سیّدنا عثمان غنی ؓ کی شہادت
آپؓ حافظِ قرآن، جامعُ القرآن اور ناشرُ القرآن بھی ہیں
خلیفۂ سوم، پیکر جُود و سخا سیدنا عثمان غنیؓ کو حضور اکرمؐ نے کئی بار جنّت کی بشارت دی۔
آپؐ کو ''عشرہ مبشرہ'' میں بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ حضور اکرمؐ ﷺ کی دو بیٹیوں حضرت سیدہ رقیہؓ اور حضرت سیدہ ام کلثوم ؓ کے ساتھ یکے بعد دیگرے نکاح کی وجہ سے حضرت عثمان عنیؓ کو ''ذوالنورین'' بھی کہا جاتا ہے۔
آپؓ نے خلیفۂ اوّل سیدنا صدیق اکبر ؓ کی دعوت پر اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو نور ِایمان سے منور کیا۔ طبقات ابن سعد کے مطابق آپؓ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں جس کی وجہ سے آپ ؓ السابقون الاوّلون کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ آپ ؓ حافظ قرآن، جامع القرآن اور ناشر القرآن بھی ہیں۔
اسلام کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کرنے کی وجہ سے آپؓ کا لقب ''ذوالہجرتین'' بھی ہے۔
آپ کا نام عثمان اور لقب ذوالنورین ہے، آپؓ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ آپؓ کا تعلق قریش کی سب سے بڑی شاخ بنوامیہ سے ہے۔ سیّدنا عثمان غنیؓ خوب صورت و باوجاہت اور متوازن قد و قامت کے مالک تھے، گھنی داڑھی اور دراز زلفوں کی وجہ سے سیدنا عثمان غنی ؓ جب لباس زیب تن کر کے عمامے سے مزّین ہوتے تو انتہائی خوب صورت نظر آتے۔
اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ اپنی ثروت و سخاوت میں مشہور اور شرم و حیا کی صفت میں بے مثال تھے۔ تجارت کی بہ دولت آپ ؓ کا شمار صاحب ثروت لوگوں میں ہوتا تھا لیکن آپؓ کی طرزِ زندگی سادگی سے عبارت تھی۔ رہن سہن، اخلاق و اطوار اور کردار میں آپ ؓ کا ہر کام سنت نبوی ﷺ سے ہی آراستہ و مزین ہوتا۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ ''بیعتِ رضوان'' کے موقع پر سیدنا عثمان غنیؓ، حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے سفیر بن کر مکہ گئے تھے کہ خبر مشہور ہوگئی کہ سیدنا عثمان غنیؓ شہید کردیے گئے، حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ کون ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کا بدلہ لینے کے لیے میرے ہاتھ پر بیعت کرے گا، اس وقت تقریباً چودہ سو صحابہ کرامؓ رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے حضرت عثمان غنیؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے حضور اکرمؐ ﷺ کے ہاتھ مبارک پر ''موت کی بیعت'' کی۔
اس موقع پر حضور اقدسؐ نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ ''بیعت'' عثمانؓ کی طرف سے ہے اس بیعت کا نام بیعت رضوان اور ''بیعت شجرہ'' ہے۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنے والوں سے اپنی رضا اور خوش نُودی کا اعلان فرمایا ہے۔ جنگ تبوک کے موقع پر حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم کو اس جنگ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی۔
ایک روایت کے مطابق اس موقع پر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں جنگ تبوک کے لیے اﷲ کے راستے میں دیں تو حضور اقدسؐ منبر سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت سے اس قدر خوش تھے کہ آپؐ اپنے دست مبارک سے اشرفیوں کو الٹ پلٹ رہے تھے اور فرماتے تھے کہ آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو کبھی اتنا ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپؐ کی بغل مبارک ظاہر ہوجائے مگر عثمانِ غنی ؓ کے لیے جب آپؐ دعا فرماتے تھے تو بغل مبارک ظاہر ہوجاتی تھی۔
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ ایک مدت تک ''کتابتِ وحی'' جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے۔ اس کے علاوہ حضور اقدسؐ کے خطوط وغیرہ بھی لکھا کرتے تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ رات کو بہت تھوڑی دیر کے لیے سوتے تھے اور تقریباً تمام رات نماز و عبادت میں مصروف رہتے۔ آپؓ ''صائم الدہر'' تھے، سوائے ایام ممنوعہ کے کسی دن روزے کا ناغہ نہ ہوتا تھا، جس روز آپؓ شہید ہوئے اس دن بھی آپؓ روزے سے تھے۔
جب حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو آپؐ اور صحابہ کرامؓ کو میٹھے پانی کے لیے بڑی دقّت و تکلیف تھی، صرف ایک میٹھے پانی کا کنواں تھا جس کا نام بیر رومہ'' تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا، وہ یہودی جس قیمت پر چاہتا منہگے داموں پانی فروخت کرتا۔ حضور اقدسؐ نے فرمایا کہ جو شخص اس کنویں کو خرید کر اﷲ کی راہ میں وقف کر دے اس کے لیے جنّت کی بشارت و خوش خبری ہے۔ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے اس کنویں کو خرید کر وقف کردیا۔
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ 24ھ میں نظام خلافت کو سنبھالا اور خلیفہ مقر ر ہوئے تو شروع میں آپؓ نے22 لاکھ مربع میل پر حکومت کی۔ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں مملکت اسلامیہ کی حدود بہت وسیع ہوگئی تھیں۔ انتظامی اور رفاعی شعبوں کا اجراء، ہر علاقے میں سستے انصاف کی عدالتوں کا قیام بھی آپ ؓ کا منفرد کارنامہ ہے۔
حضرت عثمان غنیؓ کا دور خلافت بے مثال اصلاحات اور رفاعی مہمّات سے عبارت ہے، سادہ طرز زندگی، سادہ اطوار، اعلیٰ اخلاق، عام آدمی تک رسائی، ظلم و جور سے نفرت، زیادتی اور تجاوز سے دوری آپؓ کے شاہ کار کارناموں میں شامل ہے۔
18ذوالحجہ کو چالیس روز کے بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنیؓ کو جمعۃ المبارک کے روز، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے روزے کی حالت میں انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ نے 12سال تک 44 لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطے پر اسلامی سلطنت قائم کرنے اور نظام خلافت کو چلانے کے بعد جام شہادت نوش کیا۔
آپؐ کو ''عشرہ مبشرہ'' میں بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ حضور اکرمؐ ﷺ کی دو بیٹیوں حضرت سیدہ رقیہؓ اور حضرت سیدہ ام کلثوم ؓ کے ساتھ یکے بعد دیگرے نکاح کی وجہ سے حضرت عثمان عنیؓ کو ''ذوالنورین'' بھی کہا جاتا ہے۔
آپؓ نے خلیفۂ اوّل سیدنا صدیق اکبر ؓ کی دعوت پر اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو نور ِایمان سے منور کیا۔ طبقات ابن سعد کے مطابق آپؓ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں جس کی وجہ سے آپ ؓ السابقون الاوّلون کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ آپ ؓ حافظ قرآن، جامع القرآن اور ناشر القرآن بھی ہیں۔
اسلام کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کرنے کی وجہ سے آپؓ کا لقب ''ذوالہجرتین'' بھی ہے۔
آپ کا نام عثمان اور لقب ذوالنورین ہے، آپؓ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ آپؓ کا تعلق قریش کی سب سے بڑی شاخ بنوامیہ سے ہے۔ سیّدنا عثمان غنیؓ خوب صورت و باوجاہت اور متوازن قد و قامت کے مالک تھے، گھنی داڑھی اور دراز زلفوں کی وجہ سے سیدنا عثمان غنی ؓ جب لباس زیب تن کر کے عمامے سے مزّین ہوتے تو انتہائی خوب صورت نظر آتے۔
اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ اپنی ثروت و سخاوت میں مشہور اور شرم و حیا کی صفت میں بے مثال تھے۔ تجارت کی بہ دولت آپ ؓ کا شمار صاحب ثروت لوگوں میں ہوتا تھا لیکن آپؓ کی طرزِ زندگی سادگی سے عبارت تھی۔ رہن سہن، اخلاق و اطوار اور کردار میں آپ ؓ کا ہر کام سنت نبوی ﷺ سے ہی آراستہ و مزین ہوتا۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ ''بیعتِ رضوان'' کے موقع پر سیدنا عثمان غنیؓ، حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے سفیر بن کر مکہ گئے تھے کہ خبر مشہور ہوگئی کہ سیدنا عثمان غنیؓ شہید کردیے گئے، حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ کون ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کا بدلہ لینے کے لیے میرے ہاتھ پر بیعت کرے گا، اس وقت تقریباً چودہ سو صحابہ کرامؓ رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے حضرت عثمان غنیؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے حضور اکرمؐ ﷺ کے ہاتھ مبارک پر ''موت کی بیعت'' کی۔
اس موقع پر حضور اقدسؐ نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ ''بیعت'' عثمانؓ کی طرف سے ہے اس بیعت کا نام بیعت رضوان اور ''بیعت شجرہ'' ہے۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنے والوں سے اپنی رضا اور خوش نُودی کا اعلان فرمایا ہے۔ جنگ تبوک کے موقع پر حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم کو اس جنگ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی۔
ایک روایت کے مطابق اس موقع پر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں جنگ تبوک کے لیے اﷲ کے راستے میں دیں تو حضور اقدسؐ منبر سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت سے اس قدر خوش تھے کہ آپؐ اپنے دست مبارک سے اشرفیوں کو الٹ پلٹ رہے تھے اور فرماتے تھے کہ آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو کبھی اتنا ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپؐ کی بغل مبارک ظاہر ہوجائے مگر عثمانِ غنی ؓ کے لیے جب آپؐ دعا فرماتے تھے تو بغل مبارک ظاہر ہوجاتی تھی۔
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ ایک مدت تک ''کتابتِ وحی'' جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے۔ اس کے علاوہ حضور اقدسؐ کے خطوط وغیرہ بھی لکھا کرتے تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ رات کو بہت تھوڑی دیر کے لیے سوتے تھے اور تقریباً تمام رات نماز و عبادت میں مصروف رہتے۔ آپؓ ''صائم الدہر'' تھے، سوائے ایام ممنوعہ کے کسی دن روزے کا ناغہ نہ ہوتا تھا، جس روز آپؓ شہید ہوئے اس دن بھی آپؓ روزے سے تھے۔
جب حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو آپؐ اور صحابہ کرامؓ کو میٹھے پانی کے لیے بڑی دقّت و تکلیف تھی، صرف ایک میٹھے پانی کا کنواں تھا جس کا نام بیر رومہ'' تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا، وہ یہودی جس قیمت پر چاہتا منہگے داموں پانی فروخت کرتا۔ حضور اقدسؐ نے فرمایا کہ جو شخص اس کنویں کو خرید کر اﷲ کی راہ میں وقف کر دے اس کے لیے جنّت کی بشارت و خوش خبری ہے۔ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے اس کنویں کو خرید کر وقف کردیا۔
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ 24ھ میں نظام خلافت کو سنبھالا اور خلیفہ مقر ر ہوئے تو شروع میں آپؓ نے22 لاکھ مربع میل پر حکومت کی۔ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں مملکت اسلامیہ کی حدود بہت وسیع ہوگئی تھیں۔ انتظامی اور رفاعی شعبوں کا اجراء، ہر علاقے میں سستے انصاف کی عدالتوں کا قیام بھی آپ ؓ کا منفرد کارنامہ ہے۔
حضرت عثمان غنیؓ کا دور خلافت بے مثال اصلاحات اور رفاعی مہمّات سے عبارت ہے، سادہ طرز زندگی، سادہ اطوار، اعلیٰ اخلاق، عام آدمی تک رسائی، ظلم و جور سے نفرت، زیادتی اور تجاوز سے دوری آپؓ کے شاہ کار کارناموں میں شامل ہے۔
18ذوالحجہ کو چالیس روز کے بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنیؓ کو جمعۃ المبارک کے روز، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے روزے کی حالت میں انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ نے 12سال تک 44 لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطے پر اسلامی سلطنت قائم کرنے اور نظام خلافت کو چلانے کے بعد جام شہادت نوش کیا۔