سر اٹھا کر چلیں
آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ مسلمان اپنی اہمیت اور عزت کو گنوا بیٹھے ہیں، ہاتھ میں کشکول تھام لیا ہے
آج کے حالات کے تناظر میں ایک خط کی رونمائی جو انگلستان کے بادشاہ کا ہے، اس خط کی عمر 991 سال ہے یہ خط اس وقت کے شاہ انگلستان نے اندلس (اسپین) مسلمانوں کے خلیفہ ہشام ثالث کے نام لکھا تھا۔
شاہ انگلستان مسلمانوں کے خلیفہ سے درخواست گزار ہیں کہ برطانوی طالبات کو اندلس کی یونیورسٹیوں میں ایڈمیشن دیا جائے، خط عربی زبان میں ہے اور خط کے آخری الفاظ یہ ہیں '' آپ کا تابع دار جارج ثانی شاہ انگلستان'' یہ ان دنوں کی بات ہے جب مسلمانوں میں غیرت زندہ تھی اور انھوں نے جہاد کے ذریعے اپنی طاقت اور وقارکو منوا لیا تھا اور بے شمار سلطنتوں کو زیر نگیں کر لیا تھا۔
لیکن آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ مسلمان اپنی اہمیت اور عزت کو گنوا بیٹھے ہیں، ہاتھ میں کشکول تھام لیا ہے اور قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، ملکوں ملکوں بھیک مانگ رہے ہیں، انداز بیاں عاجزانہ ہے کہ جھکے چلے جاتے ہیں، ہر بات ماننے کے لیے تیار ہیں جو وہ کہیں من و عن تسلیم و رضا کا ثبوت دیتے ہیں چند سکوں اور ڈالروں کی خاطر جو آپ کی زندگی سے حاکمیت چھین کر محکوم بنا دیتا ہے۔
قرآن کی بے حرمتی پر مسلم دنیا سراپا احتجاج بن چکی ہے، اگر آپ مضبوط، توانا اور غیورکردار کی شکل میں سامنے آتے تو یہ حالات اور یہود و نصاریٰ کی ہمت ہرگز نہ ہوتی کہ وہ ہر دو چار سال بعد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح اور نعوذ باللہ قرآن پاک کی بے حرمتی کر کے مسلمانوں کو نیچا اور ان کی محکومیت و بزدلی کا پرچار کرتے اگر پہلی بار جب فلم بنائی گئی تھی خاکوں کی اشاعت ہوئی تب امت مسلمہ کو اپنی طاقت، اتحاد و اتفاق کو جہاد کی صورت میں عام کرنے کی ضرورت تھی اللہ کے نبیؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرما دیا تھا۔
'' میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قرآن اور دوسری میری سنت اگر تم نے ان کی پیروی کی تو تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے'' لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم نے محض مادی ضرورتوں کی خاطر قرآنی تعلیم کو فراموش کردیا ہے ہم جو نسلاً مسلمان ہیں، ہم زیادہ بھٹک گئے ہیں، ہمارے نام مسلمانوں والے ہیں اور کام وہ ہیں جن کی وجہ سے ہماری عزت، غیرت ختم ہو چکی ہے۔
غیر مسلم قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہیں اور دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں آج بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیات ببانگ دہل اسلام میں داخل ہو رہی ہیں۔ '' قرآن انسان کی زندگی بدل دیتا ہے دنیا کے ہر شخص کے لیے قرآن سراپا ہدایت ہے'' یہ بات بھارت کی مقبول موٹیویشنل اسپیکر مسز سریمالہ نے کہی اور جو اب اسلام قبول کر کے فاطمہ بن گئی ہیں، انھوں نے عمرہ ادا کیا اور مطالعہ قرآن کے بعد زندگی بدلنے کا اظہار کیا۔
جہاد اسی لیے فرض کیا گیا ہے تاکہ دشمن سے اپنا دفاع کیا جاسکے اور اپنی جانوں اور مال کا تحفظ کیا جاسکے۔ اسلام میں بے شمار جنگیں لڑی گئیں، جنگ بدر، فتح مکہ، جنگ احزاب وغیرہ جہاد کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے دشمن کو شکست سے دوچار کیا، معرکہ بدر اس کی عظیم مثال ہے، اہل مکہ نے رسول پاکؐ اور ان کے ساتھیوں کو طرح طرح کی اذیتیں دیں۔
مسلمانوں کے لیے بیت اللہ شریف کی زیارت، طواف اور ادائیگی حج پر بھی اپنی طاقت، زور، زبردستی کی بنا پر پابندی عائد کردی اسی دوران مدینہ منورہ کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمرہ کی نیت سے مکہ تشریف لے گئے تو ابو جہل جو اسلام اور رسول خداؐ کا بدترین دشمن تھا اس نے بد تمیزی کا بھر پور مظاہرہ کیا ماحول کشیدہ ہوگیا اور آخرکار حضرت سعد بن معاذؓ کو اعلان کرنا پڑا کہ اگر تم لوگوں نے عمرہ و حج پر پابندی لگائی تو ہم تمہارے تجارتی راستوں کو بند کردیں گے، اس قسم کی زیادتیوں کے بعد آج کفار سے بدلہ لینے کا وقت آگیا تھا۔
یہ ہجرت کا دوسرا سال اور ماہ رمضان تھا لشکر اسلام 313 نفوس پر مشتمل تھا جس میں جلیل القدر صحابہ کرام موجود تھے، یہ تمام اصحاب جان ومال، تن و من کی بازی لگانے کے لیے دل و جان سے تیار تھے انھیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی ہر شے سے عزیز تھی، دوسری طرف کفار مکہ ایک ہزار سے زیادہ کی تعداد میں مقابلے کے لیے تیار تھے ان کے ساتھ اونٹ، گھوڑے، تلواریں تھیں اور وہ نیزوں سے مسلح تھے یہ بڑی آزمائش کا موقع تھا جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو مسلمانوں نے دیکھا کہ ان کے بزرگ اور قلب وجگر کے ٹکڑے تلواروں کے سامنے ہیں لیکن اسلام کی محبت نے تمام رشتوں کو بھلا دیا، حضرت عمرؓ کی تلوار اپنے ماموں کے خون سے رنگین ہوئی، حضرت ابو بکرؓ کی تلوار اپنے لخت جگر عبدالرحمن کے مقابلے میں بے نیام ہوئی۔
اس جنگ میں مسلمانوں کو عظیم فتح حاصل ہوئی اسلام غالب آگیا اور کفار مکہ پسپا ہوئے، اسی طرح مسلمانوں نے بے شمار فتوحات حاصل کیں جن میں مصر کی فتوحات، شام کی فتوحات اور سب سے بڑی اور عظیم الشان فتح، فتح مکہ جس نے عالم اسلام کا نقشہ بدل دیا، جو کل کفار کی نظر میں مغلوب تھا اور وہ تمسخر اڑایا کرتے تھے آج آسمان پر چاند سورج کی مانند اپنی ضوفشانیوں سے پوری دنیا کو منور کر رہا تھا۔
اور اب عالم یہ ہے کہ غالباً56 اسلامی ممالک جن میں سے عرب سلطنتوں کو اللہ نے مال و دولت عزت و وقار سے سرفراز کیا اور دوسرے اسلامی ملک بھی ہیں جو ہر لحاظ سے پر وقار، غیور اور مال و دولت سے مالا مال ہیں۔
اسلام کی حقانیت کو اجاگر کرنے کا یہ مقصد ہے کہ آخر مسلمان خصوصاً پاکستان دوسری طاقتوں کے سامنے بے دست و پا ہونے کا اظہار بار بار کیوں کرتا ہے؟ اگر ارادے فولادی عزم صمیم اور ایمان کی روشنی سے دل منور ہے تو پھر جہاد کو بروئے کار لاتے ہوئے قومی غیرت، دینی حمیت اور اللہ کے احکام کی تعمیل کرکے ان لوگوں میں کیوں شامل نہیں ہوتے جو سرخرو ہوئے اور شہادت کا درجہ پایا۔
آج قتل و غارت عروج پر ہے ہزاروں نوجوانوں کو دن دہاڑے ڈاکوؤں نے موت کے گھاٹ اتار دیا، ہر روز ڈاکے ڈالے جاتے ہیں، گھروں کے چراغوں کو گل کردیا جاتا ہے، والدین کے دلوں پر بلا ناغہ برچھی ماری جاتی ہے صرف ہوس زر کے لیے قاتل بھی مظلوم اور مقتول بھی اجرتی قاتل ہر جگہ پھیل گئے ہیں ہر طرف بربادی ہے اسی خون ریزی قتل و غارت کے ماحول میں لوگ ''جیت'' کے نعرے لگاتے ہیں، انھیں ہار پہنائے جاتے ہیں اورکامیاب لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے منگولی دور پھر آگیا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوکوئی طاقتور ادارہ جہاد کا اعلان کر کے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرے تو یہ نوجوان جو بے موت مارے جاتے ہیں، وہ شہادت کے درجوں پر فائز ہوں، ان کے بوڑھے ماں باپ فخر سے کہہ سکیں کہ وہ شہید کے ماں باپ ہیں۔ پوری دنیا میں ان کی شجاعت کا ڈنکا بجے، ایک موقع پر سابق صدر جنرل (ر) ضیا الحق نے انڈیا کے ایئر پورٹ پر راجیو گاندھی سے سنگین حالات میں کہا تھا کہ آپ کا ایک ملک ہے اگر تباہ ہو جاتا ہے تو آپ خالی ہاتھ رہ جائیں گے اور اگر پاکستان کو کچھ ہوتا ہے تو پچاس پچپن ملک اور بھی ہیں جن سے اسلام کی آن بان اور شان ہے۔
جہاد کے ذریعے آپ کو طاقت اور نصرت حاصل ہوگی پھر آپ اپنا کشکول خود توڑ دیں گے، آئی ایم ایف سے نجات پائیں گے، آپ کا جھکا ہوا سر بلند ہو جائے گا،کیا آپ ایسا کریں گے؟
شاہ انگلستان مسلمانوں کے خلیفہ سے درخواست گزار ہیں کہ برطانوی طالبات کو اندلس کی یونیورسٹیوں میں ایڈمیشن دیا جائے، خط عربی زبان میں ہے اور خط کے آخری الفاظ یہ ہیں '' آپ کا تابع دار جارج ثانی شاہ انگلستان'' یہ ان دنوں کی بات ہے جب مسلمانوں میں غیرت زندہ تھی اور انھوں نے جہاد کے ذریعے اپنی طاقت اور وقارکو منوا لیا تھا اور بے شمار سلطنتوں کو زیر نگیں کر لیا تھا۔
لیکن آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ مسلمان اپنی اہمیت اور عزت کو گنوا بیٹھے ہیں، ہاتھ میں کشکول تھام لیا ہے اور قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، ملکوں ملکوں بھیک مانگ رہے ہیں، انداز بیاں عاجزانہ ہے کہ جھکے چلے جاتے ہیں، ہر بات ماننے کے لیے تیار ہیں جو وہ کہیں من و عن تسلیم و رضا کا ثبوت دیتے ہیں چند سکوں اور ڈالروں کی خاطر جو آپ کی زندگی سے حاکمیت چھین کر محکوم بنا دیتا ہے۔
قرآن کی بے حرمتی پر مسلم دنیا سراپا احتجاج بن چکی ہے، اگر آپ مضبوط، توانا اور غیورکردار کی شکل میں سامنے آتے تو یہ حالات اور یہود و نصاریٰ کی ہمت ہرگز نہ ہوتی کہ وہ ہر دو چار سال بعد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح اور نعوذ باللہ قرآن پاک کی بے حرمتی کر کے مسلمانوں کو نیچا اور ان کی محکومیت و بزدلی کا پرچار کرتے اگر پہلی بار جب فلم بنائی گئی تھی خاکوں کی اشاعت ہوئی تب امت مسلمہ کو اپنی طاقت، اتحاد و اتفاق کو جہاد کی صورت میں عام کرنے کی ضرورت تھی اللہ کے نبیؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرما دیا تھا۔
'' میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قرآن اور دوسری میری سنت اگر تم نے ان کی پیروی کی تو تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے'' لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم نے محض مادی ضرورتوں کی خاطر قرآنی تعلیم کو فراموش کردیا ہے ہم جو نسلاً مسلمان ہیں، ہم زیادہ بھٹک گئے ہیں، ہمارے نام مسلمانوں والے ہیں اور کام وہ ہیں جن کی وجہ سے ہماری عزت، غیرت ختم ہو چکی ہے۔
غیر مسلم قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہیں اور دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں آج بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیات ببانگ دہل اسلام میں داخل ہو رہی ہیں۔ '' قرآن انسان کی زندگی بدل دیتا ہے دنیا کے ہر شخص کے لیے قرآن سراپا ہدایت ہے'' یہ بات بھارت کی مقبول موٹیویشنل اسپیکر مسز سریمالہ نے کہی اور جو اب اسلام قبول کر کے فاطمہ بن گئی ہیں، انھوں نے عمرہ ادا کیا اور مطالعہ قرآن کے بعد زندگی بدلنے کا اظہار کیا۔
جہاد اسی لیے فرض کیا گیا ہے تاکہ دشمن سے اپنا دفاع کیا جاسکے اور اپنی جانوں اور مال کا تحفظ کیا جاسکے۔ اسلام میں بے شمار جنگیں لڑی گئیں، جنگ بدر، فتح مکہ، جنگ احزاب وغیرہ جہاد کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے دشمن کو شکست سے دوچار کیا، معرکہ بدر اس کی عظیم مثال ہے، اہل مکہ نے رسول پاکؐ اور ان کے ساتھیوں کو طرح طرح کی اذیتیں دیں۔
مسلمانوں کے لیے بیت اللہ شریف کی زیارت، طواف اور ادائیگی حج پر بھی اپنی طاقت، زور، زبردستی کی بنا پر پابندی عائد کردی اسی دوران مدینہ منورہ کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمرہ کی نیت سے مکہ تشریف لے گئے تو ابو جہل جو اسلام اور رسول خداؐ کا بدترین دشمن تھا اس نے بد تمیزی کا بھر پور مظاہرہ کیا ماحول کشیدہ ہوگیا اور آخرکار حضرت سعد بن معاذؓ کو اعلان کرنا پڑا کہ اگر تم لوگوں نے عمرہ و حج پر پابندی لگائی تو ہم تمہارے تجارتی راستوں کو بند کردیں گے، اس قسم کی زیادتیوں کے بعد آج کفار سے بدلہ لینے کا وقت آگیا تھا۔
یہ ہجرت کا دوسرا سال اور ماہ رمضان تھا لشکر اسلام 313 نفوس پر مشتمل تھا جس میں جلیل القدر صحابہ کرام موجود تھے، یہ تمام اصحاب جان ومال، تن و من کی بازی لگانے کے لیے دل و جان سے تیار تھے انھیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی ہر شے سے عزیز تھی، دوسری طرف کفار مکہ ایک ہزار سے زیادہ کی تعداد میں مقابلے کے لیے تیار تھے ان کے ساتھ اونٹ، گھوڑے، تلواریں تھیں اور وہ نیزوں سے مسلح تھے یہ بڑی آزمائش کا موقع تھا جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو مسلمانوں نے دیکھا کہ ان کے بزرگ اور قلب وجگر کے ٹکڑے تلواروں کے سامنے ہیں لیکن اسلام کی محبت نے تمام رشتوں کو بھلا دیا، حضرت عمرؓ کی تلوار اپنے ماموں کے خون سے رنگین ہوئی، حضرت ابو بکرؓ کی تلوار اپنے لخت جگر عبدالرحمن کے مقابلے میں بے نیام ہوئی۔
اس جنگ میں مسلمانوں کو عظیم فتح حاصل ہوئی اسلام غالب آگیا اور کفار مکہ پسپا ہوئے، اسی طرح مسلمانوں نے بے شمار فتوحات حاصل کیں جن میں مصر کی فتوحات، شام کی فتوحات اور سب سے بڑی اور عظیم الشان فتح، فتح مکہ جس نے عالم اسلام کا نقشہ بدل دیا، جو کل کفار کی نظر میں مغلوب تھا اور وہ تمسخر اڑایا کرتے تھے آج آسمان پر چاند سورج کی مانند اپنی ضوفشانیوں سے پوری دنیا کو منور کر رہا تھا۔
اور اب عالم یہ ہے کہ غالباً56 اسلامی ممالک جن میں سے عرب سلطنتوں کو اللہ نے مال و دولت عزت و وقار سے سرفراز کیا اور دوسرے اسلامی ملک بھی ہیں جو ہر لحاظ سے پر وقار، غیور اور مال و دولت سے مالا مال ہیں۔
اسلام کی حقانیت کو اجاگر کرنے کا یہ مقصد ہے کہ آخر مسلمان خصوصاً پاکستان دوسری طاقتوں کے سامنے بے دست و پا ہونے کا اظہار بار بار کیوں کرتا ہے؟ اگر ارادے فولادی عزم صمیم اور ایمان کی روشنی سے دل منور ہے تو پھر جہاد کو بروئے کار لاتے ہوئے قومی غیرت، دینی حمیت اور اللہ کے احکام کی تعمیل کرکے ان لوگوں میں کیوں شامل نہیں ہوتے جو سرخرو ہوئے اور شہادت کا درجہ پایا۔
آج قتل و غارت عروج پر ہے ہزاروں نوجوانوں کو دن دہاڑے ڈاکوؤں نے موت کے گھاٹ اتار دیا، ہر روز ڈاکے ڈالے جاتے ہیں، گھروں کے چراغوں کو گل کردیا جاتا ہے، والدین کے دلوں پر بلا ناغہ برچھی ماری جاتی ہے صرف ہوس زر کے لیے قاتل بھی مظلوم اور مقتول بھی اجرتی قاتل ہر جگہ پھیل گئے ہیں ہر طرف بربادی ہے اسی خون ریزی قتل و غارت کے ماحول میں لوگ ''جیت'' کے نعرے لگاتے ہیں، انھیں ہار پہنائے جاتے ہیں اورکامیاب لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے منگولی دور پھر آگیا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوکوئی طاقتور ادارہ جہاد کا اعلان کر کے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرے تو یہ نوجوان جو بے موت مارے جاتے ہیں، وہ شہادت کے درجوں پر فائز ہوں، ان کے بوڑھے ماں باپ فخر سے کہہ سکیں کہ وہ شہید کے ماں باپ ہیں۔ پوری دنیا میں ان کی شجاعت کا ڈنکا بجے، ایک موقع پر سابق صدر جنرل (ر) ضیا الحق نے انڈیا کے ایئر پورٹ پر راجیو گاندھی سے سنگین حالات میں کہا تھا کہ آپ کا ایک ملک ہے اگر تباہ ہو جاتا ہے تو آپ خالی ہاتھ رہ جائیں گے اور اگر پاکستان کو کچھ ہوتا ہے تو پچاس پچپن ملک اور بھی ہیں جن سے اسلام کی آن بان اور شان ہے۔
جہاد کے ذریعے آپ کو طاقت اور نصرت حاصل ہوگی پھر آپ اپنا کشکول خود توڑ دیں گے، آئی ایم ایف سے نجات پائیں گے، آپ کا جھکا ہوا سر بلند ہو جائے گا،کیا آپ ایسا کریں گے؟