خود کردہ را علاجے نیست
پاکستان آج کل ایک پرانے طرز کے نئے سنگین بحران سے گزر رہا ہے ۔۔۔
پاکستان آج کل ایک پرانے طرز کے نئے سنگین بحران سے گزر رہا ہے، فوج اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد کا کلچر اگرچہ بہت پرانا ہے لیکن موجودہ حکومت کے قریباً ایک سال کے دوران اس پرانے کلچر میں جو نیا عنصر داخل ہوا ہے اس نے پرانے عدم اعتماد کے کلچر کو ایک تشویشناک محاذ آرائی میں بدل دیا ہے۔ ہمارے میاں صاحب بڑی ایمانداری سے آئین کے مطابق فوج کا کردار متعین کرنا چاہتے ہیں لیکن موصوف کی ان کوششوں کے پیچھے نیک نیتی کے ساتھ ساتھ وہ خوف بھی شامل ہے جس کا سامنا میاں صاحب کو 1999 میں کرنا پڑا اور جو تقریباً آٹھ سال سائے کی طرح ان کے پیچھے لگا رہا۔ اس خوف سے نکلنے کے لیے میاں صاحب نے اپنی جلا وطنی کے دوران بھی کوشش کی اور اس کے بعد بھی کوشاں رہے۔
لندن کی آل پارٹیز کانفرنس اس خوف کو کم کرنے کی ایک کوشش تھی اور میثاق جمہوریت کے پیچھے بھی سب سے بڑا محرک وہی خوف تھا جو 1958 سے سیاست دانوں کے اعصاب پر سوار رہا ہے۔ لندن کانفرنس پر میاں صاحب نے کروڑوں روپے لگائے اور میثاق جمہوریت کے لیے بھی بہت پاپڑ بیلے، اگرچہ ان دونوں تقریبات کا بنیادی مقصد بحالی جمہوریت بتایا گیا اور میثاق جمہوریت کو تو بعض افراد اور حلقے آسمانی صحیفہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ پاکستان میں 1958کے بعد فوج کی جو بالا دستی قائم ہوگئی ہے۔ وہ جمہوریت کی روح کے منافی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوجی بیوروکریسی کو بار بار فوجی مداخلت کی جرأت کیوں ہوئی؟
اس سوال کا جواب بڑا طویل ہے جس کے لیے کئی کتابوں کی ضرورت ہے لیکن اگر اسے مختصر کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فوجی بیوروکریسی کو یہ طاقت خود سیاست دانوں نے فراہم کی۔ یہ کام ایوب خان کے زمانے میں سیاست دانوں نے کنونشن لیگ بنا کر کیا۔ یحییٰ خان کے زمانے میں ملک توڑنے میں سیاست دانوں نے فوج کا ساتھ دے کر کیا اور خود بھٹو کے خلاف تحریک چلا کر ضیا الحق کے لیے مارشل لاء کی راہ ہموار کر کے کیا، پرویز مشرف کو مسلم لیگ (ق) کے ذریعے سیاسی طاقت فراہم کر کے کیا۔ بھٹو کو پھانسی پر چڑھانے میں بالواسطہ شامل ہوکر کیا۔
وزیر اعظم نواز شریف کا خوف بھی بجا ہے اور اس خوف سے نکلنے کی کوششیں بھی بجا ہیں لیکن میاں صاحب زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے جس عجلت کے ساتھ اس مہم جوئی میں لگے ہوئے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلتا نظر آ رہا ہے کہ فوج کمزور ہونے کے بجائے اس قدر طاقتور ہو گئی ہے کہ عوام سیاست دان اور دانشور یہ کہہ رہے ہیں کہ ''ہم فوج کے پیچھے کھڑے ہیں اور ہر قیمت پر فوج کا دفاع کریں گے'' میاں صاحب روزے بخشوانے کی کوششوں میں نماز کے پابند ہو گئے۔
فطری طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ''لینے کے دینے'' کیوں پڑ گئے؟ میاں صاحب نے فوج کے روایتی خوف سے بچنے کے لیے اپنے پیش روئوں کی راہ پر چلتے ہوئے بڑے سوچ بچار، بڑی احتیاطوں، بڑی دور اندیشیوں کے ساتھ موجودہ آرمی چیف کا تقرر کیا اور انھیں یقین تھا کہ ان کا مقرر کردہ ہمیشہ ان کا ساتھ دے گا اور یہ ممکن بھی تھا لیکن میاں صاحب نے جوش انتقام میں دور اندیشی کو بالائے طاق رکھ کر سابق صدر کے خلاف '' جن آتشی اقدامات'' کا آغاز کیا وہ اس بھدے انداز میں کیا کہ عوام اور خواص یہ محسوس کرنے لگے کہ یہ کارروائیاں آئینی کم ذاتی زیادہ ہیں۔ اس مہم جوئی میں ہی بعض وزراء اس حد تک آگے نکل گئے کہ مشرف کی آڑ میں پوری فوجی بیوروکریسی پر حملے شروع کر دیے ظاہر ہے اس کا رد عمل ہونا ہی تھا۔
سو آرمی چیف کو کہنا پڑا کہ ''ہم اپنے اداروں کے وقار کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے'' یہ رد عمل بالکل فطری تھا کیوں کہ حکومت نے ''آ بیل مجھے مار'' کی دعوت خود دی۔ جب بیل نے سینگ ہلائے تو حکومت کو یہ احساس ہو جانا چاہیے تھا کہ اب احتیاط ضروری ہے لیکن حکمرانوں نے حامد میر حادثے کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ایک ایسا تیر چلوا دیا جو پلٹ کر خود ان کو آ لگا۔ فوج کو قابو کرنے کے غیر منطقی راستوں پر چلنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی سے خیبر تک فوج مقبول عوام ہوگئی ہر صوبے، ہر شہر، ہر گائوں میں عوام فوج کی حمایت میں سڑکوں پر آگئے، یہ اتنا بڑا سٹ بیک ہے کہ مدتوں اس کا اثر رہے گا۔
1999میں پرویز مشرف نے میاں جی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا، یہ ایک غیر آئینی اقدام تھا جس پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے، میاں برادران کا اس حوالے سے مشتعل رہنا ایک فطری امر ہے اور جیسے ہی انھیں اقتدار کی طاقت ملی انھوں نے حساب چکانے کا فیصلہ کر لیا لیکن جوش انتقام میں یہ بھول گئے کہ 1999میں جب زمین پر یہ کارروائی ہو رہی تھی۔ پرویز مشرف آسمانوں میں اڑ رہا تھا وہ زمینی کارروائی کا براہ راست حصے دار نہیں تھا اسے بھی چھوڑیئے۔
آرٹیکل 6 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس کی خلاف ورزی کرنے والا، اس کی حمایت کرنے والا، اس کارروائی میں شامل ہونے والے تمام لوگ آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے ذمے دار ہیں، اس صورت حال سے بچنے کے لیے حکومت نے مشرف کو آئین توڑنے کا مجرم ٹھہرایا، دونوں صورتوں میں کئی لوگ اس کیس میں ملوث ہو جاتے ہیں لیکن سب کو چھوڑ کر حکومت نے جب فرد واحد کے گلے میں پھندے فٹ کرنے اور قدم قدم پر اس ملزم کی تحقیر کا سلسلہ شروع کیا تو فوج کا ناراض ہونا ایک فطری بات تھی جب کہ عام آدمی بھی یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ کیس شفاف اور غیر جانبدار نہیں رہا۔
اس منظر نامے میں اگر حکومت دور اندیش ہوتی تو غیر جانبدارانہ انداز اختیار کر لیتی اور قانون کے مطابق اس کیس کو ہینڈل کرنے کی کوشش کرتی لیکن ہوا یہ کہ حامد میر کے حادثے سے فائدہ اٹھانے کی احمقانہ کوشش کی گئی، نتیجہ سامنے ہے۔ اخبارات میں کارٹون چھپ رہے ہیں جن میں شیر کو بوٹوں کے سامنے بٹھایا جا رہا ہے کیا اس جوابی تذلیل میں حکومت کی جلد بازی اور رد عمل سے غفلت کا دخل نہیں؟ اس قسم کے بڑے معرکے اس وقت ہی کامیاب ہو سکتے ہیں جب عوام آپ کے ساتھ ہوں لیکن کیا ہمارے محترم حکمرانوں کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ مہنگائی، بیروز گاری، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتے کے کلچر نے عوام کو حکومت سے سخت ناراض کر دیا ہے؟
10 سال سے زیادہ عرصے پر محیط دہشت گردی نے عوام کو اس قدر مایوس اور خوف زدہ کر دیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس سے نجات چاہتے ہیں، اس دوران 50 ہزار بے گناہ عوام کے ساتھ ساتھ ہزاروں فوجی اہلکار اور اعلیٰ افسران بھی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں، ساری قوم اس عتاب سے چھٹکارا چاہتی ہے عوام کے ساتھ فوج بھی یہ سمجھتی ہے کہ اس عذاب سے نکلنے کا راستہ وہ نہیں جس پر حکومت چل رہی ہے لیکن حکومت کے شدید اصرار پر عوام حکومتی کوششوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ فوج بھی خاموشی سے حکومت کا ساتھ دے رہی ہے لیکن اس حوالے سے اس کے تحفظات ہیں، بہ ظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عوم حکومت سیاست دان مذہبی قیادت سب ایک پیج پر ہیں لیکن در حقیقت ایسا نظر نہیں آتا، خود حکومت اس حوالے سے سخت کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔
ان خطرناک حقائق کا تقاضا تو یہ تھا کہ نان ایشوز یا ذاتی ایشوز کو ایک طرف رکھ کر دہشت گردی کے خلاف ایک واضح منطقی اور قابل عمل پالیسی بناتی اور فوج کے موقف کو اہمیت دیکر اسے اپنے ساتھ رکھتی لیکن بد قسمتی سے ایسا ہو نہیں رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ نظر آ رہی ہے کہ حکومت خود اس حوالے سے نظریاتی خلفشار اور سیاسی مصلحتوں کی شکار ہو کر رہ گئی ہے جس کا خطرناک نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ملک کا ہر ذی شعور شخص ریاست کے ہر ادارے کو اپنے آئینی حدود میں کام کرتے دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت مکمل طور پر غیر جانبدار، مصلحتوں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ غالباً حکما نے ایسی ہی صورت حال کے لیے کہا ہے:
''خود کردہ را علاجے نیست''