زندہ قوم کا ازخود انصاف…

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں جب کوئی طاقتور شخص جرم کرے تو وہ جرم جرم نہیں؟۔۔۔

انصاف اقوام عالم کے تمام مذاہب و عقائد میں بنیادی ستون کی مانند ہے۔ دنیا کے تمام آئینوں کی بنیاد انصاف پر رکھی جاتی ہے۔ انصاف کے نظام سے لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ درحقیقت معاشرتی، سیاسی و معاشی ناانصافیاں ہی کسی معاشرے کی تباہی وبگاڑ کا سبب ہوتی ہیں۔ عدل وانصاف کی حکمرانی کا تقاضہ ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ کئی مقدمات میں خلیفہ وقت بھی قاضی کے سامنے پیش ہوا۔خلیفہ ہارون الرشید رات بھیس بدل کر بغداد کی گلی گلی پھرا کرتے تھے تاکہ عوام الناس کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے، حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنے فرزند کو خود سزا سنائی۔

جہانگیر نے اپنے محل کے جھروکے سے گھنٹی کے ساتھ بندھی ہوئی زنجیر لٹکا رکھی تھی۔ اس زنجیر کو زنجیر عدل کہا جاتا تھا انصاف کے فریادی اس زنجیر کو کھینچتے اور گھنٹی کو بجاتے۔ قدیم جاپان کے حکمران اپنے محلات کے باہر بڑے بڑے نقارچے رکھوایا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو انصاف ملے۔ ہٹلر جب یورپ پر حملہ آور ہوا تو برطانیہ کے لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوگئے۔ جب چرچل کو اس بارے میں بتایا گیا تو اس نے پوچھا ''کیا ہمارے ملک میں عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں؟'' جواب اثبات میں ملا تو چرچل نے کہا''اگر ہماری عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہمارے ملکی تحفظ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔''مغربی ممالک نے اپنے لوگوں کو فوری انصاف دینے کا مکمل جامع نظام بنا رکھا ہے۔

تاریخ میں ایسے بے شمار حکمرانوں کی مثالیں ملتی ہیں جن کے خلاف عدالتوں نے فیصلے سنائے اور انھیں پورے احترام اور خلوص نیت سے قبول کیا گیا۔ آج ہم ایک زندہ قوم ہونے کے دعویدار بنے پھرتے ہیں۔اکثر گلی کوچوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی موبائل چور، جوتی و روٹی چور یا کوئی اور لٹیرا، لوگوں کے ہتھے چڑھ جائے تو Before Court & Before Police ہم زندہ قوم ان لوگوں کو سڑکوں پر کیسا فوری غیر جانبدار برق انصاف مہیا کرتے ہیں۔ سزا کے طور پر لاتوں، گھونسوں، تھپڑوں اور گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہوجاتی ہے۔ اکثر ایسے واقعات میں لوگ اس قدر انصاف پسند ہوجاتے ہیں کہ وہ مجرم کا منہ کالا کرکے اس کے بال منڈا کر اسے قتل و زندہ بھی جلادیتے ہیں۔ معاشرے کا یہ رویہ دو چیزوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

1۔ہم بہت انصاف پسند اور غیر جانبدار قوم ہیں۔2۔ ہمیں اپنے قانون، عدالتوں، اداروں اور حکمرانوں پر بھروسہ نہیں۔ چونکہ ہم ایک زندہ قوم ہیں لہٰذا یہ قوم بخوبی جانتی ہے کہ وطن عزیز کے سرمایے اور اثاثے کس کس نے لوٹے اور اربوں کھربوں کی کرپشن میں کون کون شامل جرم ہیں؟ کون محب وطن اور کون غدار وطن ہے؟ جس طرح ہم زندہ قوم گلی کوچوں میں چوروں اور لٹیروں کو فوری انصاف دیتے ہیں کیا کبھی ہم زندہ قوم نے وطن عزیز کے لٹیروں اور غداروں کو انصاف دینے کے بارے میں سوچا؟ نہیں تو گلی کوچوں کے لٹیروں کو لوٹ مار کرنے دیں اور گلیوں میں انصاف کی روایت ختم کریں یا پھر وطن عزیز کے غداروں اور لٹیروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لاکر سزائیں دیں۔ آج کل مشرف کا ٹرائل ہر جگہ زیر بحث ہے۔


یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں جب کوئی طاقتور شخص جرم کرے تو وہ جرم جرم نہیں؟ کوئی وطن عزیز کا اثاثہ و سرمایہ لوٹے وہ لٹیرا نہیں؟ کوئی آئین توڑے تو وہ غداری نہیں؟ اگر طاقتور شخص کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ چلے تو ریاست کے تمام طاقتور ستون اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے اس کے دفاع میں آجاتے ہیں اور قانون کے سامنے ایک مضبوط ڈھال بن کر اسے بچا لیتے ہیں۔ پھر چاہے وہ سیاست دان ہو، جنرل ہو یا کوئی اور طاقتور شخص۔ کیا آج ہماری عدلیہ واقعی ایک آزاد عدلیہ ہے؟ کیا وطن عزیز کا سرمایہ و اثاثہ جنھوں نے لوٹا انھیں کبھی سزائیں ہوں گی؟ کیا پاکستان کے تمام غداروں کو کبھی پھانسی کی سزائیں سنائی جائیں گی؟ کیا ہم ایک دن زندہ قوم ہونے کا دعویٰ درست ثابت کریں گے؟ اگر آج ہماری عدالتیں وطن عزیز کے اصل گناہ گاروں، غداروں اور لٹیروں کو سزائیں نہیں دے سکتیں تو نظام عدل و فطرت نے انھیں یہ اختیار قطعی نہیں دیا کہ وہ صرف غریبوں، بے بسوں اور مسکینوں کو سزائیں دیں۔

اگر آج ایک طاقتور شخص جرم کرکے بھی آزادانہ پھر رہا ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہے آزاد عدلیہ اور ہم زندہ قوم کے لیے ! طاقتور جرم کرنے کے بعد بھی مقدس گائے نیک اور پارسا؟ کمزور و غریب غلطی یا جرم کرے تو وہ مجرم اور سزا کا حقدار؟ یہ کیسا نظام عدل ہے؟ اور ہم کیسی زندہ قوم جو سب کچھ جان کر بھی انجان؟

جالب نے کیا خوب کہا ہے:

یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے؟

لکھا ہے ان کے چہروں پر، یہ جو کچھ فیصلہ دیں گے
Load Next Story