شوپن ہائر کی شرط اور میری ہار…
ایک بہت نامور خطیب جو زہد و تقویٰ کا مجسمہ ہیں اور جن کے علم و دانش کی ساری دنیا میں دھاک بیٹھی ہوئی ہے ۔۔۔
ISLAMABAD:
انیسویں صدی کا مشہور جرمن فلسفی آرتھ شوپن ہائر اپنے برلن کے قیام کے دوران عموماً ایک خاص ریستوران میں لنچ کیا کرتا تھا جہاں چند انگریز بھی، جو قریب ہی مقیم تھے،کھانا کھانے آیا کرتے تھے۔ شوپن ہائر میز پر بیٹھتے ہی جیب سے ایک قیمتی گولڈ مارک نکال کر سامنے رکھ لیتا جب ویٹر اس کا کھانا لے کر آتا، تو شوپن ہائر ان ''گنوار'' انگریزوں کی گفتگو کے شور میں آہستہ آہستہ اپنا لنچ ختم کرتا اور پھر گولڈ مارک کو واپس جیب میں رکھ کر، سر جھٹکتا ہوا باہر نکل جاتا۔
ویٹر اس قنوطی فلسفی کی اس حرکت کو بہت غور سے دیکھتا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ گولڈ مارک کیوں باہر رکھا جاتا ہے اور پھر کھانا ختم ہوتے ہی جیب میں ڈال لیا جاتا ہے۔
''فلسفی تو سر پھرے ہوتے ہیں۔ ان سے بحث کون کرے۔ اس میں بھی کوئی فلسفیانہ حکمت یا حماقت ہوگی جو ہم جیسے جاہلوں کی سمجھ میں کیا آئے گی۔''
لیکن ایک دن ویٹر نے جی کڑا کرکے اس بدمزاج دانشور سے پوچھ ہی لیا کہ سر! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
شوپن ہائر نے ویٹر کو غور سے دیکھا۔ ایک خفیف مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر لہرائی اور پھر وہ دھیمی آواز میں یوں بولا ''میرے نوجوان دوست! تم ان انگلش جنٹل مین حضرات کو دیکھ رہے ہو جو میری ہی طرح تمہارے گاہک ہیں۔ ہر روز جب میں یہاں لنچ کرنے آتا ہوں تو اپنے دل میں یہ شرط باندھتا ہوں کہ اگر آج میں نے ان بگڑے نوابوں کی گفتگو کو گھوڑوں، کتوں اور ''فاحشاؤں'' کے ذکر سے خالی پایا تو میں ایک گولڈ مارک چرچ کے خیراتی فنڈ میں دے دوں گا مگر یہ انگریز مسخرے ہر بار مجھے مایوس کرتے ہیں۔ میرا گولڈ مارک اب بھی میرے پاس ہے۔''
اب یہ حقیر پرتقصیر بھی ذرا ہمت سے کام لے کر شوپن ہائر جیسے مشہور زمانہ فلسفی کے نقش قدم پر چلنے کی جسارت کرتا ہے۔
ایک بہت نامور خطیب جو زہد و تقویٰ کا مجسمہ ہیں اور جن کے علم و دانش کی ساری دنیا میں دھاک بیٹھی ہوئی ہے، ایک بہت بڑے مجمعے کو اپنے زور بیاں سے مسحور کر رہے ہیں۔ مرد، عورت، جواں، بوڑھے، پڑھے لکھے اور ان پڑھ اس عالم کامل کی تقریر بڑی مرعوبیت کے ساتھ سن رہے ہیں۔ دم بخود اور خاموش۔ عالم صاحب ہر قسم کے موضوعات پر گہر افشانی فرما رہے ہیں۔ دین کی باتیں، دنیا کی باتیں۔ مشرق اور مغرب کی باتیں، کل کی باتیں اور آج کی باتیں، ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں کی باتیں۔ پند و نصائح کا دریا بہہ رہا ہے۔ خوب بہت خوب۔ مگر اس موقعے پر میرے دل میں ایک خلش پیدا ہوتی ہے اور میں خود سے شرط لگاتا ہوں کہ میں پانچ ہزار روپے عبدالستار ایدھی ٹرسٹ کی نذر کروں گا اگر اس قابل احترام عالم کی تقریر دل پذیر میں ایک بھی جملہ ایسا سنوں جس میں جاگیرداری اور قبائلی نظام کو رد کیا گیا ہو۔
معصوم عورتوں کو سزا دینے والے جرگوں کی مذمت کی گئی ہو، تنگ نظری اور شدت پسندی کو قوم کے لیے زہر قرار دیا گیا ہو۔ یا اس عالم باصفا کے لبوں سے کوئی ایسا فقرہ سنوں جس میں اشارہ کیا گیا ہو کہ ہمارے علما اور روحانی پیشوا اپنے اس تاریخی فریضے کو ادا کرنے میں یکسر ناکام رہے ہیں جو اس ملک کی عورتوں اور لڑکیوں کو ظالم اور تنگ نظر مردوں کی سختیوں سے نجات دلاتا جو مذہب کے نام پر روا رکھی جاتی ہیں، مساوات کا صحیح ماحول پیدا کرتا اور ہماری فیملی لائف اور سوشل لائف کو بہتر بناتا۔ بانی پاکستان عورتوں کی آزادی کے سب سے بڑے حامی تھے انھوں نے کہہ دیا تھا کہ طبقہ نسواں کی مکمل شرکت کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔
جیب میں پڑا ہوا پانچ ہزار کا کتھئی نوٹ ستار ایدھی صاحب سے بغل گیر ہونے کے لیے بے تاب ہے۔ کاش سامعین کے جھرمٹ میں سے کوئی عورت، مرد، طالب علم، بزنس مین، کوئی خاتون خانہ اس عالم باکمال کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائے کہ ہمارے علما اور روحانی پیشوا اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے ہیں۔ مذہب اسلام کو شدت پسندوں نے بہت غلط روپ میں عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ خصوصاً عورتوں پر مظالم کھولا ہے۔ جو مذہب تعلیم پر اتنا زیادہ زور دیتا ہو وہ روشن خیالی سے کیسے دور ہوسکتا ہے اور جو مذہب تعلیم کو مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں طریقے سے لازمی قرار دیتا ہو وہ طبقہ نسواں کو حقیر کیسے گردان سکتا ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ:
اسلام سر کا تاج ہے زنجیر پا نہیں
گلزار ارتقا سے مسلماں جدا نہیں
(تشنہ)
نیز کوئی جرأت مند فرد صاحب جبہ و دستار کے سامنے یہ بھی کہے کہ ملک کو تنگ نظری، دہشت گردی، بھتہ خوری، تخریب کاری وغیرہ سے نجات دلانے کے لیے اشد ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے اور ہماری ذہنیت میں انقلابی تبدیلی لائی جائے۔ جاگیرداری اور قبائلی نظام کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ نظام تعلیم کو بہتر اور مضبوط تر بنایا جائے۔ سڑکوں کو جلوسوں، مظاہروں اور ہڑتالوں سے آزاد کرایا جائے اور اس سلسلے میں ہمارے علما اور روحانی پیشواؤں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ شدت پسندی اور تنگ نظری سے دامن چھڑا کر روشنی خیالی کو اور ترقی کو اپنائیں۔ جاگیرداری نظام اور قبائلی جرگوں کی حمایت کے بجائے ''عام آدمی'' کو سہارا دیں۔ عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف گھناؤنی رسموں اور رواجوں کو ناقابل برداشت قرار دیں اور اس طرح یہ تاثر ختم کرائیں کہ ہمارے علما اور مذہبی رہنما تو مکمل طور پر ''بااثر'' لوگوں کے ''وفادار'' ہیں اور معصوم عوام اور خواتین کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہیں گے۔
مگر حاضرین خوف کے سائے میں دم بخود بیٹھے رہتے ہیں اس لیے کہ اگر کسی نے زبان کھولی تو خطیب ذی حشم کے ''پرستار'' غضب ناک ہوکر تشدد پر اتر آئیں گے لیکن قوموں میں انقلابی تبدیلیاں تو سرفروشی کے بغیر نہیں آتیں۔ لہٰذا:
کوئی تو جان ہتھیلی پہ رکھ کے آئے ذرا
کوئی تو جذبہ حب وطن دکھائے ذرا
کیا میں بھی فلسفی شوپن ہائر کی طرح شرط جیتتا ہی رہوں گا؟ یہ جیت تو میری ہار ہے۔
انیسویں صدی کا مشہور جرمن فلسفی آرتھ شوپن ہائر اپنے برلن کے قیام کے دوران عموماً ایک خاص ریستوران میں لنچ کیا کرتا تھا جہاں چند انگریز بھی، جو قریب ہی مقیم تھے،کھانا کھانے آیا کرتے تھے۔ شوپن ہائر میز پر بیٹھتے ہی جیب سے ایک قیمتی گولڈ مارک نکال کر سامنے رکھ لیتا جب ویٹر اس کا کھانا لے کر آتا، تو شوپن ہائر ان ''گنوار'' انگریزوں کی گفتگو کے شور میں آہستہ آہستہ اپنا لنچ ختم کرتا اور پھر گولڈ مارک کو واپس جیب میں رکھ کر، سر جھٹکتا ہوا باہر نکل جاتا۔
ویٹر اس قنوطی فلسفی کی اس حرکت کو بہت غور سے دیکھتا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ گولڈ مارک کیوں باہر رکھا جاتا ہے اور پھر کھانا ختم ہوتے ہی جیب میں ڈال لیا جاتا ہے۔
''فلسفی تو سر پھرے ہوتے ہیں۔ ان سے بحث کون کرے۔ اس میں بھی کوئی فلسفیانہ حکمت یا حماقت ہوگی جو ہم جیسے جاہلوں کی سمجھ میں کیا آئے گی۔''
لیکن ایک دن ویٹر نے جی کڑا کرکے اس بدمزاج دانشور سے پوچھ ہی لیا کہ سر! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
شوپن ہائر نے ویٹر کو غور سے دیکھا۔ ایک خفیف مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر لہرائی اور پھر وہ دھیمی آواز میں یوں بولا ''میرے نوجوان دوست! تم ان انگلش جنٹل مین حضرات کو دیکھ رہے ہو جو میری ہی طرح تمہارے گاہک ہیں۔ ہر روز جب میں یہاں لنچ کرنے آتا ہوں تو اپنے دل میں یہ شرط باندھتا ہوں کہ اگر آج میں نے ان بگڑے نوابوں کی گفتگو کو گھوڑوں، کتوں اور ''فاحشاؤں'' کے ذکر سے خالی پایا تو میں ایک گولڈ مارک چرچ کے خیراتی فنڈ میں دے دوں گا مگر یہ انگریز مسخرے ہر بار مجھے مایوس کرتے ہیں۔ میرا گولڈ مارک اب بھی میرے پاس ہے۔''
اب یہ حقیر پرتقصیر بھی ذرا ہمت سے کام لے کر شوپن ہائر جیسے مشہور زمانہ فلسفی کے نقش قدم پر چلنے کی جسارت کرتا ہے۔
ایک بہت نامور خطیب جو زہد و تقویٰ کا مجسمہ ہیں اور جن کے علم و دانش کی ساری دنیا میں دھاک بیٹھی ہوئی ہے، ایک بہت بڑے مجمعے کو اپنے زور بیاں سے مسحور کر رہے ہیں۔ مرد، عورت، جواں، بوڑھے، پڑھے لکھے اور ان پڑھ اس عالم کامل کی تقریر بڑی مرعوبیت کے ساتھ سن رہے ہیں۔ دم بخود اور خاموش۔ عالم صاحب ہر قسم کے موضوعات پر گہر افشانی فرما رہے ہیں۔ دین کی باتیں، دنیا کی باتیں۔ مشرق اور مغرب کی باتیں، کل کی باتیں اور آج کی باتیں، ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں کی باتیں۔ پند و نصائح کا دریا بہہ رہا ہے۔ خوب بہت خوب۔ مگر اس موقعے پر میرے دل میں ایک خلش پیدا ہوتی ہے اور میں خود سے شرط لگاتا ہوں کہ میں پانچ ہزار روپے عبدالستار ایدھی ٹرسٹ کی نذر کروں گا اگر اس قابل احترام عالم کی تقریر دل پذیر میں ایک بھی جملہ ایسا سنوں جس میں جاگیرداری اور قبائلی نظام کو رد کیا گیا ہو۔
معصوم عورتوں کو سزا دینے والے جرگوں کی مذمت کی گئی ہو، تنگ نظری اور شدت پسندی کو قوم کے لیے زہر قرار دیا گیا ہو۔ یا اس عالم باصفا کے لبوں سے کوئی ایسا فقرہ سنوں جس میں اشارہ کیا گیا ہو کہ ہمارے علما اور روحانی پیشوا اپنے اس تاریخی فریضے کو ادا کرنے میں یکسر ناکام رہے ہیں جو اس ملک کی عورتوں اور لڑکیوں کو ظالم اور تنگ نظر مردوں کی سختیوں سے نجات دلاتا جو مذہب کے نام پر روا رکھی جاتی ہیں، مساوات کا صحیح ماحول پیدا کرتا اور ہماری فیملی لائف اور سوشل لائف کو بہتر بناتا۔ بانی پاکستان عورتوں کی آزادی کے سب سے بڑے حامی تھے انھوں نے کہہ دیا تھا کہ طبقہ نسواں کی مکمل شرکت کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔
جیب میں پڑا ہوا پانچ ہزار کا کتھئی نوٹ ستار ایدھی صاحب سے بغل گیر ہونے کے لیے بے تاب ہے۔ کاش سامعین کے جھرمٹ میں سے کوئی عورت، مرد، طالب علم، بزنس مین، کوئی خاتون خانہ اس عالم باکمال کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائے کہ ہمارے علما اور روحانی پیشوا اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے ہیں۔ مذہب اسلام کو شدت پسندوں نے بہت غلط روپ میں عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ خصوصاً عورتوں پر مظالم کھولا ہے۔ جو مذہب تعلیم پر اتنا زیادہ زور دیتا ہو وہ روشن خیالی سے کیسے دور ہوسکتا ہے اور جو مذہب تعلیم کو مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں طریقے سے لازمی قرار دیتا ہو وہ طبقہ نسواں کو حقیر کیسے گردان سکتا ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ:
اسلام سر کا تاج ہے زنجیر پا نہیں
گلزار ارتقا سے مسلماں جدا نہیں
(تشنہ)
نیز کوئی جرأت مند فرد صاحب جبہ و دستار کے سامنے یہ بھی کہے کہ ملک کو تنگ نظری، دہشت گردی، بھتہ خوری، تخریب کاری وغیرہ سے نجات دلانے کے لیے اشد ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے اور ہماری ذہنیت میں انقلابی تبدیلی لائی جائے۔ جاگیرداری اور قبائلی نظام کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ نظام تعلیم کو بہتر اور مضبوط تر بنایا جائے۔ سڑکوں کو جلوسوں، مظاہروں اور ہڑتالوں سے آزاد کرایا جائے اور اس سلسلے میں ہمارے علما اور روحانی پیشواؤں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ شدت پسندی اور تنگ نظری سے دامن چھڑا کر روشنی خیالی کو اور ترقی کو اپنائیں۔ جاگیرداری نظام اور قبائلی جرگوں کی حمایت کے بجائے ''عام آدمی'' کو سہارا دیں۔ عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف گھناؤنی رسموں اور رواجوں کو ناقابل برداشت قرار دیں اور اس طرح یہ تاثر ختم کرائیں کہ ہمارے علما اور مذہبی رہنما تو مکمل طور پر ''بااثر'' لوگوں کے ''وفادار'' ہیں اور معصوم عوام اور خواتین کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہیں گے۔
مگر حاضرین خوف کے سائے میں دم بخود بیٹھے رہتے ہیں اس لیے کہ اگر کسی نے زبان کھولی تو خطیب ذی حشم کے ''پرستار'' غضب ناک ہوکر تشدد پر اتر آئیں گے لیکن قوموں میں انقلابی تبدیلیاں تو سرفروشی کے بغیر نہیں آتیں۔ لہٰذا:
کوئی تو جان ہتھیلی پہ رکھ کے آئے ذرا
کوئی تو جذبہ حب وطن دکھائے ذرا
کیا میں بھی فلسفی شوپن ہائر کی طرح شرط جیتتا ہی رہوں گا؟ یہ جیت تو میری ہار ہے۔