سندھ طاس معاہدہ اور بھارتی آبی جارحیت

پاکستان نے کشن گنگا اور رتلے متنازع منصوبوں سے متعلق اعتراضات اٹھائے تھے


Editorial July 08, 2023
پاکستان نے کشن گنگا اور رتلے متنازع منصوبوں سے متعلق اعتراضات اٹھائے تھے (فوٹو: فائل)

عالمی ثالثی عدالت ہیگ میں پاکستان کو بڑی کامیابی مل گئی، بھارت کی پاکستانی دریاؤں پر آبی جارحیت ثابت ہو گئی۔

بھارت نے پاکستانی پانی پر قبضے کے حق میں عالمی ثالثی عدالت میں جو مفروضے پیش کیے تھے وہ عالمی ثالثی عدالت نے مسترد کر دیے جب کہ پاکستان کے اعتراضات کو قبول کرلیا گیا ہے۔ پاکستان نے کشن گنگا اور رتلے متنازع منصوبوں سے متعلق اعتراضات اٹھائے تھے۔

پاکستان نے عالمی ثالثی عدالت میں پیش کردہ اپنے اعتراضات میں کہا تھا کہ کشن گنگا اور رتلے منصوبے 1961 کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔ عالمی عدالت نے پاکستانی اعتراضات کی بنیاد پر مقدمہ قابل سماعت قرار دے دیا۔

اس وقت بھارتی آبی جارحیت کی وجہ سے پاکستان زرعی حوالے سے شدید متاثر ہو رہا ہے جب کہ بھارت نے بگلیہار اور کشن گنگا ڈیموں کے بعد راتلے پروجیکٹ کی تعمیر بھی تقریباً مکمل کر لی ہے۔ بگلیہار، کشن گنگا اور راتلے ڈیمز دریائے چناب اور دریائے جہلم پر تعمیر کیے گئے ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کا پانی روک دیا گیا ہے۔

صرف کشن گنگا ڈیم جو 330 میگا واٹ کا منصوبہ ہے، اس سے پاکستان کے نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ ایک ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا حامل ہے۔ اس بھارتی آبی جارحیت کے خلاف پاکستان نے ہیگ کی عالمی عدالت سے رجوع کیا تھا۔

بھارت نہ تو سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کرتا ہے نہ ہی ایسی ثالثی یا فیصلے کو قبول کرنے کو تیار ہے جس کے تحت پاکستان کو اس کا تسلیم شدہ آبی حق مل جائے، دوسری طرف پاکستان کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔

اسی تناظر میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا بنیادی معاہدہ ہے ہم عمل درآمد کے لیے پرعزم ہیں، امید ہے کہ بھارت بھی نیک نیتی سے عملدرآمد کرے گا۔

درحقیقت سندھ طاس معاہدے میں شامل ہے کہ دونوں ملک دریاؤں کے بہاؤ کا ڈیٹا اور آبی ذخائر کی تعمیرکی تفصیلات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں گے لیکن بھارت ہمیشہ اس حوالے سے پس و پیش سے کام لیتا آیا ہے۔

مئی 2022میں بھی دہلی میں دونوں ملکوں کے واٹر کمشنروں کے مابین تین روزہ مذاکرات میں سب سے بڑی بحث یہی رہی ہے کہ بھارت پاکستان کو دریاؤں کی صورتحال اور اس پر بنائے جانے والے ڈیموں اور بیراجوں کا ڈیٹا فراہم نہیں کر رہا۔

بھارت خود سے تو پاکستان کو ڈیٹا فراہم نہیں کررہا لیکن آج کل چونکہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور کوئی معمولی چیز بھی کسی سے اوجھل نہیں رہ سکتی تو بھلا کیسے یہ ممکن ہے کہ بھارت پاکستان کے دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیم بنانا شروع کر دے اور پاکستان کو خبر تک نہ ہو، چنانچہ بھارت نے پاکستانی دریاؤں پر جتنے بھی منصوبے شروع کیے ہیں، پاکستان کے علم میں ہیں اور اس حوالے سے پاکستان ورلڈ بینک سمیت تمام عالمی فورمز پر صدائے احتجاج بھی بلند کرتا چلا آ رہا ہے۔

بھارت دریائے چناب کے پانی پر بھی 850 میگا واٹ کا '' رتلے پن بجلی منصوبہ '' تعمیر کرچکا ہے جو سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دریائے چناب پر بھی 2005میں بھارت نے بگلیہار ڈیم تعمیر کیا تھا جس کے خلا ف پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا۔

پاکستان کی جانب سے تاخیر کے باعث اس وقت تک بھارت یہ ڈیم 80 فیصد سے زیادہ تعمیر کرچکا تھا جس پر عالمی بینک نے پاکستان کے خلاف فیصلہ صادر کرتے ہوئے بھارت کو ڈیم مکمل کرنے کی اجازت دے دی۔ اس ڈیم کی تعمیر کے باعث پاکستان کو روزانہ سات سے آٹھ ہزار کیوسک پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ '' کوار ہائیڈرو پاور پروجیکٹ '' مقبوضہ کشمیر کے ضلع کشتواڑ میں دریائے چناب پر بنایا جا رہا ہے۔

اسی طرح بارہ مولہ کے مقام پر بنائے گئے '' وولر بیراج '' پر بھی پاکستان کو شدید تحفظات ہیں لیکن بھارت نے اس کی پرواہ نہیں کی۔

بھارت کو سندھ طاس معاہدے کے تحت بے شک نیلم اور وولر کے پانی کے استعمال کا حق ہے لیکن جو پانی دریائے جہلم سے آئے گا اس پر کسی بھی قسم کا کوئی حق نہیں بنتا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت کے دیگر آبی منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت بھارت دریائے جہلم پر کوئی آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کر سکتا۔

تاریخ کے ورق پلٹیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے مستقل حل کے لیے 1948میں مذاکرات شروع ہوئے تھے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان میں بار بار تعطل پیدا ہوتا رہا اور یوں یہ معاملہ مستقل بنیادوں پر حل ہونے میں تاخیر ہوتی رہی، چونکہ یہ انتہائی اہم اور حساس معاملہ تھا اور اس کا حل نہ ہونا دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا سبب بن سکتا تھا۔

اسی لیے صورتحال کو دیکھتے ہوئے عالمی بینک نے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوششیں شروع کیں اور آخرکار 1960میں ''سندھ طاس معاہدہ'' کی صورت میں یہ معاملہ مستقل بنیادوں پر حل ہوگیا۔ اس معاہدے کے مطابق تین مغربی دریاؤں دریائے جہلم، دریائے سندھ اور دریائے چناب کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق قرار پایا، اس حق کو بھارت نے باقاعدہ تسلیم کیا۔

معاہدے کے مطابق بھارت کا دریائے سندھ کا 20 فیصد پانی اور تین مشرقی دریاؤں کا پانی استعمال کرنے کا حق تسلیم کیا گیا۔ اس معاہدے پر اس وقت کے صدر ِپاکستان ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے دستخط کیے۔

اس معاہدے میں یہ شق بھی شامل ہے کہ پاکستان تین مشرقی دریاؤں کے پانی کو بھی بوقت ضرورت استعمال کرسکے گا لیکن افسوس کہ بھارت اس معاہدے پر عملدرآمد کرنے کے بجائے وقتا فوقتاً پاکستان کے پانی کی حسب معاہدہ ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگا۔

بھارت نے آبی جارحیت اور سندھ طاس معاہدے کی مکمل خلاف ورزی 1999 میں کی جب دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم کی تعمیر شروع کردی۔ بھارت کی اس آبی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کی 67 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی کو پانی سے محروم کر دیا گیا۔

دریائے چناب سے پاکستان کو سالانہ تقریباً 92 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کرنے کی ضرورت ہے لیکن بگلیہار ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے دریائے چناب سے پاکستان کی صرف 25لاکھ ایکڑ اراضی مشکل سے سیراب ہونے لگی۔ اس بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان نے پرزور احتجاج کیا جس پر پاک بھارت متعدد بار مذاکرات ہوئے، مذاکرات کا یہ دور 1999سے 2004تک چلتا رہا لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ مذاکرات بے نتیجہ رہے۔

آخرکار 18اپریل 2005 کو پاکستان نے عالمی بینک کو صورتحال سے آگاہ کیا اور عالمی بینک کی ثالثی سے طے پانے والے سندھ طاس معاہدہ کے آرٹیکل 9 کی شق2کا حوالہ دیتے ہوئے فوری طور پر غیر جانبدار عالمی ماہرین کا تقرر کرنے کی درخواست کی تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے۔

اس پر عالمی بینک کی مقرر کردہ ٹیم نے دو سال کے بعد یعنی 2007 میں بعض شرائط کے ساتھ بھارت کو بگلیہار ڈیم بنانے کی اجازت دے دی۔ بھارت نے اسی سال اس فیصلے کے بعد کشن گنگا ڈیم کی تعمیر بھی شروع کر دی اور یوں یہ ڈیم بھی تعمیر ہوگیا۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی واضح طور پر اپنا سخت موقف دے چکے ہیں کہ '' دریائے سندھ میں جو پانی انڈیا کا ہے اسے پاکستان نہیں جانے دیا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ دریائے سندھ کے پانی پر بھی ہمارا حق ہے۔''

بھارت کی جانب سے پاکستانی دریاؤں پر بنائے گئے ڈیمز اور آبی ذخائر سے پاکستان شدید متاثر ہو رہا ہے اور دریاؤں میں پانی کی سطح مسلسل نیچے گر رہی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے '' انڈس واٹر کمشنر'' بھارت کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کی میز پر بیٹھ چکے ہیں لیکن ہر بار بھارت اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کو سبوتاژ کر دیتا ہے۔

اس میں سب سے زیادہ بھارت کی بدنیتی کا عمل دخل ہے جس کے تحت اس نے پاکستان کی سلامتی کو تاراج کرنے اور اس کی زرخیز زمینوں کو بنجر بنانے کی نیت سے ہی پاکستان کی جانب آنے والے دریاؤں پر چھوٹے بڑے دو سو سے زائد ڈیمز بنا لیے اور وہ جب چاہتا ہے پاکستان کا پانی روک کر اسے ایک ایک بوند سے محروم کر دیتا ہے جب کہ مون سون میں اطلاع دیے بغیر فالتو پانی پاکستان کی جانب چھوڑ کر اسے سیلاب میں ڈبو دیتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان بھارت کی اس ''آبی دہشت گردی '' کے خلاف عالمی سطح پر مقدمہ لڑے اور بھارت کی جانب سے کی جانے والی ''سندھ طاس معاہدے '' کی سنگین خلاف ورزیوں کو مختلف عالمی فورمز پر اٹھائے اور اپنا ٹھوس موقف اختیار کرے کہ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی ادارے بھارت کو آبی دہشت گردی سے باز رہنے پر آمادہ کریں کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں