کندھ کوٹ ڈاکوؤں کا راج
کندھ کوٹ، کشمور اور اطراف کے علاقوں میں حکومت کی رٹ ختم ہوئے برسوں ہوگئے
کندھ کوٹ میں عیدکا دن سوگ کا دن تھا۔ شہر سے اغواء ہونے والے بیس افراد اپنے گھروں کو لوٹ نہیں سکے۔ کندھ کوٹ سے تعلق رکھنے والے دس ہندو خاندان حالات کے جبرکا شکار ہوکر اپنے آبائی وطن کو الوداع کہہ کر ریل گاڑی کے ذریعے لاہور روانہ ہوگئے جہاں سے وہ سڑک کے راستے بھارت ہجرت کر جائیں گے۔
ہندو برادری کندھ کوٹ، جیکب آباد، کشمور اور شکار پور میں صدیوں سے آباد ہے۔ 1947 میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور شدید مذہبی فسادات رونما ہوئے تو سندھ کے شہروں سے تو ہندو بھارت منتقل ہوئے مگر اپر سندھ میں حالات زیادہ تر معمول پر تھے، یوں ہندوؤں نے اپنا گھر چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ کندھ کوٹ سے بھارت جانے والوں میں مکیش کمار، دلیپ کمار، نند لعل، ڈاکٹرمہرچند اور منور لال وغیرہ کے اہلِ خانہ شامل ہیں۔ کندھ کوٹ، کشمور اور اطراف کے علاقوں میں حکومت کی رٹ ختم ہوئے برسوں ہوگئے۔
ان علاقوں میں ڈاکوؤں کی حکومت ہے اور اجرتی قاتلوں کا راج ہے۔ ڈاکو سورج کی روشنی میں شہریوں کو اغواء کرتے ہیں۔ یہ ڈاکو صرف مردوں کو اغواء نہیں کرتے بلکہ عورتوں اور بچوں کو خصوصی طور پر نشانہ بناتے ہیں۔ ڈاکو انتہائی آرام سے مغویوں کی وڈیو بنا کر وائرل کرتے ہیں۔ ان وڈیو میں مرد، عورتیں اور بچے زنجیروں میں بندھے نظر آتے ہیں۔
ہندو برادری کے لوگوں کا شمار آمدنی کے اعتبار سے معتدل خاندانوں میں ہوتا ہے۔ ان میں سے بیشترکاروبار کرتے ہیں مگر ان ہندوؤں کی سماجی وسیاسی پوزیشن کمزور ہوتی ہے، یوں یہ ڈاکو آسانی سے انھیں نشانہ بناتے ہیں۔ سندھی اخبارات میں شایع ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کندھ کوٹ کے شہریوں کے لیے 28 جون کو عید الاضحیٰ کا دن غم کا دن تھا۔ ضلع کشمور کندھ کوٹ سے اغواء ہونے والے 30 سے زائد افراد بازیاب نہیں ہوسکے تھے۔
اغواء ہونے والے افراد کے لواحقین شکوہ کر رہے ہیں کہ پولیس ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کے بجائے ڈاکوؤں اور ان کے سہولت کاروں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ ہندو پنچایت کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے رہنما سیٹھ نند لال، جہانگیر تفانی، لیاقت خان ملک، ڈاکٹر مہمار چند مکی اور منور لال کا مدعا ہے کہ ہم اس ضلع میں غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ آئے دن لوگوں کو اغواء اور لوٹا جاتا ہے۔
ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہندو شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ مکیش کمار اور دلیپ کمار کا واضح مؤقف ہے کہ ہم اپنی جنم بھومی کو چھوڑنا نہیں چاہتے لیکن ہمیں مجبورکیا جا رہا ہے۔
اغوائ، لوٹ مار اور تشدد برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ان رہنماؤں نے الزام لگایا کیا کہ 100 سے زائد ہندو خاندانوں نے ملک چھوڑنے کے لیے پاسپورٹ آفس میں پاسپورٹ کے اجراء کی درخواستیں جمع کرا دی ہیں۔ یہ سب لوگ پاسپورٹ ملتے ہی اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانہ کو ویزا کے حصول کے لیے پاسپورٹ بھجوا دیں گے۔
اغواء ہونے والے افراد نے یکم جولائی کو سندھ کے انسپیکٹر جنرل پولیس سے ایس ایس پی آفس میں ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران اغواء ہونے والے نوجوان کے والد زاروقطار رو پڑے۔ کندھ کوٹ کے پولیس افسران نے مغوی لڑکے کے والد کو یہ کہہ کر دلاسا دیا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مغویوں کے لواحقین اور سول سوسائٹی کے اراکین نے ضلع میں اغواء کی وارداتوں کے خلاف ریلی نکالی، پولیس ہیڈ آفس پر دھرنا دیا گیا۔
سندھ میں کچا کا علاقہ جیکب آباد،کندھ کوٹ، کشمور، شکار پور، لاڑکانہ، سکھر، پنجاب میں رحیم یار خان اور ڈیرہ غازی خان کے وسیع علاقہ پر محیط ہے۔ اس کچا کے علاقہ میں بہت سے قبائل آباد ہیں جن میں تاریخی طور پر ڈاکوؤں کے گروہ بھی شامل ہیں۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان ڈاکوؤں کے گروہوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کے علاوہ قبائلی سردار اور پولیس کے اہلکار بھی سرپرستی کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن HRCP کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے چند ماہ قبل اپر سندھ کا دورہ کیا۔ اس ٹیم میں حنا جیلانی، اسد بٹ، قاضی خضر حبیب اور سعدیہ بخاری وغیرہ شامل تھے۔ اس ٹیم نے اپر سندھ کے تمام اضلاع میں اقلیتی برادری کے لوگوں کے علاوہ وکلائ، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اراکین سے انٹرویوکیے تھے۔
اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اغواء برائے تاوان اپر سندھ کا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ گزشتہ سال ایک خام اندازہ کے مطابق مغویوں کی رہائی کے لیے 2 بلین روپے کا کاروبار ہوا تھا۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ رقم مختلف درجوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اس رقم سے مستفید ہونے والوں میں جنگل میں موجود ڈاکوؤں کے علاوہ منتخب اراکین اور قبائلی سردار حتیٰ کہ کراچی کے سرکاری دفاترکے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہوئے عمائدین بھی شامل ہیں۔
ایک صحافی نے کہا کہ امن وامان کی ان علاقوں میں ابتر صورتحال ہے مگر سندھ و قومی اسمبلی اور سینیٹ میں یہ معاملہ کبھی ایجنڈا میں شامل نہیں ہوا۔ جب بھی کوئی مغوی رہا ہوتا ہے تو پولیس افسران یہ بیانیہ اختیارکرتے ہیں کہ پولیس کی کارروائی کی بناء پر مغوی برآمد ہوئے مگر اس واردات میں ملوث کسی ڈاکو کی گرفتاری نہیں ہوتی۔ مغوی کے رشتہ دار یہ راز کھولتے ہیں کہ مغویوں کی رہائی تاوان ادا کر کے ممکن ہوئی۔
تاوان لاکھوں روپے میں ہوتا ہے۔ ایک اخباری خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ شکار پور پولیس نے دعویٰ کیا کہ تین دن کے ٹارگیٹڈ آپریشن کے نتیجہ میں چھ مغویوں کو ڈاکوؤں کی قید سے آزاد کرا لیا گیا ہے۔ پولیس نے چند گرفتاریوں کا اعلان کیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ پولیس ان ڈاکوؤں کے ٹھکانوں کو تلاش کر رہی ہے۔ پولیس والوں کا شکوہ ہے کہ ڈاکو جدید اسلحہ سے لیس ہیں۔
ڈاکوؤں کے پاس اندھیرے میں دیکھنے والے چشمے، اینٹی کرافٹ گن اور دور تک نشانہ لگانے والی امریکی ساختہ بندوقیں بھی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکی فوج جو اسلحہ افغانستان میں چھوڑگئی تھی وہ اسلحہ باقاعدگی سے پنجاب اور سندھ کے کچا کے ڈاکوؤں کو مل رہا ہے۔ پولیس کا دعویٰ درست ہے کہ اسلحہ افغانستان سے باقاعدہ آتا ہے اور انتہائی محفوظ طریقہ سے مسلسل ڈاکوؤں میں فراہم کیا جاتا ہے۔
ان حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ ہی نہیں بلکہ پنجاب، بلوچستان ، خیبر پختون خوا اور اسلام آباد میں بھی اہم عہدوں پر تعینات افسران بالا اس کاروبارکی سرپرستی کرتے ہیں۔ ہندوؤں کی اپنے جنم بھومی چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ تو امن و امان کی خراب صورتحال ہے جب کہ دوسری ایک اور وجہ ان کی لڑکیوں کی زبردستی مذہب تبدیلی کا رجحان ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مسلسل اعلانات کے باوجود جبری مذہب کی تبدیلی کا معاملہ ختم نہیں ہو پا رہا ہے۔ وزراء اور منتخب اراکین انتخابی حکمت عملی یا نامعلوم وجوہات کی بناء پر خاموش ہیں مگر یہ رہنما اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ اس آگ سے وہ بھی نہیں بچ سکیں گے۔
ہندو برادری کندھ کوٹ، جیکب آباد، کشمور اور شکار پور میں صدیوں سے آباد ہے۔ 1947 میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور شدید مذہبی فسادات رونما ہوئے تو سندھ کے شہروں سے تو ہندو بھارت منتقل ہوئے مگر اپر سندھ میں حالات زیادہ تر معمول پر تھے، یوں ہندوؤں نے اپنا گھر چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ کندھ کوٹ سے بھارت جانے والوں میں مکیش کمار، دلیپ کمار، نند لعل، ڈاکٹرمہرچند اور منور لال وغیرہ کے اہلِ خانہ شامل ہیں۔ کندھ کوٹ، کشمور اور اطراف کے علاقوں میں حکومت کی رٹ ختم ہوئے برسوں ہوگئے۔
ان علاقوں میں ڈاکوؤں کی حکومت ہے اور اجرتی قاتلوں کا راج ہے۔ ڈاکو سورج کی روشنی میں شہریوں کو اغواء کرتے ہیں۔ یہ ڈاکو صرف مردوں کو اغواء نہیں کرتے بلکہ عورتوں اور بچوں کو خصوصی طور پر نشانہ بناتے ہیں۔ ڈاکو انتہائی آرام سے مغویوں کی وڈیو بنا کر وائرل کرتے ہیں۔ ان وڈیو میں مرد، عورتیں اور بچے زنجیروں میں بندھے نظر آتے ہیں۔
ہندو برادری کے لوگوں کا شمار آمدنی کے اعتبار سے معتدل خاندانوں میں ہوتا ہے۔ ان میں سے بیشترکاروبار کرتے ہیں مگر ان ہندوؤں کی سماجی وسیاسی پوزیشن کمزور ہوتی ہے، یوں یہ ڈاکو آسانی سے انھیں نشانہ بناتے ہیں۔ سندھی اخبارات میں شایع ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کندھ کوٹ کے شہریوں کے لیے 28 جون کو عید الاضحیٰ کا دن غم کا دن تھا۔ ضلع کشمور کندھ کوٹ سے اغواء ہونے والے 30 سے زائد افراد بازیاب نہیں ہوسکے تھے۔
اغواء ہونے والے افراد کے لواحقین شکوہ کر رہے ہیں کہ پولیس ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کے بجائے ڈاکوؤں اور ان کے سہولت کاروں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ ہندو پنچایت کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے رہنما سیٹھ نند لال، جہانگیر تفانی، لیاقت خان ملک، ڈاکٹر مہمار چند مکی اور منور لال کا مدعا ہے کہ ہم اس ضلع میں غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ آئے دن لوگوں کو اغواء اور لوٹا جاتا ہے۔
ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہندو شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ مکیش کمار اور دلیپ کمار کا واضح مؤقف ہے کہ ہم اپنی جنم بھومی کو چھوڑنا نہیں چاہتے لیکن ہمیں مجبورکیا جا رہا ہے۔
اغوائ، لوٹ مار اور تشدد برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ان رہنماؤں نے الزام لگایا کیا کہ 100 سے زائد ہندو خاندانوں نے ملک چھوڑنے کے لیے پاسپورٹ آفس میں پاسپورٹ کے اجراء کی درخواستیں جمع کرا دی ہیں۔ یہ سب لوگ پاسپورٹ ملتے ہی اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانہ کو ویزا کے حصول کے لیے پاسپورٹ بھجوا دیں گے۔
اغواء ہونے والے افراد نے یکم جولائی کو سندھ کے انسپیکٹر جنرل پولیس سے ایس ایس پی آفس میں ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران اغواء ہونے والے نوجوان کے والد زاروقطار رو پڑے۔ کندھ کوٹ کے پولیس افسران نے مغوی لڑکے کے والد کو یہ کہہ کر دلاسا دیا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مغویوں کے لواحقین اور سول سوسائٹی کے اراکین نے ضلع میں اغواء کی وارداتوں کے خلاف ریلی نکالی، پولیس ہیڈ آفس پر دھرنا دیا گیا۔
سندھ میں کچا کا علاقہ جیکب آباد،کندھ کوٹ، کشمور، شکار پور، لاڑکانہ، سکھر، پنجاب میں رحیم یار خان اور ڈیرہ غازی خان کے وسیع علاقہ پر محیط ہے۔ اس کچا کے علاقہ میں بہت سے قبائل آباد ہیں جن میں تاریخی طور پر ڈاکوؤں کے گروہ بھی شامل ہیں۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان ڈاکوؤں کے گروہوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کے علاوہ قبائلی سردار اور پولیس کے اہلکار بھی سرپرستی کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن HRCP کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے چند ماہ قبل اپر سندھ کا دورہ کیا۔ اس ٹیم میں حنا جیلانی، اسد بٹ، قاضی خضر حبیب اور سعدیہ بخاری وغیرہ شامل تھے۔ اس ٹیم نے اپر سندھ کے تمام اضلاع میں اقلیتی برادری کے لوگوں کے علاوہ وکلائ، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اراکین سے انٹرویوکیے تھے۔
اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اغواء برائے تاوان اپر سندھ کا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ گزشتہ سال ایک خام اندازہ کے مطابق مغویوں کی رہائی کے لیے 2 بلین روپے کا کاروبار ہوا تھا۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ رقم مختلف درجوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اس رقم سے مستفید ہونے والوں میں جنگل میں موجود ڈاکوؤں کے علاوہ منتخب اراکین اور قبائلی سردار حتیٰ کہ کراچی کے سرکاری دفاترکے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہوئے عمائدین بھی شامل ہیں۔
ایک صحافی نے کہا کہ امن وامان کی ان علاقوں میں ابتر صورتحال ہے مگر سندھ و قومی اسمبلی اور سینیٹ میں یہ معاملہ کبھی ایجنڈا میں شامل نہیں ہوا۔ جب بھی کوئی مغوی رہا ہوتا ہے تو پولیس افسران یہ بیانیہ اختیارکرتے ہیں کہ پولیس کی کارروائی کی بناء پر مغوی برآمد ہوئے مگر اس واردات میں ملوث کسی ڈاکو کی گرفتاری نہیں ہوتی۔ مغوی کے رشتہ دار یہ راز کھولتے ہیں کہ مغویوں کی رہائی تاوان ادا کر کے ممکن ہوئی۔
تاوان لاکھوں روپے میں ہوتا ہے۔ ایک اخباری خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ شکار پور پولیس نے دعویٰ کیا کہ تین دن کے ٹارگیٹڈ آپریشن کے نتیجہ میں چھ مغویوں کو ڈاکوؤں کی قید سے آزاد کرا لیا گیا ہے۔ پولیس نے چند گرفتاریوں کا اعلان کیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ پولیس ان ڈاکوؤں کے ٹھکانوں کو تلاش کر رہی ہے۔ پولیس والوں کا شکوہ ہے کہ ڈاکو جدید اسلحہ سے لیس ہیں۔
ڈاکوؤں کے پاس اندھیرے میں دیکھنے والے چشمے، اینٹی کرافٹ گن اور دور تک نشانہ لگانے والی امریکی ساختہ بندوقیں بھی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکی فوج جو اسلحہ افغانستان میں چھوڑگئی تھی وہ اسلحہ باقاعدگی سے پنجاب اور سندھ کے کچا کے ڈاکوؤں کو مل رہا ہے۔ پولیس کا دعویٰ درست ہے کہ اسلحہ افغانستان سے باقاعدہ آتا ہے اور انتہائی محفوظ طریقہ سے مسلسل ڈاکوؤں میں فراہم کیا جاتا ہے۔
ان حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ ہی نہیں بلکہ پنجاب، بلوچستان ، خیبر پختون خوا اور اسلام آباد میں بھی اہم عہدوں پر تعینات افسران بالا اس کاروبارکی سرپرستی کرتے ہیں۔ ہندوؤں کی اپنے جنم بھومی چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ تو امن و امان کی خراب صورتحال ہے جب کہ دوسری ایک اور وجہ ان کی لڑکیوں کی زبردستی مذہب تبدیلی کا رجحان ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مسلسل اعلانات کے باوجود جبری مذہب کی تبدیلی کا معاملہ ختم نہیں ہو پا رہا ہے۔ وزراء اور منتخب اراکین انتخابی حکمت عملی یا نامعلوم وجوہات کی بناء پر خاموش ہیں مگر یہ رہنما اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ اس آگ سے وہ بھی نہیں بچ سکیں گے۔