تصویر تو ہے صاحبِ تصویر ہی نہیں
حمایت علی شاعر 15 جولائی2019 کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں 93 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے
جن لوگوں نے اُردو ادب کی خدمات کے لیے دن رات جدوجہد کی اُن میں عظیم شخصیتوں میں ایک بڑا نام حمایت علی شاعر کا بھی ہے، جو اپنے تلخ و شیریں تجربات، عمیق مشاہدات اور ذاتی خیالات کی بدولت ایک جدید شاعر تسلیم کیے جاتے تھے۔ ان کا پیدائشی نام میر حمایت علی جب کہ ادبی دنیا میں حمایت علی شاعر کے نام سے معروف ہوئے۔
ان کی پیدائش 14 جولائی 1926کو بھارت کے آبائی گائوں اورنگ آباد دکن میں سید تراب علی اور محترمہ لطف النساء بیگم کے گھر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کرنے کے بعد پاکستان ہجرت کی توکراچی میں سکونت پذیر ہوئے اور سندھ یونیورسٹی سے اُردو میں ایم اے کیا۔ بعدازاں وہ اسی جامعہ میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔
23 سال کی عمر میں 14 فروری1949 کو ان کی شادی معراج النساء بیگم سے ہوئی جن کو ادبی دنیا کے لوگ آج بھی '' معراج نسیم'' کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ ایک افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ہفتہ وار ''پرواز'' حیدرآباد(دکن) میں صفحہ خواتین کی انچارج رہیں جب کہ ان کے متعدد افسانے ہندوستان اور پاکستان کے مختلف ادبی رسائل وجرائد میں شایع ہوتے رہے، مگر '' معراج نسیم '' کا حمایت علی شاعر سے موازنہ کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ مرحوم نے اپنے ادبی سفرکے دوران کئی اصناف میں طبع آزمائی کی۔
جن میں غزلیں، نظمیں، ملی نغمے، فلمی گیت، لوری اور نثرمیں کالم، ڈرامے، اسکرپٹ، مکالمے اور اسکرین پلے کے علاوہ اُردو شاعری میں ان کا ایک کارنامہ تین مصرعوں پر مشتمل ایک نئی صنف سخن ثلاثی کو رواج دیا۔
مرنا ہے تو دنیا میں تماشہ کوئی کر جا
جینا ہے تو اک گوشہ تنہائی میں اے دل
معنی کی طرح لفظ کے سینے میں اُتر جا
ان کے منظوم خود نوشت کو ان کی اضافی خوبیوں میں شمارکیا جاتا ہے اور تراجم ایک منفرد کام ہے۔ انھوں نے چاندکی صورت آسمانِ ادب کا سفر لمحہ بہ لمحہ طے کیا ان کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ حمایت علی شاعر ابتداء میں مختلف ناموں سے ادبی رسائل و جرائد اور اخبارات میں لکھتے رہے۔ ان کی بعض نظمیں کچھ افسانے اور اخباری کالم 1945تک ہندوستان میں ''حمایت تراب'' اور ''نردوش'' کے علاوہ '' ابلیس فردوسی'' کے نام سے شایع ہوتے رہے، جب کہ پاکستان میں ان کی تخلیقات 1955 سے 1993 تک '' ابنِ مریم'' کے نام سے شایع ہوتی رہیں۔
میرے خیال میں ایسا کرنا یقینا ان کی کوئی مجبوری ہو گی مگر ادبی دنیا یا فلمی دنیا میں حمایت علی شاعر نام ہی ان کی پہچان بنی۔ انھوں نے جو ملی نغمے تحریرکیے اُن میں سب سے مشہور '' جاگ اُٹھا ہے سارا وطن'' شامل ہے۔ یہ نغمہ 1965 میں ریلیز ہونے والی فلم '' مجاہد '' کے لیے لکھا گیا تھا جسے شہرت کی بلندیاں چھونے پر نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ جسے ہم آج بھی مسعود رانا اور شوکت علی کی خوبصورت آواز میں سنتے ہیں۔
شاعرِ مرحوم مالی ضرورت کے تحت فلمی دنیا سے بھی وابستہ رہے اس دوران انھوں نے مختلف فلموں کے نغمات، مکالمات اور اسکرین پلے لکھے جن میںآنچل، تصویر، لوری اور'گڑیا' فلمیں شامل ہیں، جن کے سدا بہار گیت آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتے ہیں، ایسے میں ان کا مجھے ایک گیت یاد آ گیا۔
مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو
مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے
مگر جب وہ ریڈیو اور ٹیلی وژن سے وابستہ ہوئے تو انھوں نے ''آل انڈیا ریڈیو'' حیدر آباد، دکن میں (1947سے 1950تک) خدمات انجام دیتے رہے اور اُن کی '' ریڈیو پاکستان'' کراچی اور حیدر آباد، سندھ (1951 سے 1962 تک) ٹیلی ویژن کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ '' پی ٹی وی، لاہور،کراچی اور اسلام آباد سے مختلف ادبی اور تحقیقی پروگرام کیے جن میں غزل اس نے چھیڑی، کسوٹی، خوشبوکا سفر، عقیدت کا سفر، لب آزاد، محبتوں کا سفر اور'' نشیدِ آزادی'' شامل ہیں۔ کسوٹی آج تک سامعین کو یاد ہے۔حمایت علی شاعر صحافت سے بھی وابستہ رہے۔
روزنامہ جناح اور ہمدرد جیسے اخبارات کے علاوہ انھوں نے سازِ نو ،شعور اور صریہ خامہ (مجلہ شعبہ اُردو سندھ یونیورسٹی) کی ادارت بھی کی اور 1977 میں '' اقبال نمبر'' اور 1978 میں ''نعت نمبر'' شایع کیے۔ ان کی ماہرانہ تعلیمی خدمات کو سراہتے ہوئے مرکزی وزارتِ تعلیم حکومت پاکستان نے انھیں عوامی جمہوریہ چین میں ایک بڑے عہدے پر تعینات کیا مگر وہ اپنی ناساز طبیعت کی وجہ سے چین نہ جا سکے۔
''کلیاتِ حمایت علی شاعر'' کئی سو صفحات کی ضخامت لیے ہوئے ہے جس میں ان کی متعدد شعری تخلیقات کا خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ان کو اپنی تخلیقات سے مثالی عشق تھا جس کی متعدد گواہیاں ان کی شاعری میں جابجا موجود ہے۔ ان کی شاعری جذباتِ حقیقی کا ایسا آئینہ ہے جس میں زندگی کے نشیب و فراز رویوں اور سچائیوں کے عکس کو صاف دیکھے جا سکتے ہیں،کیونکہ انھوں نے اپنی شاعری کو سادگی، روانی، سلاست اور داخلی کیفیات کا ترجمان بنایا ہے۔
میرے نزدیک وہ الفاظ کے ایسے جوہری تھے شاید کوئی جوہری بھی موتی اس طرح نہیں پرو سکتا جس طرح سے انھوں نے پروئے۔ ان کی شعری کتب میں ''آگ میں پھول (نظمیں ،غزلیں، رباعیات)، دودِ چراغِ محفل (یادگار مشاعرہ حیدرآباد کا انتخاب)، مٹی کا قرض ( ثلاثیاں، نظمیں، غزلیں)، تشنگی کا سفر ( طویل افسانوی اور تمثیلی نظمیں)، ''ہارون کی آواز (نظمیں، غزلیں، ہائیکو)، '' حرف حرف روشنی (منتخب کلام اور ایک طویل نظم)، عقیدت کا سفر (نعتیہ شاعری کے سات سو سال) حصہ اول،''آئینہ درآئینہ (منظوم خود نوشت سوانح حیات)، تین ہزار سے زائد اشعار، تجھ کو معلوم نہیں(فلمی نغمات)،چاند کی دھوپ اور ''کلیاتِ شاعر'' شامل ہیں، جب کہ نثری کتب میں شیخ ایاز، شخص و عکس، کھلتے کنول سے لوگ، حمایت علی شاعر کے ڈرامے (ریڈیو اور اسٹیج ) اور تراجم شامل ہیں۔
حمایت علی شاعر نے بھی اپنے دریائے سخن کو روانی اور طغیانی میں رواں رکھا ہے اور اپنا راستہ خود پیدا کیا ہے۔ رکاوٹوں اور بندشوں سے کبھی خائف نہیں ہوئے اور نہ اُن کے سبب اپنا راستہ بدلا ہے بلکہ ہر موڑ پر رکاوٹوں کو دور کیا اور بندشوں کو توڑا ہے۔ یہ حوصلہ اور ہمت بھی خدا کسی کسی کو دیتا ہے۔'' ان کی مشہورِ زمانہ غزل کے چند اشعار دیکھے۔
ہر قدم پر نِت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
شاعرؔ اُن کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
حمایت علی شاعر کے کلام کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کا شاعرانہ خلوص ہے،کیونکہ ان کو جذبات کے اظہار پر بڑی قدرت حاصل تھی خوشی، غم، محبت، عداوت، رشک و حسد وغیرہ کے جذبات کو انھوں نے انتہائی اُستادی سے پیش کیا ہے۔ اس لیے ان کو ادبی، ثقافتی، فلمی اور صحافتی خدمات کے اعترافات میں صدارتی ایوارڈ، نگار ایوارڈ اور رائٹرزگلڈ آدم جی ادبی ایوارڈ کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر نوازا جا چکا ہے۔
ان کے اعترافِ فن کے حوالے سے جن ادبی رسائل وجرائد نے خصوصی شمارے شایع کیے اُن میں ماہنامہ طلوعِ افکار، سہ ماہی مجلہ عثمانیہ ، رسالہ شخصیات کراچی، مجلہ لوحِ ادب، ماہنامہ چہار سو اور خصوصی مطالعہ حمایت علی شاعر'' ادب ساز دہلی و دیگر موجود ہیں۔
ان کے فن وشخصیت پرکئی تخلیقی مقالات بھی تحریر ہوئے جن میں'' حمایت علی شاعر،حیات اور شاعری'' ،مقالہ برائے پی ایچ ڈی ، ڈاکٹر قاضی نوید احمد صدیقی، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکرمرہٹواڑہ یونیورسٹی ورنگ آباد،''حمایت علی شاعرکی ادبی خدمات کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ '' مقالہ برائے پی ایچ ڈی، کراچی یونی ورسٹی پروفیسر رعنا اقبال، ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن، ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز، وفاقی اُردو یونیورسٹی،کراچی اور''حمایت علی شاعر ...فن اور شخصیت'' مقالہ برائے ایم اے، رشید احمد رشید، سندھ یونیورسٹی جام شورو شامل ہیں۔
حمایت علی شاعر 15 جولائی2019 کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں 93 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ اس فانی دنیا سے جانے والے نہیں آتے، ان کی یادیں ہی رہ جاتی ہیں ،اُردو ادب کی دنیا ان کی رحلت پر سوگوار رہے گی اور ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔ آخر انتہائی دُکھ کے ساتھ یہی کہا جاسکتا ہے۔
روتے ہیں خواب، مرکزِ تعبیر ہی نہیں
تصویر تو ہے صاحبِ تصویر ہی نہیں