گرنا تو اسے کہتے ہیں

سیاسی رہنما ناراض ہو کر پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں مگر پی ٹی آئی میں رہنما زیادہ تر لائے گئے تھے

m_saeedarain@hotmail.com

سابق وزیر اعظم نے اقتدار سے محرومی اور 9 مئی کے بعد اپنی پارٹی چھوڑ کر ان سے علیحدہ ہو جانے والے اپنے بعض رہنماؤں سے متعلق کہا ہے کہ انھیں توقع نہیں تھی کہ کوئی اس حد تک گر سکتا ہے۔

یہ سابق وزیر اعظم جو جو منہ میں آجائے بے دھڑک اور سوچے سمجھے بغیر بول دینے میں مشہور ہیں، انھوں نے تو بول کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لی مگر ملک میں ایک اہم اور باقی ثانوی کردار ایسے بھی ہیں جو بولنا تو جانتے ہیں مگر مجبور ہیں اور سابق وزیر اعظم کو جواب نہیں دے رہے ۔

تحریک انصاف کیسیکریٹری جنرل اور اہم ترین وزیر خزانہ سمیت ایسے ایسے رہنما بھی پارٹی چھوڑ گئے ہیں جن کے متعلق تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا مگر 9 مئی کا سانحہ کیا ہوا پارٹی چھوڑنے والوں کی ایسی لائنیں لگی ہیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہیں اور سابق وزیر اعظم کے بااعتماد اور قریبی ساتھی جن میں اپنے چیئرمین کے سامنے بولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی، سانحہ 9 مئی نے ان کی زبانوں پر لگے تالے کھول دیے ہیں اور وہ ایسے ایسے انکشافات کر رہے ہیں کہ سر چکرانے لگتا ہے۔

سابق وزیر اعظم کہنے کو تو جمہوری وزیر اعظم تھے مگر جمہوریت ان کے قریب سے بھی نہیںگزری تھی اور انھوں نے پارٹی میں مکمل آمریت قائم کر رکھی تھی جن کے سامنے ان کے کسی اہم سے اہم رہنما کو بھی اختلاف کرنے کی جرأت نہ تھی۔ پارٹی چھوڑنے والوں میں واحدرہنما حامد خان ہی تھے۔

جنھیں سابق وزیر اعظم نے اپنی مشکل میں یاد کیا تو وہ فوراً حاضر ہوگئے جب کہ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی دور کے سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ ہی واحد خوش نصیب ہیں جن کے گھر سابق وزیر اعظم مطلب کی خاطر خود چل کر گئے مگر وہ اپنے پرانے ساتھی حامد خان کے گھر نہیں گئے تھے۔


پیپلز پارٹی کے فیصلوں سے اختلاف کر کے سابق وزیر اعظم کی حمایت کرنے والے چوہدری اعتزاز اور لطیف کھوسہ اب حامد خان سے بھی زیادہ اہم ہو چکے ہیں ، وہ پیپلز پارٹیکی مخالف پارٹی کے سابق وزیر اعظم کے ساتھ مل چکے ہیں اور اپنے اچھے مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔

یہ وہی سابق وزیر اعظم ہیں جنھوں نے اپنے اپوزیشن رہنماؤں کی تعاون کی ہر پیشکش ٹھکرائی تھی اور فخریہ بلکہ متکبرانہ طور پر کہا تھا کہ میں ان کے تعاون کی پیشکش مسترد کرتا ہوں اور ان کے ساتھ بیٹھنا تو کیا میں ان کے ساتھ ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں ہوں کیونکہ یہ سب چور، ڈاکو مجھ سے این آر او لینا چاہ رہے ہیں مگر میں انھیں این آر او نہیں دوں گا۔

سابق وزیر اعظم نے ثابت بھی کیا اور وہ کسی اہم اجلاس میں بھی نہیں بیٹھے جہاں اپوزیشن رہنمابھی سرکاری طور پر مدعو تھے۔ سابق وزیر اعظم نے قومی اسمبلی آنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ ان کی آمد پر اپوزیشن نے سلیکٹڈ سلیکٹڈ کے نعرے لگانے شروع کردیے تھے ۔

28 نومبر گزرنے کی دیر تھی کہ سابق وزیراعظم نے اقتدار سے محرومی کے ساڑھے 6 ماہ بعد ہی اپنے محسن سابق آرمی چیف پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیے ، وہ 28 نومبر سے قبل آرمی چیف پر تنقید بھی کرتے رہے اور ایوان صدر میں خوشامد کرکے ملتے بھی رہے کہ مجھے اقتدار دوبارہ دلا دو مگر وہ نہ مانے تو ان کے ریٹائر ہوتے ہی سابق وزیر اعظم خود اس قدر گر گئے کہ جس آرمی چیف کی وہ دن رات تعریفیں کرتے تھے، انھیں قابل نفرت و ملامت ٹھہرانے لگے اور اپنی حکومت کی ہر ناکامی، کرپشن میں ملوث اپوزیشن رہنماؤں کو بچانے سمیت ہر قسم کا الزام ان پر تھوپ دیا۔

سیاست میں احسان فراموشی نئی بات نہیں۔ سیاسی رہنما ناراض ہو کر پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں مگر پی ٹی آئی میں رہنما زیادہ تر لائے گئے تھے جنھیں 9 مئی نے واپسی کا راستہ دے دیا اور بعض نے اپنے سابق قائد سے متعلق حقائق کیا بیان کردیے کہ انھیں گرا ہوا قرار دے دیا اور سابق وزیر اعظم وہ سب کچھ بھول گئے جو احسانات ان پر انھیں اقتدار میں لانے کے لیے کیے گئے تھے، ماضی میں تو کوئی ایسی مثال بھی موجود نہیں ہے۔
Load Next Story