔

دوسری جانب کریملن نے باغی گروپ کے سربراہ کے مقام اور واپسی کے حوالے سے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے گریز کیا ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر پریگوزن بغیر کسی شرط کے واپس آجاتے ہیں تو اس سے پیوٹن کی پوزیشن کمزور ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی بغاوت بڑا دھچکا اور پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے، روسی صدر

اُدھر امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ باغی گروپ کے سربراہ معاہدے کے تحت اسلحہ اور پیسہ لینے کے لیے روس گئے ہیں۔
Load Next Story