اقتدار کے کھیل کی نئی سیاسی بساط

انتخابات سے قبل ہی اقتدار کے کھیل کی بندر بانٹ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر طے ہوجاتی ہے

salmanabidpk@gmail.com

قومی سیاست یا جمہوریت کا بڑا المیہ یہ ہی ہے کہ یہ طاقت کے مراکز کے درمیان گھومتی ہے اور طاقت کے مراکز میں شامل مختلف فریقین ہی مل بیٹھ کو اقتدار کی سیاست میں اپنا رنگ بھرتے ہیں۔

انتخابات کی ساکھ پر بڑا سوال یہ ہی ہے کہ انتخابات سے قبل ہی اقتدار کے کھیل کی بندر بانٹ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر طے ہوجاتی ہے اور پھر اس کھیل کو حتمی شکل دینے کے لیے انتخابات کا سہارا لیا جاتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست پر تنقید بھی بہت ہوتی ہے اور بہت سے سنجیدہ نوعیت کے افراد کے تحفظات بھی غالب نظر آتے ہیں ۔کیونکہ اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ان ہی روایات اور طور طریقوں کو بنیاد بنا کر ہی آگے بڑھنا ہے تو پھر سیاست ،جمہوریت اور آئین و قانون کی حکمرانی کا خواب بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔اس وقت بنیادی نقطہ قومی سیاست اور اس سے جڑے معاملات کو سیاسی و جمہوری دائرہ کار میں لانا ہے ۔

2023کے عام انتخابات ہوں یا انتخابات مارچ 2024میں ہونے ہوں یا انتخابات 2025 کے شروع میں کروانے ہیں تو اس طرح کی خبریں غیر یقینی ماحول کو جنم دیتی ہیں ۔ یہ جو ہم نے تین طرح کی انتخابات کی تاریخیں بیان کی ہیں یہ میری نہیں بلکہ اسلام آباد کے سیاسی پنڈتوں کے درمیان جاری مباحث کا حصہ ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عام انتخابات بروقت ہوسکیں گے اس پر غیر یقینی کا ماحول غالب ہے۔

اسی ابہام میں لندن پلان ہو یا دوبئی میں جاری پلان ،منصوبہ یا سیاسی مشاورت کی بیٹھک ہو وہاں حکمران اتحاد کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کا سرجوڑ کر بیٹھنا ظاہر کرتا ہے کہ خود سے اقتدار کے کھیل کو حتمی شکل دی جارہی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کیا سیاسی و جمہوری قوتیں اس حدتک آزاد ہوگئی ہیں کہ وہ اپنے سیاسی فیصلے خود سے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں کی خواہش ہوگی کہ اس حکومت کی مدت کے خاتمہ کے بعد فوری طور پر انتخابات کا راستہ ہی اختیار کیا جائے ۔کیونکہ یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں کسی بھی طو رپر اس پر اتفاق نہیں رکھتیں کہ نگران حکومت کو لمبی مدت تک ہی آگے چلایا جائے اور اس نگران حکومت کو عبوری حکومت کا درجہ دیا جائے ۔یہ دونوں جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ انتخابات ہوں اور ہم دونوں جماعتیں کچھ بنیادی شرائط کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو پر اقتدار کے کھیل کو حتمی شکل دیں ۔

جب کہ شہباز شریف کی خواہش یہ ہے کہ اگر نگران حکومت کو لمبا کرکے عبوری حکومت میں تبدیل کرنا ہے تو پھر ان کی حکومت کو ہی آگے چلایا جائے۔


نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی خواہش رکھتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان کی خواہش ہے کہ ان کی بیٹی مریم نواز کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر قبول کیا جائے ۔شہباز شریف اپنے لیے لابنگ کررہے ہیں کہ وہ ہی نئے وزیر اعظم ہوں جب کہ آصف علی زرداری بلاول بھٹو کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں ۔جب کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی خواہش ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ان کو نئے صدر کے طور پر قبول کرلیں ۔نواز شریف پنجاب کے بغیر مسلم لیگ ن کے اقتدار کے حامی نہیں ۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو اگلے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار کا یقین ہے ۔دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ جو بھی نئے انتخابات ہونگے اس میں پی ٹی آئی کا سیاسی جادو نہیں چل سکے گا اور اس کو سیاسی طور پر مفلوج کردیا جائے گا ۔

ان کے بقول امکان ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو نااہل کیا جاسکتا ہے ، سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے ، گرفتار کیا جاسکتا ہے اور انتخابی میدان میں مائنس ون فارمولے کے تحت انتخاب لڑنے کی اجازت دی جائے گی ۔ اس لیے پی ٹی آئی کچھ نہیں کرسکے گی ۔ سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کو سیاسی میدان سے باہر نکال کر انتخابات کی سیاسی ساکھ کیا ہوگی اور کس حد تک اس انتخابات کو قبول کیا جائے گا ، یہ بھی اہم سوال ہے ۔مائنس ون فارمولہ کا تجربہ ہم ماضی میں بھی کرچکے ہیں مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکل سکا۔

یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ پنجاب کے انتخابی منظرنامہ میں جہانگیر ترین اور مسلم لیگ ق کا کیا مستقبل ہوگا ۔ کیا یہ جماعتیں انتخابی میدان میں کسی کی حمایت کے ساتھ میدان میں اتریں گی یا یہ پہلے سے موجود دو بڑی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر آگے بڑھیں گی ۔مسلم لیگ سمجھتی ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو اگر حمایت بھی مل جائے تب بھی ان کے پاس ووٹ بینک موجود نہیں اور نہ ہی یہ کچھ بڑا کرسکیں گی ۔

اب سوال یہ ہے کہ اس نئی صورتحال میں پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشن رہ جاتے ہیں ۔ کیا پی ٹی آئی کے سربراہ کیا خود کو مائنس کرنے کے لیے تیار ہونگے جو فی الحال ان کی باتوں سے نہیں لگتا ۔ خیبر پختونخواہ میں بھی پی ٹی آئی کے مقابلے میں پرویز خٹک کو جو کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیا وہ مطلوبہ نتائج دے سکیں گے اور کیا ایسا ممکن ہوگا۔

ہم نے خود کو ماضی کی غلطیوں سے باہر نہیں نکالااور تسلسل کے ساتھ ماضی پر مبنی کھیل کو جاری رکھا ہوا ہے ۔ جب انتخابات یا ووٹ کی بنیاد پر اقتدار کے فیصلے نہیں ہونے تو اس سے جمہوریت کا کھیل آگے نہیں بلکہ پیچھے کی طرف بڑھے گا۔ کاش ہم سیاست اور جمہوریت کو یا آئین و قانون کو بنیاد بنا کر ہی سیاسی نظام کو چلانے کی کوشش کرتے تو ہم اپنے سیاسی و ریاستی یا ادارہ جاتی بحران سے باہر نکل سکتے ہیں ۔

یہ جو کھیل قومی سیاست پر غالب ہے اس کھیل کی داخلی اور خارجی ساکھ پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔ سیاست ،جمہوریت انصاف اور رائے عامہ سے جڑے افراد ہوں جب یہ اپنے سیاسی اور جمہوری فیصلے خود سے کرنے کے بجائے کسی اور کی طرف دیکھیں گے یا اپنے فیصلوں پر سمجھوتہ کرلیں گے تو اس سے جمہوری سیاست کی منزل اور دور ہوگی اور ہم ہی اس کے ذمے دارہونگے ۔
Load Next Story