کیا یہ حقیقت نہیں ہے

ہماری سوچ قرضوں کے حصول سے باہر ہی نکل نہیں پاتی

mnoorani08@hotmail.com

بھارت جو 1947 میں ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا ،کیا وجہ ہے کہ وہ آج ہمارے مقابلے میں سیاسی اور معاشی و اقتصادی طور پر بہت مضبوط اور مستحکم ہے۔

32 سال پہلے اس نے دنیا کے مالیاتی اداروں سے قرضے لینا چھوڑ دیا، آج اس کے زرمبادلہ کے ذخائر اتنے زیادہ ہیں کہ جن سے ہمارا موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا ہے۔

ہم صرف ایک ارب ڈالر کے لیے IMFکے آگے گڑگڑا رہے ہیں اور وہ تقریبا 600 ارب ڈالرکے ذخائر کے ساتھ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا ایک روپیہ ہمارے ساڑھے تین روپے کے برابرہے۔

سیاسی طور پر دیکھا جائے تو وہاں ستر پچھتر سالوں میں ایک بار بھی مارشل لاء لگا نہ آمریت قائم ہوئی ۔ اس دیس کے باسی آج تک مارشل لاؤں کی پابندیوں اور سختیوں سے واقف ہی نہیں ہوئے۔

کیا وہاں کوئی کرپشن نہیں ہوتی ہے؟ پھر پاکستان میں کیوں کسی نے کرپشن اور احتساب کا نعرہ لگا کر سارا نظام ہی اتھل پتھل نہیں کر دیا۔ وہاں بڑے بڑے سرمایہ دار ملک میں کارخانے اور ملیں بھی لگا رہے ہیں اور ایسے سرمایہ داروں کی تعداد ایک دو یا بائیس خاندانوں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ سیکڑوں خاندانوں پر ہے مگرکسی نے اس کو ایشو بنا کر ملک کی ترقی کے راستے محدود اور مسدود نہیں کردیے، وہاں ایسے سرمایہ داروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ٹاٹا، برلا اور مکیش امبانی جیسے ہزاروں انوسٹر بلا خوف وخطر کارخانے لگا کر ملک کی ترقی کو چار چاند لگا رہے ہوتے ہیں اور کوئی انھیں ذلیل و رسوا نہیں کر رہا ہوتا ہے، جب کہ ہمارے یہاں اگرکوئی اپنی کوششوں سے فیکٹریوں کے جال بچھانا چاہے تو اسے اتنا تنگ اور پریشان کیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ ایسی ہمت دکھانے کی جرأت بھی نہیں کرتا۔

آج دنیا بدل چکی ہے ۔ قوموں کے درمیان اگرکوئی مقابلہ ہے تو وہ یہی معاشی و اقتصادی کے میدانوں میں کارکردگی دکھانے کا مقابلہ ہے۔ جہاں تک ایٹمی طاقت بن جانے کے اعزازکی بات ہے وہ ہم نے1998 میں حاصل کر لیا ہے۔ اب اس کے بعد ہمیں اقتصادی میدان میں جوہر دکھانے ہوںگے، جو ملک اقتصادی طور پر مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، دنیا اسے ہی عزت کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔


مانگنے والے اور قرض خواہ ملکوں کی کوئی بھی عزت نہیں کرتا۔ 2018 سے تو ہماری حالت اور بھی دگرگوں اور افسوس ناک ہوچکی ہے۔ ہر چند ماہ بعد ہم ریاض اور دبئی کو سلام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ وہاں کے حکمراں ہمیں دیکھتے ہی سمجھ لیتے ہیں کہ یہ اب ادھار تیل یا پیسہ مانگے گا۔

ایسی کون سے نعمت ہے جو ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ گندم ، چاول، گنا، کپاس ،پھل اور دودھ ،تھوڑی سے توجہ دی جائے تو اسی کے ذریعے ہم اتنا زرمبادلہ حاصل کرسکتے ہیں کہ اس کے بعد ہمیں کسی سے بھیک مانگنے کی حاجت باقی نہ رہے۔

اس کے علاوہ بلوچستان میں سینڈک اور ریکوڈک کے معدنی ذخائر ہماری قسمت بدلنے کی کافی ہیں۔ دنیا کے کسی ملک کے پاس اگر یہ سب کچھ ہوتا تو ، وہ کب کا معاشی و اقتصادی طور پر ایک طاقتور ملک بن چکا ہوتا۔

اگر سوچا جائے تو قومی خزانہ بڑھانے کے اور بھی بہت سے ذرایع موجود ہیں مگر ہماری سوچ قرضوں کے حصول سے باہر ہی نکل نہیں پاتی۔ اب بھی IMF سے جو معاہدہ سائن ہوا ہے اس کے لیے بھی ہم نے اپنا پورا ایک سال ضایع کردیا۔ قوم پر بے تحاشہ بوجھ ڈال کر بھی ہمیں کیا ریلیف ملا ہے محض نو ماہ کے لیے ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نکل پائے ہیں۔

اس کے بدلے قوم پر مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی گرانی کے جو پہاڑ توڑے گئے ہیں وہ ہماری تاریخ میں کبھی بھی نہیں توڑے گئے۔ اس کے بعد بھی حکومت کوئی اور طریقے نہیں سوچ رہی کہ کس طرح قوم کواپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے۔ ہمیں یہ بھی پتا نہیں ہے کہ آنے والا سال ہمارے لیے رحمت بن کر آئے گا یا زحمت بن کر ٹوٹے گا۔

گیس کے ذخائر کے بارے میں روزانہ قوم یہ سنتی رہی ہے کہ فلاں جگہ سے گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوگئے ہیں لیکن وہ گیس کہاں چلی جاتی ہے کسی کو پتا بھی نہیں چلتا۔ نئی حکومت ان تمام ناکامیوں کا ملبہ گزشتہ حکمرانوں کے سر تھوپ دیتی ہے،پھر خود اس سے زیادہ بربادی مچا کر رخصت ہوتی رہی ہے۔ اس لیے ہمیں کوئی اُمید نہیں ہے کہ اگلی حکومت کوئی بہترکارکردگی دکھائے گی۔ ہمیں تو یہ بھی پتا نہیں کہ اس کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کب تک خوشگوار رہتے ہیں۔

کسی بھی حکومت کو کارکردگی دکھانے کے لیے اسے آزادانہ موقعہ ضرور ملنا چاہیے۔ بنگلا دیش آج ہمارے مقابلے میں اقتصادی طور پر زیادہ مستحکم اور مضبوط ہوچکا ہے۔ ہمیں کم از کم اسی سے سبق حاصل کرکے اپنے یہاں بھی ایسا ہی سیاسی ماحول پیدا کرناچاہیے ، تبھی جاکے ہم بھی قوموں کی برادری میں ایک باعزت مقام حاصل کر پائیں گے۔
Load Next Story