رزمیہ گلگامش
انسان کے جذبات و خیالات صفحہء قرطاس پر منتقل ہو کر ابلاغ کا روپ دھار لیتے ہیں
ادب انسانی دل و دماغ میں جنم لیتا ہے۔ دھرتی پر آباد ہونے کے ساتھ ہی انسان نے اپنے جذبات و احساسات و خیالات کا اظہار شروع کر دیا تھا۔
پہلے پہل ادب غاروں کے اندر اور سنگلاخ چٹانوں پر نقش و نگار کی صورت میں سامنے آیا وقت آگے بڑھا اور ادب پتھروں کی تختیوں،درختوں کے پتوں،جانوروں کی ہڈیوں اور کھال پر لکھا جانے لگا۔ہزاروں،لاکھوں سالوں میں جو کچھ لکھا گیا اس کا بیشتر حصہ فنا سے ضرور دوچار ہوا لیکن غاروں میں بنی تصاویر اور پتھر کی تختیوں پر لکھے ادب کا کچھ نہ کچھ حصہ اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا رہا۔
چھاپے خانے کی ایجاد نے ادب کو وسیع پیمانے پر پھیلانے میں بہت مدد کی اوراسے محفوظ بنانے کے نت نئے طریقے سامنے آتے رہے۔ایک نسل کے ادب سے اگلی نسل نے فائدہ اٹھایا۔ یوں انسانی علم اور تجربے میں نکھار آتا رہا ۔ادب انسانی نسلوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ادب اور موسیقی کا کوئی ایک رنگ نہیں ہوتا۔اس کی جغرافیائی،تہذیبی اور لسانی سرحدیں نہیں ہو تیں۔یہ ساری انسانیت کی مشترکہ میراث ہوتا ہے۔
انسان کے جذبات و خیالات صفحہء قرطاس پر منتقل ہو کر ابلاغ کا روپ دھار لیتے ہیں اور رہتی دنیا تک راستہ دکھانے کا موجب بنتے ہیں۔میتھیو آرنلڈ نے کہا تھا کہThe best that has beeb thought n said in the world is literature.کسی بھی معاشرے کی ذہنی نشوونما کو دیکھنے کے لیے اس کے ادب کو پیمانہ بنایا جا سکتا ہے۔
انسانی ادب جو نسل در نسل منتقل ہو کر ہم تک پہنچا ہے اس کا ابتدائیہ رزمیہ نظموں کی شکل میں ہے۔اس سلسلے کی سب سے اولین گل گا مش کی رزمیہ نظم ہے۔ اس کے علاہ ہومر کی الیاڈ اور ہندوستان میں لکھی جانے والی مہا بھارت،رامائن بہت اہم ہیں۔
گلگامش میسوپوٹیمیا کے تاریخی کرداروں میں سب سے مشہور اور اہم ہیروز میںسے ایک ہے۔ آکیدین زبان میں بے شمار کہانیاں لکھی گئیں۔ان تمام کہانیوں کو ایک آڈیسی Odysseyکہا جا سکتا ہے، ایک بادشاہ کی آڈیسی۔گلگامش کی رزمیہ نظم ان 12تختیوں پر لکھی کہانی سے ماخوذ ہے جن میں سے ہر ایک تختی پر لکھی نظم کچھ نامکمل ہے لیکن بحیثیتِ مجموعی بارہ تختیوں کی عبارت کو جوڑا جائے تو ایک مکمل کہانی سامنے آ جاتی ہے۔یہ تختیاں اسیرین بادشاہ آشوربانی پال کی شاہی لائبریری سے ملی ہیں۔
اس بادشاہ نے 668سے627قبل مسیح حکومت کی تھی۔ان 12تختیوں میں جو کمی ہے اس کو میسوپوٹیمیا اور اناطولیہ سے ملے ٹکڑوں سے مکمل کر لیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ڈھائی ہزار سال پہلے سوماری زبان میں لکھی گئی نظموں سے بھی گلگامش کی رزمیہ نظم مکمل کرنے میں بہت مدد ملی ہے۔ان مخطوطات سے پتا چلتا ہے کہ گلگامش نے میسوپوٹیمیا کے شہر اُرک پر تین ہزار سال قبل مسیح حکومت کی تھی لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ نظموں اور رزمیہ میں بیان کردہ گلگامش کے کارناموںکی کوئی تاریخی سند نہیں ملتی۔
12تختیوں پر لکھی نینوائی رزمیہ نظم گلگامش کی بھرپورتعریف سے شروع ہوتی ہے۔ گلگامش جو آدھا انسان اور آدھا دیومالائی ہے، بڑی بڑی پرشکوہ عماریں تعمیر کروانے والا جنگجو ہے۔ زمین اور پانی میں ہر چیز کو جانتا ہے۔اس کے جابرانہ اقتدار کو کم کرنے کے لیے دیوتا اینو ایک وحشی انسان،این کیدو کو پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے۔یہ وحشی انسان شروع میں جانوروں کے درمیان پرورش پاتا ہے۔بعد میں وہ شہر کا رخ کرتا ہے جہاں ارک میں گلگامش اس کا منتظر ہوتا ہے۔
دوسری تختی ہمیں بتاتی ہے کہ ارک میں گلگامش اور این کیدو کے درمیان طاقت آزمائی کا مقابلہ ہوتا ہے جو آخرکار گلگامش کی کامیابی پر منتج ہوتا ہے۔دیوتا کی اسکیم اُلٹی پڑ جاتی ہے،این کیدو گلگامش کا دوست بن جاتا ہے اور اس کے ساتھ رہتا ہے۔تیسری تختی میں دونوں یعنی گلگامش اور این کیدو ہوواوا کو زیر کرنے کے لیے اکٹھے روانہ ہوتے ہیں۔ہوواوا کو دیوتائوں نے شہر سے دورCedar کے جنگل کا رکھوالا بنایا ہوتا ہے لیکن اگلی تین تختیاں اس مہم کی تفصیلات اور انجام کے بارے میں معلومات نہیں دیتیں۔
چھٹی تختی میں بتایا گیا ہے کہ گلگامش اپنے شہر ارک میں واپس لوٹ آیا ہے۔ محبت کی دیوی اشتار اس پر فریفتہ ہو جاتی ہے لیکن گلگامش دیوی کی دعوت کو ٹھکرا دیتا ہے۔اشتار دیوی گلگامش سے انتقام لینے کے لیے ایک دیومالائی بیل کو روانہ کرتی ہے۔ گلگامش،این کیڈو اس دیومالائی بیل کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ساتویں تختی میں این کی دو اپنے اس خواب کو بیان کرتا ہے جس میں تین بڑے دیوتا اسے اپنے اس فیصلے سے آگاہ کرتے ہیں کہ اب اسے مرنا ہو گا۔
اس خواب کے بعد این کیدو بیمار پڑجاتا ہے اور بیماری کے دوران خواب میں دھول کے محل کو دیکھتا ہے جو اس کا منتظر ہے۔گلگامش اپنے عزیز دوست کے بچھڑنے پر رنجیدہ ہے اور نوحہ کرتا ہے۔یہ نوحہ اور جنازے کی رسوم تختی نمبر 8میں درج ہیں۔تختی نمبر 9اور 10میں بتایا گیا ہے کہ اس کے بعد گلگامش ایک خطرناک سفر Odysseyپر روانہ ہوتا ہے۔اس سفر میں وہ طوفان میں بچ جانے والے ایک فرد سے ملنے کا خواہاں ہے تاکہ وہ جان سکے کہ کیسے وہ ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے۔
گیارھویں تختی میں بتایا گیا ہے کہ گلگامش اس فرد کے پاس پہنچ جاتا ہے جو اسے طوفان کی تفصیلات سے آگاہ کرتا ہے اور ساتھ ہی اسے ایک جڑی بوٹی کا بتاتا ہے جس کے استعمال سے اس کی جوانی اور بھرپور قوت لوٹ آئے گی۔ گلگامش اس جڑی بوٹی کو تو پا لیتا ہے لیکن یہ دیکھ کر رنجیدہ اور مایوس ہو جاتا ہے کہ اس بوٹی پر ایک خوفناک عفریت مسلط ہے۔ یوں گلگامش نامراد واپس اُرک لوٹ آتا ہے۔ 12وین تختی ہمیں بتاتی ہے کہ گلگامش سے ڈرم اور ڈرم بجانے والی stickگم ہو جاتی ہے جو کہ اسے اشٹار نے دی تھی۔
رزمیہ اس بات پر ختم ہوتی ہے کہ اس کے دوست این کی دو کی روح واپس آ کراس سے وعدہ کرتی ہے کہ وہ اسے یہ دونوں چیزیں ڈھونڈ دے گی لیکن ساتھ ہی وہ گلگامش کو موت کی وادی کی دلخراش رپورٹ بھی دیتی ہے کہ موت کے بعد اسے کن مشکل مراحل سے گزرنا ہوگا۔ انسان ہمیشہ سے ہی موت سے دوری اور کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کا طالب رہا ہے۔ سکندرِ اعظم بستیوں اور ویرانوں کو پھلانگتا ہندوستان پہنچا تاکہ کسی ہندوسادھو سنت سے ہمیشہ کی زندگی کا راز مل جائے۔ گلگامش بھی ہمیشہ کی زندگی کا طالب تھا لیکن موت سے کسی کو مفر نہیں۔
پہلے پہل ادب غاروں کے اندر اور سنگلاخ چٹانوں پر نقش و نگار کی صورت میں سامنے آیا وقت آگے بڑھا اور ادب پتھروں کی تختیوں،درختوں کے پتوں،جانوروں کی ہڈیوں اور کھال پر لکھا جانے لگا۔ہزاروں،لاکھوں سالوں میں جو کچھ لکھا گیا اس کا بیشتر حصہ فنا سے ضرور دوچار ہوا لیکن غاروں میں بنی تصاویر اور پتھر کی تختیوں پر لکھے ادب کا کچھ نہ کچھ حصہ اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا رہا۔
چھاپے خانے کی ایجاد نے ادب کو وسیع پیمانے پر پھیلانے میں بہت مدد کی اوراسے محفوظ بنانے کے نت نئے طریقے سامنے آتے رہے۔ایک نسل کے ادب سے اگلی نسل نے فائدہ اٹھایا۔ یوں انسانی علم اور تجربے میں نکھار آتا رہا ۔ادب انسانی نسلوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ادب اور موسیقی کا کوئی ایک رنگ نہیں ہوتا۔اس کی جغرافیائی،تہذیبی اور لسانی سرحدیں نہیں ہو تیں۔یہ ساری انسانیت کی مشترکہ میراث ہوتا ہے۔
انسان کے جذبات و خیالات صفحہء قرطاس پر منتقل ہو کر ابلاغ کا روپ دھار لیتے ہیں اور رہتی دنیا تک راستہ دکھانے کا موجب بنتے ہیں۔میتھیو آرنلڈ نے کہا تھا کہThe best that has beeb thought n said in the world is literature.کسی بھی معاشرے کی ذہنی نشوونما کو دیکھنے کے لیے اس کے ادب کو پیمانہ بنایا جا سکتا ہے۔
انسانی ادب جو نسل در نسل منتقل ہو کر ہم تک پہنچا ہے اس کا ابتدائیہ رزمیہ نظموں کی شکل میں ہے۔اس سلسلے کی سب سے اولین گل گا مش کی رزمیہ نظم ہے۔ اس کے علاہ ہومر کی الیاڈ اور ہندوستان میں لکھی جانے والی مہا بھارت،رامائن بہت اہم ہیں۔
گلگامش میسوپوٹیمیا کے تاریخی کرداروں میں سب سے مشہور اور اہم ہیروز میںسے ایک ہے۔ آکیدین زبان میں بے شمار کہانیاں لکھی گئیں۔ان تمام کہانیوں کو ایک آڈیسی Odysseyکہا جا سکتا ہے، ایک بادشاہ کی آڈیسی۔گلگامش کی رزمیہ نظم ان 12تختیوں پر لکھی کہانی سے ماخوذ ہے جن میں سے ہر ایک تختی پر لکھی نظم کچھ نامکمل ہے لیکن بحیثیتِ مجموعی بارہ تختیوں کی عبارت کو جوڑا جائے تو ایک مکمل کہانی سامنے آ جاتی ہے۔یہ تختیاں اسیرین بادشاہ آشوربانی پال کی شاہی لائبریری سے ملی ہیں۔
اس بادشاہ نے 668سے627قبل مسیح حکومت کی تھی۔ان 12تختیوں میں جو کمی ہے اس کو میسوپوٹیمیا اور اناطولیہ سے ملے ٹکڑوں سے مکمل کر لیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ڈھائی ہزار سال پہلے سوماری زبان میں لکھی گئی نظموں سے بھی گلگامش کی رزمیہ نظم مکمل کرنے میں بہت مدد ملی ہے۔ان مخطوطات سے پتا چلتا ہے کہ گلگامش نے میسوپوٹیمیا کے شہر اُرک پر تین ہزار سال قبل مسیح حکومت کی تھی لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ نظموں اور رزمیہ میں بیان کردہ گلگامش کے کارناموںکی کوئی تاریخی سند نہیں ملتی۔
12تختیوں پر لکھی نینوائی رزمیہ نظم گلگامش کی بھرپورتعریف سے شروع ہوتی ہے۔ گلگامش جو آدھا انسان اور آدھا دیومالائی ہے، بڑی بڑی پرشکوہ عماریں تعمیر کروانے والا جنگجو ہے۔ زمین اور پانی میں ہر چیز کو جانتا ہے۔اس کے جابرانہ اقتدار کو کم کرنے کے لیے دیوتا اینو ایک وحشی انسان،این کیدو کو پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے۔یہ وحشی انسان شروع میں جانوروں کے درمیان پرورش پاتا ہے۔بعد میں وہ شہر کا رخ کرتا ہے جہاں ارک میں گلگامش اس کا منتظر ہوتا ہے۔
دوسری تختی ہمیں بتاتی ہے کہ ارک میں گلگامش اور این کیدو کے درمیان طاقت آزمائی کا مقابلہ ہوتا ہے جو آخرکار گلگامش کی کامیابی پر منتج ہوتا ہے۔دیوتا کی اسکیم اُلٹی پڑ جاتی ہے،این کیدو گلگامش کا دوست بن جاتا ہے اور اس کے ساتھ رہتا ہے۔تیسری تختی میں دونوں یعنی گلگامش اور این کیدو ہوواوا کو زیر کرنے کے لیے اکٹھے روانہ ہوتے ہیں۔ہوواوا کو دیوتائوں نے شہر سے دورCedar کے جنگل کا رکھوالا بنایا ہوتا ہے لیکن اگلی تین تختیاں اس مہم کی تفصیلات اور انجام کے بارے میں معلومات نہیں دیتیں۔
چھٹی تختی میں بتایا گیا ہے کہ گلگامش اپنے شہر ارک میں واپس لوٹ آیا ہے۔ محبت کی دیوی اشتار اس پر فریفتہ ہو جاتی ہے لیکن گلگامش دیوی کی دعوت کو ٹھکرا دیتا ہے۔اشتار دیوی گلگامش سے انتقام لینے کے لیے ایک دیومالائی بیل کو روانہ کرتی ہے۔ گلگامش،این کیڈو اس دیومالائی بیل کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ساتویں تختی میں این کی دو اپنے اس خواب کو بیان کرتا ہے جس میں تین بڑے دیوتا اسے اپنے اس فیصلے سے آگاہ کرتے ہیں کہ اب اسے مرنا ہو گا۔
اس خواب کے بعد این کیدو بیمار پڑجاتا ہے اور بیماری کے دوران خواب میں دھول کے محل کو دیکھتا ہے جو اس کا منتظر ہے۔گلگامش اپنے عزیز دوست کے بچھڑنے پر رنجیدہ ہے اور نوحہ کرتا ہے۔یہ نوحہ اور جنازے کی رسوم تختی نمبر 8میں درج ہیں۔تختی نمبر 9اور 10میں بتایا گیا ہے کہ اس کے بعد گلگامش ایک خطرناک سفر Odysseyپر روانہ ہوتا ہے۔اس سفر میں وہ طوفان میں بچ جانے والے ایک فرد سے ملنے کا خواہاں ہے تاکہ وہ جان سکے کہ کیسے وہ ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے۔
گیارھویں تختی میں بتایا گیا ہے کہ گلگامش اس فرد کے پاس پہنچ جاتا ہے جو اسے طوفان کی تفصیلات سے آگاہ کرتا ہے اور ساتھ ہی اسے ایک جڑی بوٹی کا بتاتا ہے جس کے استعمال سے اس کی جوانی اور بھرپور قوت لوٹ آئے گی۔ گلگامش اس جڑی بوٹی کو تو پا لیتا ہے لیکن یہ دیکھ کر رنجیدہ اور مایوس ہو جاتا ہے کہ اس بوٹی پر ایک خوفناک عفریت مسلط ہے۔ یوں گلگامش نامراد واپس اُرک لوٹ آتا ہے۔ 12وین تختی ہمیں بتاتی ہے کہ گلگامش سے ڈرم اور ڈرم بجانے والی stickگم ہو جاتی ہے جو کہ اسے اشٹار نے دی تھی۔
رزمیہ اس بات پر ختم ہوتی ہے کہ اس کے دوست این کی دو کی روح واپس آ کراس سے وعدہ کرتی ہے کہ وہ اسے یہ دونوں چیزیں ڈھونڈ دے گی لیکن ساتھ ہی وہ گلگامش کو موت کی وادی کی دلخراش رپورٹ بھی دیتی ہے کہ موت کے بعد اسے کن مشکل مراحل سے گزرنا ہوگا۔ انسان ہمیشہ سے ہی موت سے دوری اور کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کا طالب رہا ہے۔ سکندرِ اعظم بستیوں اور ویرانوں کو پھلانگتا ہندوستان پہنچا تاکہ کسی ہندوسادھو سنت سے ہمیشہ کی زندگی کا راز مل جائے۔ گلگامش بھی ہمیشہ کی زندگی کا طالب تھا لیکن موت سے کسی کو مفر نہیں۔