احساس زیاں

بدقسمتی یہ ہے کہ آدمی اپنی انا کے خول میں قید رہتا ہے اور حقیقت کا اعتراف نہیں کرتا


MJ Gohar July 09, 2023
[email protected]

امریکا میں 1986 میں ایک کتاب شایع ہوئی جس کا نام ہے (Peak Performance) یعنی چوٹی کے عمل کرنے والے لوگ۔ اس کتاب میں جدید امریکا کے ان لوگوں کی روداد بیان کی گئی ہے جنھوں نے زندگی کے میدان میں اپنے اپنے شعبوں میں علم، تجزیے، مشاہدے اور تجربے کی بنیاد ایماندارانہ و مخلصانہ کوششیں کیں اور ہیرو کا درجہ حاصل کیا۔

مصنف نے مذکورہ کتاب میں جو باتیں لکھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ '' طاقتور مشن''، یہ وہ چیز ہے جو آدمی کے اندر جوش، ولولہ تازہ، امنگ اور جذبے کو ابھارتا اور اسے مہمیزکرتا ہے جس کی بدولت وہ غیر معمولی کامیابی حاصل کر کے ناقابل یقینی منزل کو پا لیتا ہے۔ امریکا نے 1967 میں پہلا انسان بردار راکٹ چاند پر بھیجا۔ راکٹ کی روانگی سے پہلے جو ماہرین اس حیرت انگیز منصوبے کی تکمیل میں مشغول تھے، ان میں سے ایک شخص جو ٹیم میں کمپیوٹر پروگرامر کی حیثیت سے شامل تھا، کا بیان ہے کہ دوران عمل کچھ غیر معمولی بات پیدا ہوگئی۔

ہزاروں مرد اور عورتیں جو اس منصوبے میں کام کر رہے تھے وہ سب کے سب پر جوش، پرعزم اور غیر معمولی لگن و محنت سے کام کرنے والے (Super Achievers) بن گئے۔ وہ سب ایسی حیران کن، عمدہ اور غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے لگے جو اس سے پہلے انھوں نے ساری عمر نہیں دکھائی تھی۔ یوں 18 مہینے میں برق رفتار تیزی سے سارا کام مکمل ہو گیا۔

اس شخص کے بقول جب میں نے یہ جاننا چاہا کہ ٹیم کے تمام لوگ اتنا عمدہ اور غیر معمولی کام کیوں اور کیسے کر رہے ہیں تو میں نے منیجر کے سامنے یہ سوال رکھا تو اس نے مشرق کی جانب چمکتے چاند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ہزاروں سال سے وہاں جانے کا خواب دیکھتے رہے ہیں اور اب ہم اس خواب کو تعبیر دیتے ہوئے حقیقت کا روپ دینے جا رہے ہیں اسی جذبے نے ہم سب کو جوشیلا اور ہماری خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدارکردیا ہے۔

اس زمینی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انسان کو جو چیز متحرک اور پرجوش کرتی ہے وہ یہ کہ اس کے سامنے کوئی بڑا مقصد آجائے جسے حاصل کرنا اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو تو پھر اس کی اندرونی صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں اور اس کے اعتماد میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ سوتے، جاگتے اور اٹھتے بیٹھتے اسی ایک دھن میں مگن رہتا ہے کہ ایسی کیا تدابیر اختیار کی جائیں کہ وہ گوہرِ مقصود حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ یہی سوچ، جذبہ اور عزم اسے ہر طرح کی قربانیاں دینے پر آمادہ کرتا ہے اور ایک عام آدمی کو چوٹی کا انسان بنا دیتا ہے۔

موجودہ دنیا میں اعلیٰ درجے کا کام انجام دینے کے لیے کسی طلسماتی صلاحیت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک اوسط درجے کا آدمی بھی انتہائی اعلیٰ سطح کی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ ضرورت صرف جذبے، لگن، شوق، جنون اور اپنے اطراف موجود زمینی حقائق کو جاننے اور انھیں استعمال کرنے کا ہنر آنا چاہیے۔ ایک امریکی مصنف نے باقاعدہ طور پر اس امر کی تحقیق کی ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ تجارت، سیاست، آرٹ اور اسپورٹس کے میدان میں غیر معمولی صلاحیتوں اور ناقابل یقین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے تقریباً 90 افراد سے اس نے انٹرویوزکیے۔ ان کی اکثریت نے ''ناکامی'' کو ''غلط آغاز'' کا نتیجہ قرار دیا۔ جب کہ مایوسیاں ان کے لیے زیادہ طاقت ور ارادوں کا سبب بن گئیں۔

یعنی حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں، اعلیٰ درجے کا کام انجام دینے والے ہمیشہ محسوس کرتے ہیں کہ یہاں کچھ نئے گوشے ہیں جن کو وہ اپنی محنت، لگن اور جذبے کے تحت دریافت کر سکتے ہیں، ان کے پاس آگے بڑھنے اور کھوجنے کے لیے ہمیشہ ایک نیا تصور موجود ہوتا ہے۔

یہ بات سوچنے، سمجھنے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کی ہے کہ اگر آپ ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں اور اس کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں اور خود کو بے قصور و بری الذمہ سمجھتے ہیں تو آپ کے اندر آگے بڑھنے، نئی راہیں تلاش کرنے اور عمل کرنے کا جذبہ اور شوق ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ پھر آپ صرف دوسروں پر الزام تراشی، احتجاج اور شکوے شکایت ہی میں مصروف رہ کر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے رہیں گے اور خود کچھ نہ کرسکیں گے۔

لیکن اگر آپ حقیقت پسند بن جائیں اور اپنی ناکامیوں کو اپنی غلط کارکردگی اور غلط حکمت عملی کا نتیجہ سمجھیں تو پھر آپ کا ذہن نت نئی تدابیر و تراکیب کی جانب مائل ہوکر نئی منصوبہ بندی کرنے میں لگ جائے گا۔ ایک شخص اپنے آپ کو ازخود بڑا سمجھ لیتا ہے۔ اب اگر اس کا سابقہ کسی ایسے شخص سے پڑ جائے جس کو خدا نے اس سے اوپر کردیا ہے تو یہ پہلے شخص کے لیے بڑا تکلیف دہ لمحہ ہوتا ہے۔ وہ یہ تسلیم نہیں کر پاتا کہ دوسرا شخص بڑا ہے اور وہ چھوٹا۔ وہ اپنی بڑائی کو کم ہوتے، ٹوٹتے اور بکھرتے نہیں دیکھ پاتا ہے اور نہ ہی اس سے یہ سب کچھ برداشت ہوتا ہے۔

اس کے اندر کی شخصیت پھٹ جاتی ہے اور وہ اپنی بڑائی کو ثابت کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے دوسرے شخص کو غلط ثابت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ اس پر جھوٹے الزامات لگاتا ہے، اس کی تحقیر و توہین کرتا ہے اور اس کے اچھے کاموں میں بھی کیڑے نکالتا ہے تاکہ اپنے برتری کے جذبے کی تسکین حاصل کر سکے، وہ اس کی عزت پر حملہ کرتا ہے تاکہ اس کو بے عزت کرکے اپنی متکبرانا نفسیات کو غذا فراہم کر سکے۔

آدمی اگر حقیقت واقعہ کے اعتراف کے لیے کھلے دل و دماغ سے ہمہ وقت تیار ہے اور سچائی کو تسلیم کر لے تمام شکایتوں کی جڑ کٹ جائے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آدمی اپنی انا کے خول میں قید رہتا ہے اور حقیقت کا اعتراف نہیں کرتا اور اپنے آپ کو ہر صورت درست اور دوسروں کو غلط سمجھتا ہے اسی لیے وہ خود کو شکایات سے اوپر اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔آپ وطن عزیز کی سات دہائیوں کی تاریخ کا جائزہ لے لیں تو یہی تلخ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سیاست، عدالت، قیادت، تجارت غرض زندگی کے کسی شعبے میں زمینی حقیقت کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا، اسی باعث سیاست بھی داغ دار ہے، انصاف بھی روبہ زوال ہے۔

70 سال گزرگئے قیادت کا بارگراں اٹھانیوالے آج تک ایک دوسرے کے خلاف عامیانہ سوچ کے اظہار اور بے بنیاد الزام تراشی سے آگے بڑھ کر ملک کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے قربانیاں دینے کے لیے تیار نہیں۔ صرف دوسروں کو حالات حاضرہ کا ذمے دار ٹھہرا کر اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں۔ حقیقت کا اعتراف کرنے سے گریزاں ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہر ادارہ اور ہر فرد اپنے تئیں مطمئن ہے کہ '' میں بے قصور ہوں، دوسرا ذمے دار ہے، وطن عزیز کی تباہی و بربادی میں میرا کوئی کردار نہیں، میں تو محب وطن ہوں، اور دوسرا غدار'' بقول شاعر مشرق علامہ اقبال:

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں