بڑھتی ہوئی آبادی ہمارا ایک سنجیدہ قومی مسئلہ ہے جسے ہمارے ہاں ہمیشہ غیر سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور آبادی کی روک تھام یا کمی کےلیے ہم کوئی واضح قومی لائحہ عمل طے نہیں کرسکے۔ اگر ہیومن ریسورس یا آبادی ہنرمند، تعلیم یافتہ اور باشعور ہو تو یہ کسی بھی ملک کےلیے بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اگر صورتحال اس کے برعکس ہو تو پھر کسی بھی ملک کو بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی کثیر آبادی چونکہ غیر ہنرمند اور غیر تعلیم یافتہ ہے تو نعمت کے بجائے زحمت بنتی جارہی ہے۔
طبقاتی مفادات کی وجہ سے جس طرح ہمارے بہت سے دیگر قومی شعبے زوال کا شکار ہیں، اسی طرح بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے بارے میں بھی ہمارا رویہ مایوسی کی حد تک افسوسناک ہے۔ چین اور بہت سے دیگر ممالک نے آبادی کی روک تھام کےلیے سنجیدہ اقدامات کیے، جس کی وجہ سے آج ان ممالک کے وسائل اور آبادی میں توازن ہے۔
آبادی اور وسائل میں توازن بہت ضروری ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہمارے وسائل اور ترقیاتی منصوبے ہمیشہ پریشر میں رہتے ہیں۔ باوجود حکومتی اقدامات کے پاکستان میں تعلیم سمیت بہت سے دیگر شعبوں میں ترقی کی رفتار بہت سست ہے، جس کی بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اس وقت دنیا کا مجموعی لٹریسی ریٹ 86.81 فیصد ہے جس میں مردوں کی شرح خواندگی کا تناسب 90.1 اور عورتوں کی شرح خواندگی کا تناسب 83.3 فیصد ہے، جبکہ پاکستان میں ابھی تک شرح خواندگی 58.9 فیصد ہے، جس میں مردوں کا تناسب 69.29 فیصد اور خواتین کا تناسب 46.49 فیصد ہے۔ افریقہ کے غریب ترین اور جنگ کے شکار ملک روانڈا میں شرح خواندگی کا تناسب 76 فیصد ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں خواندگی کی شرح 78 فیصد اور سابقہ مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش میں شرح خواندگی 75 فیصد ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومتی سطح پر تعلیم کے فروغ کےلیے ناکافی اقدامات کیے گئے بلکہ شاید حکومتی اقدامات کو بڑھتی ہوئی آبادی نگل گئی ہے۔ یہی حال صحت اور دیگر سیکٹرز کا ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کا جن ہمارے تمام قومی وسائل کو نگل رہا ہے۔ اس وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ معاشی ترقی کے اعتبار سے ہمارا نمبر 43 ہے۔ اس وقت مجموعی طور پر دنیا کی کل آبادی 7 ارب اٹھاسی کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ترتیب کے لحاظ سے دنیا کے دس بڑے ملکوں کی آبادی میں چین کی آبادی سب سے زیادہ ایک ارب بیالیس کروڑ، انڈیا کی ایک ارب چالیس کروڑ، امریکا کی آبادی چونتیس کروڑ، انڈونیشیا کی آبادی اٹھائیس کروڑ، پاکستان کی بائیس کروڑ چار لاکھ پچیس ہزار دو سو چون، نائیجیریا کی اکیس کروڑ، براز یل کی بیس کروڑ، بنگلہ دیش کی سترہ کروڑ، روس کی پندرہ کروڑ اور میکسیکو کی تیرہ کروڑ اور جاپان کی ساڑھے بارہ کروڑ آبادی ہے۔ 2012-2021 کے دوران پاکستان کی آبادی میں شرح اضافہ 23.56 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ پاکستان کے آئین کے مطابق ہر دس سال بعد مردم شماری ضروری ہے جو تاخیر اور بعض اوقات تنازعات کا شکار بھی ہوجاتی ہے۔
ہمارے طبقاتی مفادات بھی آبادی کے پھیلاؤ کو روکنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، جن کی وجہ سے آبادی کو کنٹرول کرنے کی تمام سعی و کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔ بہت سی غلط مذہبی تشریحات بھی آبادی میں اضافے کا موجب ہیں، جیسے ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ''قیامت کے دن میری امت کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔'' اکثر افراد اس حدیث کو جواز بناکر اور اس کا ظاہری مطلب لے کر غیر شعوری یا شعوری طور پر آبادی میں اضافے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ اس وقت امت مسلمہ کو پڑھی لکھی اور ہنرمند آبادی کی ضرورت ہے نہ کہ جاہلوں کی فوج کی، جو ہمارے لیے امن عامہ سمیت دیگر سماجی مسائل پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس حدیث پر اجتہادی رائے دی جائے تو وہ یوں ہوگی کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ اہل اور قابل افراد کی آبادی امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والی ہوگی۔
دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے کے کئی طبقات بڑھتی ہوئی آبادی سے مستفید ہوتے ہیں اور چونکہ یہ طبقات بالادست ہیں اور حکومتی سطح پر اثرورسوخ رکھتے ہیں، لہٰذا اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ ہماری اشرافیہ اکیسویں صدی کی پوسٹ ماڈرن نہیں بلکہ پندرہویں صدی کی پری ماڈرن ازم والی سوچ رکھتی ہے۔ ان کا مقصد پاکستانیوں کو دنیا میں باعزت قوم بنانا نہیں بلکہ ایک ایسی قوم بنانا ہے جو ان کے اور ان کی اولاد کے کنٹرول میں رہے اور اس کےلیے آبادی کے ایک بڑے حصے کا جاہل رہنا ضروری ہے۔ کیونکہ پڑھے لکھے اور باشعور لوگ تو سوال کریں گے۔
آبادی کا زیادہ پریشر دیہی علاقوں میں ہوتا ہے جہاں جہالت کا زیادہ راج ہے۔ ہمارے سست الوجود اور کاہل جاگیرداروں اور زمینداروں کو اپنی زمینوں کےلیے سستی لیبر مہیا ہوتی ہے جسے وہ اپنی رعایا کہتے ہیں، لہٰذا وہ اپنی رعایا میں آبادی میں اضافے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ انھیں کام کاج کےلیے سستے داموں لیبر مہیا ہوتی رہے۔ اسی طرح صنعت کار اور سرمایہ دار بھی اپنی فیکٹری اور ملوں کےلیے سستی لیبر چاہتا ہے۔ سیاستدان بھی اپنے غیر تعلیم یافتہ ووٹروں کے ذریعے اقتدار میں آتا ہے، کیونکہ ایسے ووٹر ہی ہر بار ان کے جھوٹے وعدوں پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ سو وہ بھی بڑھتی ہوئی آبادی سے مستفید ہوتا ہے۔
حکومتیں اور افسر شاہی پٹواریوں، نمبرداروں اور تھانیداروں کے ذریعے عوام کو قابو میں رکھتی ہیں اور ان کا راج برقرار رہتا ہے، سو بڑھتی ہوئی آبادی ان کےلیے بھی ایک نعمت ہے۔ مذہبی طبقے کے مفادات بھی کثیر اور غیر تعلیم یافتہ آبادی سے وابستہ ہیں۔ جب ہماری ریاست کے اہم اسٹیک ہولڈرز ایک چیز سے مستفید ہورہے ہوں تو وہ اسے کیونکر مسئلہ سمجھیں گے؟ قومی مفادات سے زیادہ ذاتی اور طبقاتی مفادات عزیز ہوجائیں تو پھر قوم قوم نہیں رہتی، وہ ریوڑ بن جاتی ہے۔
ہمیں اپنے مسائل حل کرنے میں تبھی کامیابی ہوگی جب ہم ان کی بنیادی وجوہ کو سمجھیں گے۔ ہم قالین اور دری سے عارضی طور پر سوراخ بند کرکے اگر سمجھ لیں کہ مسئلہ حل ہوگیا تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ہمیں بہتر حکمت عملی سے کام لے کر سماجی مسائل کو جنم دینے والے تمام سوراخ بند کرنے پڑیں گے۔ ہمیں کرپشن، بیڈ گورننس اور سماجی ناانصافی کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی، ورنہ کثیر آبادی کی صورت میں ہمارے معاشرے میں بے روزگاروں اور جاہلوں کی فوج ہمارے لیے امن عامہ اور دیگر سماجی مسائل پیدا کرتی رہے گی۔
ہر بچے کا رزق خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن ہمیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کا بھی کہا گیا ہے۔ پاکستان کو اس وقت بے ہنگم آبادی کی نہیں بلکہ اچھے شہریوں کی ضرورت ہے جو اپنے ملک کو آگے لے جاسکیں، نہ کہ ہمارے وسائل پر بوجھ بن کر مسائل پیدا کرتے رہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔