سولر پینل امپورٹرز کی جانب سے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا انکشاف
سولر پینل امپورٹرز کے آڈٹ میں 69 ارب 50 کروڑ روپے کی اوور انوائسنگ سامنے آگئی، کسٹمز
سولر پینل درآمد کی آڑ میں اوور انوائسنگ کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا انکشاف ہوا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ پوسٹ کلئیرنس آڈٹ کسٹمز ساؤتھ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سولر پینل امپورٹرز کے آڈٹ کے دوران درآمدی سطح پر 69 ارب 50 کروڑ روپے مالیت کی اوور انوائسنگ سامنے آئی ہے، رپورٹ کے مطابق یہ خطرناک انکشاف کالے دھن کی ملک سے باہر منتقلی کی نشاندہی کرتا ہے جس سے غیر قانونی مالیاتی سرگرمیوں کے بارے میں خدشات بڑھتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اس فراڈ میں ملوث افراد کے خلاف مناسب کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) نے بھی ایف بی آر کے ساتھ معاملہ اٹھایا ہے، اس معاملے میں نیب کی شمولیت سے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور ملک کی معاشی سالمیت کے تحفظ میں مدد ملے گی۔
پی سی اے حکام نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے وفاقی وزارتوں سے بھی کہا ہے کہ وہ معروف سولر پینل درآمد کنندگان کی فہرست تیار کریں جنہیں منی لانڈرنگ اور اوور انوائسنگ کے خطرے کے بغیر سولر پینل درآمد کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے اور ایف بی آر کے آڈٹ نتائج اس سلسلے میں مناسب طور پر مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
پی سی اے آڈٹ رپورٹ کے مطابق 63 درآمد کنندگان نے 6,232 گڈز ڈیکلریشنز داخل کرکے مارکیٹ ویلیو سے کافی زیادہ قیمتوں پر سولر پینل درآمد کیے ہیں مزید برآں ان درآمدات کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کی ایک بڑی رقم غیر قانونی رقم ہونے کا شبہ ہے جو پاکستان سے باہر منتقل کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق درآمد کنندگان کی جانب سے سولر پینلز پر لاگو ڈیوٹی اور ٹیکس فری درآمدی نظام کا فائدہ اٹھایا گیا ہے، 39 درآمد کنندگان کے انکم ٹیکس گوشوارے معاملے میں مالیت حجم، ایکویٹی، واجبات اور درآمدی حجم کے درمیان بلند تفاوت کو ظاہر کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 39 درآمد کنندگان کا مالیاتی حجم 14.7 ارب روپے ہے جبکہ انہوں نے 201 ارب روپے مالیت کے سولر پینلز درآمد کیے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سولر پینل کے 44 درآمد کنندگان کے بینک کھاتوں کے لین دین کی جانچ پڑتال سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ 47 ارب روپے کی بھاری نقدی جمع ہے جو بینک کے مجموعی ڈپازٹس کا 24 فیصد ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 22 درآمد کنندگان کی بشمول امپورٹ ریمیٹنس 50 ملین روپے یا اس سے زائد ہے جو منتقل کیے گئے، درآمدکنندگان نے خصوصاً متحدہ عرب امارات اور سنگاپور میں 16.5 ارب روپے منتقل کیے جبکہ سولر پینلز کی متعلقہ درآمدات چین سے ہوئی تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمرشل بینکوں کے پاس مستعدی کا فقدان تھا اور انہوں نے غیر ملکی زرمبادلہ کے ضوابط اور SBP کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چینی برآمد کنندگان سے بغیر کسی این او سی کے تیسرے ممالک کو درآمدی ترسیلات کی منتقلی کی اجازت دی۔
ذرائع نے بتایا کہ ایف بی آر نے پی سی اے ساؤتھ ڈائریکٹوریٹ کو اوور انوائسنگ اور ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ (ٹی بی ایم ایل) کے جڑواں پہلوؤں کو جانچنے کے لیے سولر پینل درآمد کنندگان کا سیکٹر پر مبنی آڈٹ کرنے کا ٹاسک دیا تھا۔
ڈائریکٹر پی سی اے ساؤتھ شیراز احمد نے فوری طور پر سولر پینل سیکٹر کا آڈٹ کرنے کے لیے ایڈیشنل ڈائریکٹر غلام نبی کمبوہ، اے اوز عبدالغفار، حبان چوہدری اور ریحان اقبال پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی اور اس ٹیم نے انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں تفصیلی جانچ پڑتال کے بعد آڈٹ مشاہدات جاری کیے۔