بارشیں وسائل اور انتظامات کا فقدان

سیاسی رہنماء جوڑ توڑ میں مصروف رہتے ہیں عوام بیچارے مہنگائی اور غربت سے دست و پا ہیں

سیاسی رہنماء جوڑ توڑ میں مصروف رہتے ہیں عوام بیچارے مہنگائی اور غربت سے دست و پا ہیں۔ فوٹو : اسکرین گریب

ملک میں مون سون سیزن کی ابتدائی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، پاکستان کے بالائی پہاڑی علاقوں اور میدانی علاقوں بارشیں ہورہی ہیں۔

لاہور میں موسلا دھار بارش کا تیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، چھتیں گرنے، کرنٹ لگنے اور ڈوبنے سے خواتین، بچوں اور پولیس اہلکار سمیت بارہ افراد جاں بحق ہوگئے۔کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی بارش کے نتیجے میں بجلی اور ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا، جب کہ خیبر پختو نخوا کے مختلف اضلاع میں شدید بارش اور درخت گرنے کے سبب 3 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ پنجاب، خیبر پختو نخوا، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے علاقوں میں اگلے 48 گھنٹوں کے دوران شدید بارشوں کا امکان ہے، جس سے ارب فلڈنگ کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ بارش کی شدت نے لاہور میں سیوریج سسٹم کو مفلوج کردیاجس کی وجہ سے شہر کی بڑی سڑکوں سے لے کر گلی محلے تک نہر کا منظر پیش کرنے لگے۔پوش ایریاز سے لے کر عام شہری آبادیاں تک تالاب بن گئیں۔میونسپل سٹسم کی ناکامیاںکھل کر سامنے آئیں۔

کراچی، لاہور سمیت ملک کے مختلف چھوٹے، بڑے شہروں میں بے ہنگم آبادیوں، ناقص سیوریج سسٹم، گندے نالوں کی صفائی نہ ہونے اور گندے نالوں کے سکڑنے، سڑکوں کی تعمیر میں سول انجیئرنگ کی کمزوریوں اور خامیوں نے مون سون سیزن کو قدرتی آفت بنا دیا ہے۔

ہماری صوبائی حکومتیں ہر وقت لاہور اور کراچی کو لندن ، پیرس اور نیویارک بنانے کا دعویٰ اور وعدہ کرتی ہیں۔ہرسال اربوں روپے خرچ کرنے کا اعلان ہوتا ہے لیکن بڑے شہریوں کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں۔

شہریوں پر ایک اور ظلم یہ ہوتا ہے کہ بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ آجاتا ہے، گٹروں کے ڈھکن غائب ہوتے ہیں، سڑکوں کے عین درمیان میں گہرے کھڈے بھی بند نہیں کیے جاتے، ان وجوہات کی بنا پر جان لیوا حادثات ہوتے ہیں۔ اتنا نقصان ہونے کے بعد کسی محکمہ کو ذمے دار نہیں ٹہرایا جاتا۔ جن کے گھروں میں پانی داخل ہوا ہے، ان کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے بر وقت کوئی انتظام بھی نہیں کیا جاتا۔شہری ادارے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔

دراصل بارشوں کے تناسب میں اضافے کا ایک سبب موسمیاتی تبدیلی بھی ہے۔ پاکستان میں گلوبل وارمنگ یا موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں میں اضافے اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا چھٹا ملک بن گیا ہے۔

حکومت نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے بارش اور شہروں میں اربن فلڈنگ سے پیش آنے والے خطرات سے تو بروقت خبردار کر دیا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ حکومت اور متعلقہ محکموں کے پاس فوری اور طویل المیعاد منصوبے ہیں یا نہیں۔ ماضی میں کئی بار مختلف علاقوں میں سیلاب آچکے ہیں۔

ماضی کے تجربات کی روشنی میں قدرتی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ ملک میں سیلابی صورت حال اور پانی کی قلت دونوں صورتوں کے تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ کیا حکومت نے سیلاب کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام اداروں کو مربوط کر لیا ہے۔

ہمارے ملک میں بیش تر تباہ کاری قدرتی آفات کی وجہ سے کم اور ناقص منصوبہ بندی سے زیادہ ہے۔ ایک طرف گرمی کی شدت کی وجہ سے شہری بارش کی دعا کر رہے تھے لیکن جب بارش ہوتی ہے تو اس کی تباہ کاری قومی ذرائع ابلاغ کا موضوع بن جاتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی ناقص کارکردگی کا سب سے بڑا نمونہ کراچی ہے۔

کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر ہے جہاں بارش کے پانی کی نکاسی کا انتظام سب سے زیادہ ناقص ہے۔ اس شہر کو دو برساتی ندیوں کا سلسلہ ملیر ندی اور لیاری ندی کے نام سے میسر تھا، لیکن اس شہر میں نکاسی آب کا نظام تباہ کردیا گیا۔ شہر کا ناقص اور تباہ حال بلدیاتی ڈھانچہ معمول سے زیادہ کی بارش کو برداشت نہیں کرسکتا۔


ناقص بلدیاتی نظام کی وجہ سے شہریوں کی تربیت بھی نہیں ہوسکی ہے۔ ہمارے ملک میں معمول سے زیادہ بارشوں کا سلسلہ قدرتی آفت بن جاتا، ماضی میں کم از کم دو سے تین بار پورا شہر مفلوج ہوچکا ہے۔

گزشتہ برس پاکستان میں مون سون کی شدید بارشیں اور سیلاب آئے تھے جس کے باعث ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا۔ سیلاب سے 1700 سے زائد اموات، تین کروڑ 30 لاکھ متاثر اور 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

دراصل ملک میں بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام موجود ہے، اگر موجود ہے تو کیا ندی، نالوں اور گٹروں کی صفائی بلدیاتی اداروں اور صوبائی حکومتوں نے شروع کردی ہے، تو جواب نفی میں ہے، بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور قبل از وقت حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

مون سون کی تیز بارشیں سیلاب کا سبب بنتی ہیں، جس میں سب سے زیادہ نقصان کسانوں کو ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت کم پریمیم کی بنیاد پر زرعی انشورنس کا نظام لائے، تاکہ کسانوں کے نقصان کا ازالہ ہوسکے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ممکنہ حالات سے بچاؤ کے لیے پاکستان کی حکومت نے اب تک کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ پاکستان میں عوام کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں کی غفلت و لاپرواہی کے نتائج گزشتہ سالوں میں آنے والے سیلاب کے دوران قوم بھگت چکی ہے۔

صفائی ستھرائی کی ناگفتہ بے صورتحال عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہے، اگر شہروں میں بارش کے پانی کے نکاس کے نظام کو پورا سال جاری رکھا جائے اور پانی کی گزرگاہوں کو صاف ستھرا اور ان کے اطراف درخت لگا کر خوبصورت بنایا جائے ، شہروں میں بارش کی چھوٹی گزرگاہوں پر ڈھکن لگائے جائیں۔ گندے پانی اور بارش کے پانی کے نکاس کا انتظام علیحدہ علیحدہ رکھا جائے، تو عوام بھی بارش سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

انتظامی نظم و نسق ہمیشہ سے پاکستان کا مسئلہ رہا ہے۔ بحران چاہے سیاسی ہوں یا سماجی یا پھر قدرتی، یہاں مسائل بے شمار ہیں لیکن ان کا حل ندارد۔ بارشوں اور سیلاب کو ہی لیجیے پچھتر برس گزرگئے ابھی تک ہر سال مون سون تباہی اور بربادی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ مون سون کی بارشیں کوئی نیا عمل نہیں ہیں۔ ہر سال بارشیں ہوتی ہیں، تباہی ہوتی ہے، چیخ و پکار، اموات اور پھر معاملہ ختم۔ افسوس اِس بات کا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی اور انفرادی طور پر بارشوں سے ہونے والے نقصانات سے سبق سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔

ہر سال سیلاب اور بارش کی تباہ کاریاں حکومتی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ عمومی رائے کے مطابق ملک کے اعلٰی افسران، سیاستدان اور پالیسی ساز ادارے ملک میں موجود 'ازلی سیاسی بحران' کو نپٹانے میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ شاید ان کے پاس اور کچھ کرنے کے لیے وقت ہی نہ بچتا ہو اور یہی وجہ ہے کہ شاید پاکستان میں ابھی تک کسی اور بحران کو توجہ ہی نہیں دی جا سکی۔

چند حلقوں کے مطابق نشیبی علاقوں میں تعمیر اور غیر قا نونی تجاوزات جیسے مسائل پاکستان میں رشوت ستانی اور اقرباء پروری کی وجہ سے اکثر نظر انداز ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً بارشوں اور سیلاب کے موقع پر اموات، تباہی اور نقل مکانی کی بڑی وجہ بنتی ہیں۔ انتظام کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں سیلاب اور بارشوں سے خبردار کرنے کا کوئی قابلِ ستائش پیشگی نظام موجود نہیں ہے جِس کی وجہ سے ہر سال دریائے سندھ میں طغیانی کے سبب سندھ اور پنجاب کے نشیبی علاقوں میں بھاری پیمانے پر جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

گئے وقتوں کی بات ہے جب بارش کو رحمت سمجھا جاتا تھا لیکن موجودہ حا لات کو دیکھتے ہوئے شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ وسائل اور انتظامات کے فقدان کے نتیجہ میں بارشیں ہر سال تباہی، بربادی اور اموات کا پیغام لے کر آتی ہے۔

حقیقت حال یہ ہے کہ اصل میں بارش پاکستان اور خطے میں دوسرے ممالک کے لیے رحمت کا سبب ہی ہے اگر بارش کے پانی کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جا سکے، لیکن یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ملک کے رہنما اور عوام ملک کی ترقی کے بارے میں سوچیں تاہم عوامی رائے کے مطابق ملکی ترقی تو شاید پاکستانی رہنماؤں کی ترجیحات میں کبھی شامل رہی ہی نہیں ہے۔

سیاسی رہنماء جوڑ توڑ میں مصروف رہتے ہیں عوام بیچارے مہنگائی اور غربت سے دست و پا ہیں اور اِس دوران بارشیں اپنا کام کر کے چلتی بنتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی ملک کو اپنے ماضی کے تجربات سے سیکھ کر اپنے مستقبِل کو بہتر بنانا چاہیے۔
Load Next Story