جمہوریت کی سیاہی کا ’’ کمال ‘‘ گواہ
جیل افسر نے سپاہیوں سے کہا کہ ’’ اسے وارڈ سے باہر نہ جانے دینا‘‘ چونکہ شبیر شرکو میری منصوبہ بندی کا علم تھا
پانچ جولائی،1977 کو نہ صرف ملک کی تاریخ کو داغدار کیا گیا بلکہ جمہوریت کی سلامتی کے ایسے سرفروشوں کے سر قلم کیے گئے جنھیں آمر کا تشدد بھی نہ جھکا سکا۔
جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشل قتل کروایا تو حکومتی مشینری نے ظلم و جبرکی ایک نئی تاریخ رقم کی، ہر طرف پکڑ دھکڑ جاری تھی، اس دوران پیپلز پارٹی سمیت کمیونسٹ پارٹی کے سر کردہ رہنمائوں کو جھوٹے مقدمات میں قید کیا گیا، کمیونسٹوں پر ملکی غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا اور اس مقدمے میں قید کمیونسٹ رہنماؤں، بدر ابڑو، سہیل سانگی، جام ساقی، شبیر شر، جمال نقوی، نذیر عباسی، امر لال اور کمال وارثی کو ملک دشمن قرار دیا گیا۔
آمر ضیاالحق نے پوری کوشش کر لی کہ کمیونسٹ ملک چھوڑکر چلے جائیں، مگر آمر کسی بھی کمیونسٹ کو رعایت کا لالچ دے کر بھی ملک سے باہر نہ بھیج سکا، کراچی کے سینٹرل جیل میں کمیونسٹوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی قید تھے۔ جبر و تشدد اور جمہوریت پسندوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کا نشانہ بننے والے پیپلز پارٹی کے ناصر بلوچ کی پھانسی کے چشم دید گواہ کامریڈ کمال وارثی کے انکشافات پہلی مرتبہ سامنے لائے جا رہے ہیں۔
کمال وارثی ناصر بلوچ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تمام کمیونسٹ رہنمائوں کو 1984میں حیدرآباد جیل سے کراچی منتقل کیا گیا تو تمام کمیونسٹ ساتھی پیپلز پارٹی کے قید کیے گئے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھتے تھے۔ اسی دوران اطلاع ملی کہ پیپلز پارٹی کے ناصر بلوچ کے '' بلیک وارنٹ '' جاری ہو چکے ہیں۔ اس خبر نے سب سیاسی قیدیوں میں پریشانی کی لہر پیدا کردی۔
کمال وارثی کے بقول4 مارچ 1984 والے دن کی درمیانی شب میں نے کھولی میں موجود پیپلز پارٹی کے زاہد حسین اور اشفاق کلاچی سے کہا کہ سپاہی سے کہہ کر ڈاکٹر کو بلائیں کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، انھوں نے ڈاکٹر کو بلایا تو ڈاکٹر نے کھولی کی سلاخوں کے باہر ہی سے میری طبیعت پوچھی اور یہ کہہ کر چل دیا کہ سپاہی کے ہاتھ تمہیں دوا بھجواتا ہوں، دوا کھا لینا اور صبح اسپتال وارڈ میں مل لینا، میں نے صبح ہی ڈاکٹر کو اپنا حال احوال بتایا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب '' مجھے ایک رات کے لیے ایڈمٹ کر لیں'' ڈاکٹر نے مجھے ایڈمٹ کر لیا۔
میں ایڈمیشن کی پرچی لیے اپنے ساتھی شبیر شر کے پاس پہنچا اور اسے سارا ماجرا بتایا اور کہا کہ تمہیں تو پتہ ہے کہ ناصر بلوچ کے بلیک وارنٹ نکل چکے ہیں اور آج اس کا پھانسی گھاٹ میں دوستوں اور لواحقین سے ملاقات کا آخری دن ہے اور کل صبح اسے پھانسی دے دی جائے گی، میری مجبوری ہے کہ میں ناصر بلوچ سے اظہار یکجہتی کے لیے بیرک نمبر22 میں موجود تمام سیاسی قیدیوں کے ساتھ شامل نہ ہو سکوں گا اور مجھے پتہ ہے جیل کے تمام ساتھی میرے اس عمل سے نالاں ہوں گے، ذرا تم اسے سنبھال لینا۔
شام ہو چلی تھی، جیل میں ہو کا عالم تھا، ہر ساتھی افسردہ تھا، سپاہی بیرک کو تالا لگانے کے لیے تیار کھڑا تھا، میں اپنی کھولی سے اسپتال وارڈ جانے لگا تو مجھے اسپتال جاتے دیکھ کر ساتھی مجھ پر پھبتیاں کسنے لگے۔رات کے بارہ بج چکے تھے 5 مارچ کی تاریخ لگ چکی تھی، نعروں کی گونج میں تیزی آتی جا رہی تھی جب کہ شطرنج کا کھیل بھی جاری تھا، رات کے دو بجتے ہیں، وارڈ کا دروازہ کھلتا ہے، کمپوڈر اندر آتا ہے، میں کمپوڈر سے پوچھتا ہوں، اس وقت آپ یہاں؟
وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں روئی اور بینڈیج لینے آیا ہوں، وہ سامان لے کر وارڈ کو تالا لگا کر چلے جاتے ہیں، جب مجھے یقین ہو چلا کہ اب یہاں جیل انتظامیہ سے کوئی نہیں آئے گا تو میں نے وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ '' دیکھو اس راہداری سے ناصر بلوچ کو لے کر جائیں گے، ناصر بلوچ نعرہ لگائے گا اور ہم سب مل کر نعرے کا جواب دیں گے'' میرا یہ کہنا تھا کہ سب سکتے میں آگئے، اسلم ناتھا کھسیانہ ہوکر بولا کہ '' پھانسی کے قیدی کی جان پر بنی ہے وہ کیسے نعرے لگائے گا؟''
میں نے جواب میں کہا '' تم جواب دو یا نا دو، میں تو اپنے ساتھی کے نعروں کے جواب کے ساتھ اسے الوداع کہوں گا کہ میں جس مقصد کے تحت یہاں ایڈمٹ ہوا ہوں وہ پورا کرکے رہوں گا'' جو لوگ جیل میں قید رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسپتال کے وارڈ بھی ایک بڑی بیرک کی طرح کے ہوتے ہیں اور وہاں سلاخوں پر جالی کا اضافی ہوتا ہے وگرنہ کوئی کھڑکی نہیں ہوتی، اسپتال سے چند فرلانگ پر وہ راہداری ہوتی ہے جہاں سے پھانسی کے سزا یافتہ قیدی کو تختہ دار تک پیدل چل کر جانا پڑتا ہے، اسپتال میں موجود شخص بآسانی قیدی کو راہداری پر چلتے ہوئے تختہ دار کے گیٹ تک جاتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔
رات کے دو بجے بیرکوں سے نعروں کی آوازیں آنا بند ہوگئیں، اب ساتھی طے شدہ پروگرام کے مطابق ناصر بلوچ کے نعروں کا انتظار کر رہے تھے کہ ناصر بلوچ جب ''جئے بھٹو'' کا نعرہ لگائے گا تو سارے ساتھی بیرکوں سے اس کے نعروں کا جواب دیں گے، فجر کے وقت ناصر بلوچ کو پھانسی وارڈ سے پھانسی گھاٹ لے جایا گیا، مگر جیل والوں نے راہداری کے بجائے فیکٹری کے اندرکا راستہ چنا۔
میں ٹکٹکی باندھے راہداری سے ناصر بلوچ کے گذرنے کا انتظار کر رہاتھا، اچانک راہداری سے دور جیل کی دیوارکے ساتھ دو سپاہیوں کو گیس لالٹین لے جاتے ہوئے دیکھا، سپاہی تھوڑا آگے بڑھے تو میں نے دیکھا کہ ناصر بلوچ کے ہاتھ پیچھے تھے، وہ بغیر کسی سہارے کے بڑے اعتماد کے ساتھ سینہ تان کر پھانسی گھاٹ جا رہا تھا جب کہ اس کے پیچھے دو سپاہی لالٹین لیے گردن جھکائے ساتھ چل رہے تھے، جب ناصر بلوچ بالکل میرے سامنے آیاتو میں نے پوری قوت سے نعرہ لگایا کہ '' ناصر بلوچ ہم تمہارے ساتھ ہیں''
میرے اس نعرے پر ناصر بلوچ رکے، انھوں نے اپنا رخ میری طرف کیا اور زور سے ''جئے بھٹو '' کا نعرہ لگایا، نعرہ سنتے ہی بیرکوں سے نعروں کی آوازیں گونجنے لگیں، ناصر بلوچ اور میرے نعرے پر جیل انتظامیہ الرٹ ہوگئی اور ناصر بلوچ کی پھانسی کے بعد جیل انتظامیہ نے اسپتال کا رخ کیا، میں جیل کھلنے کے انتظار میں دروازے سے لگا کھڑاتھا، جیسے ہی دروازہ کھلا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ قمر شاہ سے میرا سامنا ہوا،کہنے لگا '' نعرہ تم نے لگایا ہے'' میں نے کہا '' جی، ہاں! میں نے نعرہ لگایا ہے، اب میرا ساتھی تختہ دار پر جا رہا ہو توکیا میں نعرہ بھی نہ لگائوں؟''
''جانتے ہو تمہاری اس حرکت کا کیا انجام ہوگا'' میں نے کہا '' میرا فرض پورا ہوگیا اب آپ اپنا فرض ادا کریں'' جیل افسر نے سپاہیوں سے کہا کہ '' اسے وارڈ سے باہر نہ جانے دینا'' چونکہ شبیر شرکو میری منصوبہ بندی کا علم تھا سو وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مجھے لینے پہنچ گئے، ڈاکٹر نے ملنے کے بعد کہا کہ '' بس یہی کہنا کہ تم بیمار تھے'' بیرک پہنچ کر سب کو روداد بتائی جس پر پی پی کے صفی منشی نے صاد ق عمرانی سے کہا ''جوکام ہمیں کرنا چاہیے تھا وہ کامریڈوں نے کر دکھایا، جس پر صادق عمرانی مسکرا دیا۔
جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشل قتل کروایا تو حکومتی مشینری نے ظلم و جبرکی ایک نئی تاریخ رقم کی، ہر طرف پکڑ دھکڑ جاری تھی، اس دوران پیپلز پارٹی سمیت کمیونسٹ پارٹی کے سر کردہ رہنمائوں کو جھوٹے مقدمات میں قید کیا گیا، کمیونسٹوں پر ملکی غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا اور اس مقدمے میں قید کمیونسٹ رہنماؤں، بدر ابڑو، سہیل سانگی، جام ساقی، شبیر شر، جمال نقوی، نذیر عباسی، امر لال اور کمال وارثی کو ملک دشمن قرار دیا گیا۔
آمر ضیاالحق نے پوری کوشش کر لی کہ کمیونسٹ ملک چھوڑکر چلے جائیں، مگر آمر کسی بھی کمیونسٹ کو رعایت کا لالچ دے کر بھی ملک سے باہر نہ بھیج سکا، کراچی کے سینٹرل جیل میں کمیونسٹوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی قید تھے۔ جبر و تشدد اور جمہوریت پسندوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کا نشانہ بننے والے پیپلز پارٹی کے ناصر بلوچ کی پھانسی کے چشم دید گواہ کامریڈ کمال وارثی کے انکشافات پہلی مرتبہ سامنے لائے جا رہے ہیں۔
کمال وارثی ناصر بلوچ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تمام کمیونسٹ رہنمائوں کو 1984میں حیدرآباد جیل سے کراچی منتقل کیا گیا تو تمام کمیونسٹ ساتھی پیپلز پارٹی کے قید کیے گئے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھتے تھے۔ اسی دوران اطلاع ملی کہ پیپلز پارٹی کے ناصر بلوچ کے '' بلیک وارنٹ '' جاری ہو چکے ہیں۔ اس خبر نے سب سیاسی قیدیوں میں پریشانی کی لہر پیدا کردی۔
کمال وارثی کے بقول4 مارچ 1984 والے دن کی درمیانی شب میں نے کھولی میں موجود پیپلز پارٹی کے زاہد حسین اور اشفاق کلاچی سے کہا کہ سپاہی سے کہہ کر ڈاکٹر کو بلائیں کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، انھوں نے ڈاکٹر کو بلایا تو ڈاکٹر نے کھولی کی سلاخوں کے باہر ہی سے میری طبیعت پوچھی اور یہ کہہ کر چل دیا کہ سپاہی کے ہاتھ تمہیں دوا بھجواتا ہوں، دوا کھا لینا اور صبح اسپتال وارڈ میں مل لینا، میں نے صبح ہی ڈاکٹر کو اپنا حال احوال بتایا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب '' مجھے ایک رات کے لیے ایڈمٹ کر لیں'' ڈاکٹر نے مجھے ایڈمٹ کر لیا۔
میں ایڈمیشن کی پرچی لیے اپنے ساتھی شبیر شر کے پاس پہنچا اور اسے سارا ماجرا بتایا اور کہا کہ تمہیں تو پتہ ہے کہ ناصر بلوچ کے بلیک وارنٹ نکل چکے ہیں اور آج اس کا پھانسی گھاٹ میں دوستوں اور لواحقین سے ملاقات کا آخری دن ہے اور کل صبح اسے پھانسی دے دی جائے گی، میری مجبوری ہے کہ میں ناصر بلوچ سے اظہار یکجہتی کے لیے بیرک نمبر22 میں موجود تمام سیاسی قیدیوں کے ساتھ شامل نہ ہو سکوں گا اور مجھے پتہ ہے جیل کے تمام ساتھی میرے اس عمل سے نالاں ہوں گے، ذرا تم اسے سنبھال لینا۔
شام ہو چلی تھی، جیل میں ہو کا عالم تھا، ہر ساتھی افسردہ تھا، سپاہی بیرک کو تالا لگانے کے لیے تیار کھڑا تھا، میں اپنی کھولی سے اسپتال وارڈ جانے لگا تو مجھے اسپتال جاتے دیکھ کر ساتھی مجھ پر پھبتیاں کسنے لگے۔رات کے بارہ بج چکے تھے 5 مارچ کی تاریخ لگ چکی تھی، نعروں کی گونج میں تیزی آتی جا رہی تھی جب کہ شطرنج کا کھیل بھی جاری تھا، رات کے دو بجتے ہیں، وارڈ کا دروازہ کھلتا ہے، کمپوڈر اندر آتا ہے، میں کمپوڈر سے پوچھتا ہوں، اس وقت آپ یہاں؟
وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں روئی اور بینڈیج لینے آیا ہوں، وہ سامان لے کر وارڈ کو تالا لگا کر چلے جاتے ہیں، جب مجھے یقین ہو چلا کہ اب یہاں جیل انتظامیہ سے کوئی نہیں آئے گا تو میں نے وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ '' دیکھو اس راہداری سے ناصر بلوچ کو لے کر جائیں گے، ناصر بلوچ نعرہ لگائے گا اور ہم سب مل کر نعرے کا جواب دیں گے'' میرا یہ کہنا تھا کہ سب سکتے میں آگئے، اسلم ناتھا کھسیانہ ہوکر بولا کہ '' پھانسی کے قیدی کی جان پر بنی ہے وہ کیسے نعرے لگائے گا؟''
میں نے جواب میں کہا '' تم جواب دو یا نا دو، میں تو اپنے ساتھی کے نعروں کے جواب کے ساتھ اسے الوداع کہوں گا کہ میں جس مقصد کے تحت یہاں ایڈمٹ ہوا ہوں وہ پورا کرکے رہوں گا'' جو لوگ جیل میں قید رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسپتال کے وارڈ بھی ایک بڑی بیرک کی طرح کے ہوتے ہیں اور وہاں سلاخوں پر جالی کا اضافی ہوتا ہے وگرنہ کوئی کھڑکی نہیں ہوتی، اسپتال سے چند فرلانگ پر وہ راہداری ہوتی ہے جہاں سے پھانسی کے سزا یافتہ قیدی کو تختہ دار تک پیدل چل کر جانا پڑتا ہے، اسپتال میں موجود شخص بآسانی قیدی کو راہداری پر چلتے ہوئے تختہ دار کے گیٹ تک جاتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔
رات کے دو بجے بیرکوں سے نعروں کی آوازیں آنا بند ہوگئیں، اب ساتھی طے شدہ پروگرام کے مطابق ناصر بلوچ کے نعروں کا انتظار کر رہے تھے کہ ناصر بلوچ جب ''جئے بھٹو'' کا نعرہ لگائے گا تو سارے ساتھی بیرکوں سے اس کے نعروں کا جواب دیں گے، فجر کے وقت ناصر بلوچ کو پھانسی وارڈ سے پھانسی گھاٹ لے جایا گیا، مگر جیل والوں نے راہداری کے بجائے فیکٹری کے اندرکا راستہ چنا۔
میں ٹکٹکی باندھے راہداری سے ناصر بلوچ کے گذرنے کا انتظار کر رہاتھا، اچانک راہداری سے دور جیل کی دیوارکے ساتھ دو سپاہیوں کو گیس لالٹین لے جاتے ہوئے دیکھا، سپاہی تھوڑا آگے بڑھے تو میں نے دیکھا کہ ناصر بلوچ کے ہاتھ پیچھے تھے، وہ بغیر کسی سہارے کے بڑے اعتماد کے ساتھ سینہ تان کر پھانسی گھاٹ جا رہا تھا جب کہ اس کے پیچھے دو سپاہی لالٹین لیے گردن جھکائے ساتھ چل رہے تھے، جب ناصر بلوچ بالکل میرے سامنے آیاتو میں نے پوری قوت سے نعرہ لگایا کہ '' ناصر بلوچ ہم تمہارے ساتھ ہیں''
میرے اس نعرے پر ناصر بلوچ رکے، انھوں نے اپنا رخ میری طرف کیا اور زور سے ''جئے بھٹو '' کا نعرہ لگایا، نعرہ سنتے ہی بیرکوں سے نعروں کی آوازیں گونجنے لگیں، ناصر بلوچ اور میرے نعرے پر جیل انتظامیہ الرٹ ہوگئی اور ناصر بلوچ کی پھانسی کے بعد جیل انتظامیہ نے اسپتال کا رخ کیا، میں جیل کھلنے کے انتظار میں دروازے سے لگا کھڑاتھا، جیسے ہی دروازہ کھلا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ قمر شاہ سے میرا سامنا ہوا،کہنے لگا '' نعرہ تم نے لگایا ہے'' میں نے کہا '' جی، ہاں! میں نے نعرہ لگایا ہے، اب میرا ساتھی تختہ دار پر جا رہا ہو توکیا میں نعرہ بھی نہ لگائوں؟''
''جانتے ہو تمہاری اس حرکت کا کیا انجام ہوگا'' میں نے کہا '' میرا فرض پورا ہوگیا اب آپ اپنا فرض ادا کریں'' جیل افسر نے سپاہیوں سے کہا کہ '' اسے وارڈ سے باہر نہ جانے دینا'' چونکہ شبیر شرکو میری منصوبہ بندی کا علم تھا سو وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مجھے لینے پہنچ گئے، ڈاکٹر نے ملنے کے بعد کہا کہ '' بس یہی کہنا کہ تم بیمار تھے'' بیرک پہنچ کر سب کو روداد بتائی جس پر پی پی کے صفی منشی نے صاد ق عمرانی سے کہا ''جوکام ہمیں کرنا چاہیے تھا وہ کامریڈوں نے کر دکھایا، جس پر صادق عمرانی مسکرا دیا۔