لاہور میں نکاسی آب کے بروقت انتظامات کے دعوے اس سال بھی کھوکھلے ثابت ہوئے
لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں اربن فلڈنگ کے باعث کئی قیمتی جانوں اور املاک کا نقصان ہوا
مون سون بارشوں کی وجہ سے لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں اربن فلڈنگ کے باعث کئی قیمتی جانوں اور املاک کا نقصان ہوا ہے جبکہ حکومتی اداروں کی طرف سے نکاسی آب کے بروقت انتظامات کے دعوے اس سال بھی کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ڈرینوں اور برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے لاہور کے نشیبی علاقوں میں بارش کے دوران کئی کئی فٹ پانی جمع ہو جاتا ہے۔ اربن ڈویلپمنٹ کے ماہرین کے نزدیک سیوریج کے نالوں اور ڈرینوں کی مکمل صفائی نہ ہونے، ڈرینوں اور نالوں پر کی گئی تجاوزات اور کسی پلاننگ کے بغیر ہونے والی تعمیرات اربن فلڈنگ کی ایک بڑی وجہ ہے۔
پرونشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے پری مون سون بارشوں کا سیزن شروع ہونے سے قبل ہی واسا سمیت تمام متعلقہ محکمموں کو ہدایات جاری کی تھیں کہ رواں سیزن میں معمول سے زیادہ بارشوں کے باعث اربن فلڈنگ کا خدشہ ہے لہٰذا تمام محکمے الرٹ رہیں۔
پی ڈی ایم اے کی طرف سے لاہور، قصور، اوکاڑہ، کوہاٹ، پشاور، بنوں، کرک اور ڈی آئی خان کے نشیبی علاقوں میں اربن فلڈنگ کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ بارشوں کے باعث چھوٹے بڑے شہروں کے نشیبی علاقوں میں پانی کھڑا ہونا معمول ہے، کئی کئی فٹ پانی جمع ہونے سے گلی محلوں اور مرکزی شاہراہوں پر بھی شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پنجاب حکومت نے زیر زمین پانی جمع کر کے اسے پارکوں میں پودوں اور گھاس کے لیے استعمال کرنے کی حکمت عملی بنائی تھی۔ پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) اور واسا نے بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیے پہلا زیر زمین ٹینک باغ جناح لاہور میں بنایا تھا جس میں 14 لاکھ گیلن پانی جمع ہوسکتا ہے جبکہ ایسے مزید 4 ٹینک شہر کے مختلف علاقوں میں بنائے جانے تھے لیکن یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا۔
واسا حکام کے مطابق مون سون بارشوں کا سیزن شروع ہونے سے پہلے شہر کی تمام ڈرینوں اور نالوں کی صفائی کی گئی تھی لیکن شہریوں کا کہنا ہے یہ صفائی برائے نام ہوتی ہے۔ گلبرگ ایریا کی ایک ڈرین کے تھوڑے سے حصے کو صاف کیا گیا، ڈرین اور نالے میں اب بھی گوبر اور مٹی بھری ہے جس کی وجہ سے بہت کم پانی آتا ہے۔
ایک شہری ارشد خان نے بتایا ان کے گھر کے قریب جو ڈرین ہے واسا کے عملے نے یہاں تھوڑی سی صفائی کی، تصاویر بنائی اور چلے گئے تھے۔
لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں ٹاؤن پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ پر تحقیق کرنے والی پروفیسر نورین فاطمہ کا کہنا ہے کہ عام طور پر تیز بارش کے دوران جب نالوں اور گٹروں میں پانی، ان کی نمٹنے کی صلاحیت سے بہت زیادہ مقدار میں چلا جاتا ہے تو پھر اوورفلو ہوکر یہ پانی سڑکوں وار نشیبی علاقوں میں جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال سے پبلک انفراسٹرکچر بھی متاثر ہوتے ہیں۔
نورین فاطمہ کہتی ہیں کہ شہروں میں گنجائش سے زیادہ آبادی، نکاسی آب کے پرانے نظام اور شہروں میں بارش کے پانی کی زیر زمین نہ سمونے کی وجہ سے اربن فلڈنگ کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ واٹر ریچارجنگ یعنی بارش کا پانی زمین میں جذب کرنے کا نظام بنانے کی ضرورت ہے، اس سے نہ صرف اربن فلڈنگ کا خطرہ کم ہو جاتا ہے بلکہ زیر زمین پانی کی سطح میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
پروفیسر نورین فاطمہ کے مطابق دیہی علاقوں کی نسبت شہروں میں تیز اور معمول سے زیادہ بارشوں کے دوران زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے چونکہ شہروں میں سڑکیں پختہ ہوتی ہیں، گھروں کے صحن بھی پختہ بنائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے پانی زمین میں جذب نہیں ہوتا اور سیلابی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔
اس کی ایک مثال گزشتہ ماہ 26 جون کو لاہور میں ہونے والی بارش میں دیکھی گئی تھی جب کلمہ چوک انڈرپاس سمیت متعدد علاقوں میں پانی بھر آیا تھا جبکہ 5 جولائی کو ہونے والی بارش نے اسی طرح کے مسائل پیدا کیے۔ یہ گزشتہ 30 سال میں ہونے والی سب سے زیادہ بارش تھی۔
دوسری طرف واسا حکام کا کہنا کہ لاہور میں سیوریج کے پانی کی نکاسی کے لیے 5300 کلو میٹر طویل سیوریج لائنیں بچھی ہوئی ہیں۔ اتنی طویل سیوریج لائنوں کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کے لیے سات بڑے نالے بھی بہتے ہیں۔ کھلے ہونے کے باعث شہری ان ڈرینوں اور نالوں میں کوڑا کرکٹ پھینک دیتے ہیں جس کے باعث اِن کی ڈی سلٹنگ بھی مشکل ہوجاتی ہے۔
واسا کے سربراہ غفران احمد نے بتایا کہ تیز اور معمول سے زیادہ بارش کی وجہ سے کئی جگہوں پر پانی جمع ہوا لیکن بارش تھمنے کے چند گھنٹوں میں ہی تمام نشیبی علاقے کلیئر کر دیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سسٹم اپنی مکمل استعداد کے مطابق پر نکاسی آب کو ممکن بنا رہا ہے تاہم ہر کام میں بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔