امن خطے کی ضرورت

جب ہم سب ایک ہو جائیں گے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جرات نہیں کر سکے گی


Editorial July 10, 2023
جب ہم سب ایک ہو جائیں گے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جرات نہیں کر سکے گی۔ فوٹو: فائل

''ہم جنوبی ایشیا کے خطے میں تناؤ نہیں چاہتے، نہ ہی جنگ لڑنے میں اپنے وسائل ضایع کرنا چاہتے ہیں، خطے میں پائیدار امن کے لیے ہمیں اپنے مسائل بشمول مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے نتھیا گلی میں سوئٹزرلینڈ کے وزیر خارجہ کے ساتھ قدرتی آفات سے نمٹنے میں تعاون کی مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ سوئٹزرلینڈ خطے میں امن و امان کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، ہم بے روزگاری، غربت کے خاتمہ اور تعلیم وآئی ٹی کی صنعت کی ترقی اورخواتین کو با اختیار بنانے کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبہ کو ترقی دینا چاہتے ہیں، ہم اپنے وسائل سے ملک کی ترقی کے خواہشمند ہیں۔

بلاشبہ امن صرف پاکستان کی ہی نہیں پورے خطے کی ضرورت ہے اور اسی جانب وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ پاکستان نے بین الاقوامی تنازعات کو عالمی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق طے کرنے پر ہمیشہ زور دیا ہے۔

دنیا میں جہاں ضرورت پڑی پاکستانی فوجی دستوں نے قیام امن کے لیے کردار ادا کیا لیکن یہ ناقابل تردید سچائی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیرکی وجہ سے صرف جنوبی ایشیا نہیں بلکہ عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں، جنھیں کم کرنے کے لیے امریکا سمیت کوئی بڑی ریاست سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کئی قراردادیں پچھلے 75 برس سے عمل درآمد کی منتظر ہیں۔

پاکستان نے اس خطہ میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے دس ہزار سے زائد فوجی جوانوں اور افسران سمیت اپنے لگ بھگ 90 ہزار سے زائد شہریوں کی جانیں قربان کیں اور مالی نقصانات کی صورت میں ہماری معیشت کو بھی اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔

پاکستان نے امن کی خاطر اور دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دیں اور آج اگر اس خطے میں کوئی قوت پائیدار امن کی ضمانت ہے، پھر بھی اس کے خلاف آج سازشوں میں ساتھ دیا جا رہا ہے اور پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی میں بھرپور معاونت جاری ہے۔

اس صورتحال میں یقیناً مستقل بنیادوں پر علاقائی امن و سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی جب کہ ہمیں اس وقت سی پیک کو آپریشنل کرنے اور ملکی معیشت کو اپنے پیروں پرکھڑا کرنے کے لیے امن و استحکام کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان جنوبی ایشیا کو اپنی علاقائی سیاست کا محور بنا کر بین الاقوامی کردار ادا کرتا رہا ہے، عالمی معاملات میں پاکستان کا کردار بڑھنے پر مغربی ایشیا اور وسط ایشیا تک رابطوں میں تیزی اور فعالیت دکھائی دینے لگی۔

اس ضمن میں صرف پاکستان کی خواہش کافی نہیں تھی بلکہ اس استعداد کی ضرورت تھی جو علاقائی سطح پر استحکام کے لیے بروئے کار آ سکتی۔ پاکستان نے کم وسائل کے باوجود بھر پور استعداد کا مظاہرہ کیا۔بین الاقوامی تعلقات کی جہتیں تبدیل ہوسکتی ہیں لیکن ان کی بنیاد ایک ہی رہتی ہے۔ باہمی احترام، بقائے باہمی اور امن کو اولیت دینے سے ریاستیں اورخطے ترقی کرتے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کا دوران خطاب یہ کہنا کہ '' ہم اپنے وسائل سے ملک کی ترقی کے خواہش مند ہیں'' قومی امنگوں کی ترجمانی کا اظہار ہے۔ اس وقت تمام دنیا سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ کی ترقی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور پاکستان میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں مہارت کے لیے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

کسی ترقی یافتہ ملک کی تو بات ہی کیا ہے ہم تو تعلیم کے معاملے میں اپنے آس پاس کے ممالک سے بھی بہت پیچھے ہیں ۔ پاکستان شرح خواندگی میں دنیا کے 194ممالک میں 180ویں نمبر پرکھڑا ہے۔

علم کے بغیر کسی شعبہ میں انسان ترقی و تعمیرکا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس تناظر میں معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے بھی اگر جدید علوم، جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق و معلومات نہ ہوں تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، اس لیے ہمیں ہر شعبے میں جدید علوم حاصل کرنا بہت ضروری ہے چاہے وہ نیچرل سائنس ہو، انجینئرنگ وٹیکنالوجی ہو، میڈیکل و ہیلتھ سائنس ہو، ایگریکلچرل سائنس ہو یا سوشل سائنس ہو۔

ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ہر اس جدید علم کے حصول کو یقینی بنانا چاہیے جس سے پاکستانی معیشت بہتر اور ترقی یافتہ ہو۔

مثال کے طور پر ہمیں ایگریکلچرل سائنس کی تعلیم اور ترویج پر انتہائی تیزی سے کام کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے ہاں اکثر کاشتکار اور کسان جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں، ایگریکلچرل سائنس کی جدید تعلیم سے نا صرف زیادہ پیداوار ہوگی جس سے غذائی قلت کا خطرہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کاشت کاروں کو زیادہ منافع حاصل ہوگا بلکہ اضافی زرعی پیداوار کو برآمد کر کے پاکستان کثیرزرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے، اگرچہ پاکستان میں کچھ زرعی یونیورسٹیاں ہیں مگر اس سے متوقع فوائد حاصل نہیں ہو پا رہے۔ زرعی سائنس کی جدیدتعلیم کی آگاہی کی وجہ سے ہم اپنی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوارکئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔

ہماری حکومت صرف ایک کام انجام دے سکے کہ وہ بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پائے تو یہ ترقی کا پہلا ستون ہے۔ تعلیم یا صحت پر چاہے ہم جتنے بھی وسائل خرچ کر لیں وہ تب تک ناکافی ہی رہیں گے جب تک ہم اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو نہیں پاتے۔

پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح بھارت اور بنگلا دیش سے دگنی جب کہ سری لنکا سے تین گنا زیادہ ہے، جب تک ہم آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو نہیں پاتے تب تک پاکستان یونہی غربت اور ناخواندگی کی زنجیروں میں جکڑا رہے گا، چونکہ ہماری آبادی میں سالانہ 50 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔

اس لیے جب تک کہ ہم اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں کریں گے تب تک ہمارے ملک میں خوراک کی قلت برقرار رہے گی۔

زرعی پیداوار میں اضافے سے کسانوں کی آمدنی بھی بڑھے گی اور یہ دیہی علاقوں میں غربت کم کرنے کا باعث بھی بنے گا۔ پاکستان ایک بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اس کی آبادی کی اکثریت کا گزر اوقات زیادہ تر زراعت سے ہی وابستہ ہے ہمارے نوجوان پڑھ لکھ کر سرکاری نوکریوں کو ترجیح دیتے ہیں اگر نوجوا ن جدید سائنسی بنیاد پر زراعت کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کریں تو اس سے نہ صرف ملکی پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ کسان بھی خوشحال ہوں گے۔

پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی 22 کروڑسے زائد ہے اور نوجوان آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے تعمیر و ترقی، یو این ڈی پی کے مطابق ملک میں مجموعی آبادی کا کل 64 فیصد حصہ 30برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جب کہ ان میں 29 فیصد آبادی 15 سے 29 برس کے نوجوانوں پرمشتمل ہے۔

نوجوانوں پر مشتمل اتنی بڑی آبادی رکھنے والے ملک میں 29فیصدنوجوان غیرتعلیم یافتہ ہیں جب کہ صرف چھ فیصد نوجوان 12 تعلیمی سال سے آگے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس بات سے تو انکار ممکن ہی نہیں کہ ملک میں تبدیلی نوجوان ہی لاسکتے ہیں، اس لیے اگر واقعی ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرانا چاہتے ہیں۔

اس کی خامیاں دور کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے وطن عزیز کے نوجوانوں کی سمت کا درست تعین کر کے ان کی مدد اور معاونت کریں۔ غربت اور محرومی کو ختم کرنے کا واحد طریقہ پاکستان کے تمام وسائل کواستعمال میں لانا ہوگا۔ آج کا سب سے اہم مسئلہ '' انرجی '' کا قحط ہے۔ بجلی کی ضرورت سے کم پیداوار کی وجہ سے ہمارا وطن تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔

بجلی کی پیداوار میں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ ایران ہمارا ہمسایہ اور برادر ملک ہے۔ ایران کے تعاون سے بلاشبہ ہم اپنے انرجی بحران پر قابو پا سکتے ہیں۔

ہمیں اپنے قومی مفاد کو سامنے رکھنا ہوگا۔ دنیا کے کسی اور ملک کو قطعی طور پر ہمارے اندرونی کاموں میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ ہمیں بیرونی دباؤ کو مسترد کرنا پڑے گا۔ ہم دنیا کی ایک آزاد قوم ہیں۔ ہمیں دنیا کی آزاد قوموں کی مانند اپنے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے اندر اتحاد و اتفاق کا شاندار مظاہرہ کرنا پڑے گا۔

جب ہم سب ایک ہو جائیں گے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جرات نہیں کر سکے گی۔ پاکستان میں انتخابات ہونے والے ہیں، ہمیں ان لوگوں کو ووٹ دینا ہوں گے جو جہالت اور غربت کو ختم کرنے کا عملی پروگرام رکھتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں