پاکستان قازقستان رشتے

پاکستان اور قزاقستان کی کہانی ہتھیار کے بعد پیٹ کی غذا سے روح کی غذا کے مشترکات تک پہنچ کر ختم نہیں ہو جاتی


[email protected]

تھوڑا سفر میں نے گاڑی میں کیا اور کچھ پیدل ۔ میں مرکزی شاہراہ سے نیچے اتر گیا۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ ''آستانہ'' شہر کے بیچوں بیچ سے ایک دریا گزرتا ہے، ہوسکے تو اس کے کنارے چہل قدمی کرنا۔ اس یاد کا تعلق ایک ملاقات سے ہے۔ چند روز ہوتے ہیں، عزیز بہن عفت رؤف کی معیت میں قازقستان کے سفیر یرزہان کستافین (Yerzhan Kistafin) سے ملاقات ہوئی۔

انھوں نے انکشاف کیا کہ کچھ دن ہوتے ہیں کہ ہمارے صدر قاسم جمعرات توکائیو ( Kassym Jomart Tokayev) نے وزیر اعظم شہباز شریف کو فون کیا ہے اور بہت پر جوش اور پرخلوص گفتگو رہی ہے۔ اس خبر کی سرشاری ابھی باقی تھی کہ وزارت خارجہ پاکستان کا وفد برادرم سید احسن رضا شاہ کی قیادت میں آستانہ روانہ ہوا ہے۔ گویا صدر قاسم جمعرات کے ٹیلی فون کا فالو اپ شروع ہو گیا ہے۔

قازقستان کے ذکر نے تو گویا یادوں کے دریچے کھول دیے اور دورہ قزاقستان کی یادیں بھی تازہ ہوئیں۔صدر مملکت کے وفد کے رکن کی حیثیت سے آوارہ خرامی تو ممکن نہیں ہوتی لیکن ایک سہ پہر ایسا ہو گیا۔

بالائی قزاقستان سے یخ ہوا نے دریائے ایشم کے پانیوں کو چھونے کے بعد میرے چہرے کا بوسہ لیا تو جسم و جان میں سرد لہر دوڑ گئی۔ ستمبر کے دوسرے ہفتے کا موسم شہر والوں کے نزدیک ممکن ہے کہ سرد نہ کہلاتا ہو لیکن میرے جیسے میدانی ملک کے باسی کے لیے یہ سردی سے بھی کچھ بڑھ کر تھا۔ خیر، میں نے خاموشی سے دریا کے پہلو بہ پہلو چہل قدمی کی، پھر ایک خوبصورت بینچ کی گود میں بیٹھ کر سوچا، اس دیس کو میں نے کیسے جانا اور کب؟

یہ پرانی بات ہے، ابا جی نے مجھے ایک کتاب لا کر دی، 'خلت قزاق کے کارنامے'۔ اپنے والد سے میں نے ہر کتاب ہمیشہ خوشی کے ساتھ وصول کی لیکن یہ پہلی بار تھی جب میں نگاہیں جھکاکر سوال کیا کہ ابا جی! کیا اب مجھے ''قزاقوں'' کے کارنامے بھی پڑھنا پڑھیں گے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب اخبار رسالوں میں بحری قزاقوں کی لوٹ مار کی خبریں شایع ہوا کرتیں۔ میں نے کچھ کہانیاں بھی پڑھی تھیں جن کی ایک آنکھ پر کالی پٹی بندھی ہوتی۔ ابا جی مرحوم میری الجھن سمجھ گئے اور ہنستے ہوئے کہا کہ عقل مند!یہ قزاق اخبار کی خبروں والا نہیں۔ یہ ایک قوم کا نام ہے جس کے خون اور زبان کے رشتے پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔

یہ مرحوم سوویت یونین کے زمانے کی بات ہے جب میں خلت قازاق کے توسط سے قازاق قوم سے متعارف ہوا۔ کچھ بڑے ہونے پر ہیرالڈ لیم کو پڑھنے کا موقع ملا جس نے بتایا کہ اس سورما یعنی خلت قازاق کے کارناموں کا میدان یوکرین سے لے کر یہ ہمارے جہلم تک پھیلا ہوا تھا۔

قازقستان سے یہ تھا میرا پہلا تعارف۔ 2017 میں او آئی سی کی سائنس اور ٹیکنالوجی سربراہی کانفرنس کی رعایت سے دوسرا تعارف ہوا۔ اس کے بعد عفت رؤف مل گئیں جو نہ صرف خود بلکہ ان کے شوہر ڈاکٹر رؤف امیر مرحوم بھی اس ملک کے عاشق زار تھے۔ مرحوم ڈاکٹر صاحب کی کتاب ' شاہراہ ریشم کی جان' تو یوں سمجھ لیجیے کہ اس ملک کا انسائیکلوپیڈیا پیڈیا ہے۔

خلت قازاق جیسے سورما کے کارنامے اپنی جگہ، اس ملک میں میری دلچسپی کی وجہ وہی تھی جس کی نشان دہی میرے والد مرحوم نے کی تھی، بعد میں جناب باسط شاہ نے مزید تفصیلات سے آگاہ کیا۔ باسط شاہ کئی برس تک الماتی میں ہمارے کمرشل اتاشی رہے ہیں۔

ہمارے پنجاب کے بعض پہاڑی یا میدانی علاقے ہوں یا خیبر پختونخوا کی وادیاں، ان میں بسنے والے لوگوں کے آبا اجداد کی ایک بڑی تعداد قازاق نسل سے تعلق رکھتی ہے یا ان کے رشتے اس دیس سے جڑے ہوئے ہیں کہ بہت سے معلوم اور بہت سے نامعلوم زمانوں میں یہ لوگ قازقستان سے ہجرت کر کے ان میدانوں اور وادیوں میں پہنچے جب ہمارے یہ بزرگ قازقستان کی وادیوں اور میدانوں سے نکل کر یہاں پہنچے تو ان کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی یہاں آئیں۔ اب اگر اسے شدت پسندی نہ سمجھا جائے تو ہمیں خلت قازاق کی خمیدہ اور پتلی تلوار کو ضرور یاد رکھنا چاہیے جو کبھی برصغیر میں مسلمانوں کے لیے مخصوص ہوئی۔ ہمارے اقبالؒ نے کہا تھا ؎

خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا

کچھ عجب نہیں کہ حالت زوال میں عظمت رفتہ کے خواب دیکھنے والے ہمارے اقبال نے ہلالی خنجر کی ترکیب اسی خلت قازاق کی تلوار سے متاثر ہو کر تراشی ہو۔

خلت قزاق کے ساتھ یہی ایک تلوار تو ہمارے یہاں نہیں پہنچی، 'بہ ورسک'بھی پہنچی۔ یہ جو ہمارے خیبر پختونخوا میں آج بھی آٹے کے پیڑے میں قیمہ گوندھ کر روٹی بنائی جاتی ہے، بہ ورسک نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ قیمے والا نان سمجھ لیجیے۔ بہ ورسک کا ذائقہ مجھے نہیں بھولتا۔ خاتون اول محترمہ محمودہ ممنون اور برادرم عدنان ممنون کے ساتھ ہم خان شتائر سے نکلے تو دوپہر ڈھلنے کو تھی۔

سفیر صاحب کی بیگم ہمیں ایک ایسے ریسٹورنٹ میں لے گئیں جس میں دریائے ایشم سے آنے والے پانی کے چھوٹے چھوٹے جھرنے بہتے تھے۔ مجھے ان جھرنوں کا ترنم اور بہ ورسک کا ذائقہ کبھی بھول نہ پایا، ہاں البتہ گھوڑے کے گوشت کے ساتھ نہ بن سکی جس کی ایک خوبصورت گول اور چھوٹی سی بوٹی میں نے منتخب کی لیکن وہ کوشش کے باوجود حلق سے نہ اتر سکی۔ اس روز میری سمجھ میں آیا کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں گوشت زیادہ بھون کر کیوں نہیں کھایا جاتا۔

تلوار سے شروع ہونے والی بات خورد و نوش تک جا پہنچی لیکن ابھی میرے دامن میں کچھ کہانیاں اور بھی ہیں۔ یہ اس دورے کی بات ہے کانفرنس کے بعد ثقافتی پروگرام میں موسیقی کی کچھ شناسا اور جانی پہچانی آوازیں کان میں پڑیں تو میں چونکا۔

باسط شاہ کہنے لگے کہ یہ دومبرا (Dombra) سے اٹھنے والی تانیں ہیں۔ یہ دومبرا کیا ہے، یہی ہمارا رباب تو ہے جس کی مدھر تانوں پر ہم پاکستانی جھوما کرتے ہیں۔ گویا قازقستان تا پاکستان براستہ افغانستان رباب کی عملداری ہے اور یہ مشترکہ ورثہ ہمارے جذبوں کو کچھ ایسی منفرد زبان دیتا ہے، کوئی صاحب ذوق جس کے سحر سے بچ نہیں پاتا۔

پاکستان اور قزاقستان کی کہانی ہتھیار کے بعد پیٹ کی غذا سے روح کی غذا کے مشترکات تک پہنچ کر ختم نہیں ہو جاتی۔ ان کے علاوہ تین چیزیں ایسی ہیں جو خاص طور پر ہم دو قوموں میں ہی ایک جیسی ہیں۔

اول، نوروز، دوم، شاہین پروری اور تیسرے ہجرت کرنے والے پرندے جو سائبریا سے چل کر قازقستان سے ہوتے ہوئے پاکستان پہنچ کر بسیرا کرتے ہیں بالکل ان قبائل کی طرح کبھی اس دیس سے نکلے اور پاکستان کی وادیوں اور میدانوں میں پہنچے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے قازاق دوست اگر ان کی ہجرت کا جشن مناتے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی اس میں شامل ہو جایا کریں۔ جشن نو روز اور عقاب پروری جیسے مشغلے میں بھی۔

وسط ایشیا کی زبانوں میں قازاق زبان ہی ہے جو اردو سے بہت قریب ہے۔ میں اردو الفاظ بولتا تو قازاق اپنی کہتے۔ اس کے باوجود بات سمجھ میں آ جاتی۔ میں سوچتا ہوں 'خلت قزاق کے کارنامے'کے بعد قازاق ادب کی شاید ہی کوئی کتاب اردو میں ترجمہ ہوئی ہو۔ وہاں اردو کے فروغ کے لیے مرحوم ڈاکٹر رؤف نے بنیاد تو رکھ ہی دی تھی پھر 2019 میں برادرم باسط شاہ کی کوششوں سے الفارابی سینٹر میں محمد علی جناح سینٹر بھی بن گیا جہاں اردو کے نغمے گونجتے ہیں، بہتر ہو کہ یہاں بھی قزاق زبان سکھانے کا کوئی انتظام کر دیا جائے۔ ایسا ہو جائے تو سچ یہ ہے کہ دونوں بھائی گلے مل کر یہ گلہ نہیں کر سکیں گے کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔

تو بات یہ ہے کہ رنگ، نسل اور زبان کے رشتے بڑے بامعنی اور گہرے ہوتے ہیں لیکن وہ پائیدار اسی صورت میں بنتے ہیں اگر ان کے اقتصادی سرگرمی بھی جڑ جائے۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور عزت مآب قاسم جمعرات کی اس سلسلے میں سنجیدگی تو سامنے آ ہی چکی ہے۔ اب پاکستانی وزارت خارجہ کے وفد کے دورے کے بعد تو یوں سمجھئے کہ ایک نئے خوب صورت دور کاآغاز ہو ہی چکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں