مقامی حکومتوں کا نظام اور قومی سیاست
ہم عملاً اس بحران کا علاج تلاش کرنا چاہتے ہیں مگر روائتی اور فرسودہ طورطریقوں سے جو یقینی طور پر کچھ نہیں کرسکے گا
پاکستان کا سیاسی نظام اعلیٰ طرز حکمرانی یا بہتر گورننس کے محرومی کا شکار ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاسی نظام اور بالخصوص گورننس کے نظام پر تنقید کی جاتی ہے۔
عمومی طور پر دنیا کے تجربات کی روشنی میں خودمختار مقامی حکومتوں کے نظام کو سب سے زیادہ اہمیت اور فوقیت دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو مقامی سطح پر روزمرہ کے معاملات پر سماجی، سیاسی اور معاشی انصاف مل سکے۔ 18ویں ترمیم کے باوجود ہمارے صوبے بااختیار مقامی حکومتوں کے نظام سے محروم ہیں۔
آئین، سیاست، جمہوریت، قانون اور سیاسی اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر ہمارے حکمران مقامی حکومتوں کے نظام کو نظرانداز کرکے آج بھی ''عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت کے نظام'' کو اپنی ترجیحات کا حصہ بناتے ہیں۔ اس کا بڑا نتیجہ ملک میں بری حکمرانی کی صورت میں اوپر سے لے کر نچلی سطح تک سامنے آرہا ہے مگر ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے سابقہ غلطیوں کو بنیاد بنا کر ہی آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کنور محمد دلشاد پاکستان کے سیاسی، سماجی اور ریاستی اداروں سمیت حکومتی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن بھی رہ چکے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے باوجود ایک فعال زندگی گزاررہے ہیں۔ باقاعدگی سے اپنے اخباری کالم کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات کو بنیاد بنا کر کچھ کتابیں بھی لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان میں انتخابات کی تاریخ، انتخابات کی شفافیت اور الیکشں کمیشن سے جڑے تمام معاملات پر ان کی نہ صرف گہری نظر ہے بلکہ ان معاملات پر ان کی دسترس بھی خوب ہے۔ اسی کے ساتھ نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن کے سربراہ بھی ہیں جو جمہوریت اور انتخابات سمیت دیگر پالیسی سازی پر کام کرتا ہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کی حالیہ کتاب جو ہمیں موصول ہوئی وہ ''مقامی حکومتوں کا نظام اور قومی سیاست'' ہے۔
اس کتاب کو عکس پبلی کیشنز نے شایع کیا ہے۔ مقامی حکومتوں کی خودمختاری اور ان کی اہمیت وافادیت پر کنور محمد دلشار ہمیشہ نہ صرف توجہ دیتے ہیں بلکہ خو ب لکھتے اور بولتے بھی ہیں۔ اسی طرح اس موضوع کی افادیت کے پیش نظر وہ ملک میں پالیسی سازی پر ایڈوکیسی اور لابنگ کا فریضہ بھی خوب ادا کرتے ہیں۔
کنور محمد دلشاد کے بقول ''ہمارے جیسے معاشروں کے مسائل کی نوعیت ابتدائی نوعیت کی ہوتی ہے۔ دیہاتوں او رقصبات میں تو یہ مسائل خالصتاً مقامی سطح کے ہوتے ہیں اور ان کا حل بھی مقامی قیادت بہتر طریقے سے رکھتی ہے۔ مقامی سطح کے مسائل کے حل کے لیے گلی محلے کی قیادت الگ سے میدان عمل میں ہونی چاہیے، یہ ہی مقامی حکومت اور انتخابات کا بنیادی فلسفہ ہے۔'' اسی طرح وہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ
''جس ملک میں جمہوری وفاق کے حوالے سے مختلف مسائل زیربحث ہوں، وہاں مقامی حکومتوں کے حوالے سے دائرہ اختیار اور کنٹرول کا سوال انتہائی نازک صورتحال اختیار کر جاتا ہے اور ا س سے بھی زیادہ اہم مسئلہ وسائل کی تقسیم کا ہے کیونکہ وفاق میں مرکز اور اکائیوں کے لیے ریونیو مقامی سطح سے ہی پیدا کیا جاتا ہے۔ مقامی اور بالائی حکومتوں کے درمیان یہ مسئلہ ایسی وفاقی ملکیت میں، جہاں پہلے سے ہی مسائل موجود ہوں، اگر کوئی واضح اور متفقہ پالیسی اختیار نہ کی جائے تو اور بھی پیچیدگی اختیار کرلیتے ہیں۔''
کنور محمد دلشاد کا ایک نقطہ اہمیت رکھتا ہے اور اسے واقعی اس نظام کی مضبوطی کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب 2000 میں مقامی سطح کی حکمرانی یا مقامی حکومتوں کو حکمرانی کی تیسری سطح قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی تو وفاقی اکائیوں بالخصوص مختلف چھوٹی قومیتوں کی طرف سے شدید مخالفت کی گئی۔ کیونکہ پاکستان کے صوبہ جاتی نظام کو طویل عرصے سے تاریخی حیثیت اور شناخت حاصل رہی ہے جو کسی حد تک قومی وحدتوں کے قومی تشخص کی مظہر بھی ہے۔
اگر اس حیثیت میں کسی بھی طریقے سے تبدیلی آجائے تو نئے مسائل پیدا ہونے کا احتمال ہے جو مناسب نہیں۔ سیاسی قوتوں کو اندیشہ تھا کہ تاریخی ارتقاء کا یہ منطقی انجام ہو سکتا ہے کہ کسی نہ کسی وقت ضلعی سطح کی حکمرانی زیادہ خودمختاری ہی سیاسی برتری حاصل کر لے گی۔ پاک وہند کے کلچر میں تمام تر اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا ہی سیاسی کامیابی کا مظہر تسلیم کیا گیا ہے، اسی وجہ سے مقامی حکومتوں اور ذیلی اداروں کو خودمختار حیثیت میں کبھی مضبوط نہیں ہونے دیا گیا، سو، اس بحث کو ملتوی کرنا ہی سیاسی مصلحت تھی۔
ان کا یہ نقطہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے طاقت کے مراکز میں مضبوط اور مربوط یا خودمختار مقامی حکومتوں کا نظام قابل قبول نہیں اور اس کے مقابلے میں ہمیں لولی لنگڑی مقامی جمہوریت یا اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کے بجائے اختیارات کو زیادہ سے زیادہ اوپر کی سطح تک محدود یا کنٹرول کرنا ہی ہماری سیاسی اور ریاستی مجبوری بنا ہوا ہے، یہ ہمارا سیاسی المیہ بھی ہے۔
کنور محمد دلشاد کی یہ کتاب مستند بھی ہے اور شواہد کے ساتھ بلکہ تحقیقی انداز میں انھوں نے مقامی حکومتوں کی اہمیت اور حق میں اپنا مقدمہ پیش کیا ہے۔ جو لوگ بھی پاکستان میں سیاست، جمہوریت اور مقامی گورننس کے نظام اور تعلقات کو سمجھنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ کتاب ان کو بنیادی نوعیت کی معلومات، علم اور فہم سمیت عملی خاکہ پیش کرتا ہے۔ بدقسمتی سے 1973ء کے دستور کی شق 140-A جو مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام جن کو سیاسی، انتظامی اور مالی خودمختاری ہوگی، ہماری قومی یا ریاستی ترجیحات کا حصہ نہیں۔
سب سے زیادہ دکھ سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں بالخصوص وہ جماعتیں جو اقتدار کی سیاست میں رہیں ان کا مجموعی کردار مقامی حکومتوں کے نظام کے خلاف رہا۔ یہ تمام حکومتی حکمران صوبائی سطح پر اختیارات کو کنٹرو ل کرکے لوگوں کو ریلیف دینا چاہتے ہیں جو کھلا تضاد بھی ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک خاص منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے تحت ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو طاقت ور نہ بنایا جائے۔
کنور محمد دلشاد کی اس کتاب میں پاکستان کے تناظر میں مقامی حکومتوں کی تاریخ، مقامی انتخابات، الیکشن کمیشن کا کردار، سیاسی جماعتوں کا اپنا طرزعمل، چیئرمین یا میئر کے براہ راست انتخابات، وسائل کی منصفانہ تقسیم، سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کا کردار، مقامی حکومت اور مردم شماری، مقامی نظام اور موروثی سیاست، مقامی حکومت اور فیڈریشن سے جڑے مسائل پر سیرحاصل گفتگو شامل ہے۔
ہمارا بنیادی مسئلہ دنیا کے تجربات سے نہ سیکھنے کا ہے اور ہم سیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ دنیا نے اپنی حکمرانی کے بحران پر کیسے قابو پایا اور ایسے کون سے اقدامات اٹھائے جو مقامی حکومتوں کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی بااختیار بناتے ہیں۔ سیاسی ترجیحات میں عدم توازن اور اچھی حکمرانی کے لیے اٹھائے جانے والے غیرمعمولی معاملات سے پردہ پوشی یا نظرانداز کرنے کی پالیسی نے ہمیں حکمرانی کے سنگین بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
ہم عملاً اس بحران کا علاج تلاش کرنا چاہتے ہیں مگر روائتی اور فرسودہ طورطریقوں سے جو یقینی طور پر کچھ نہیں کرسکے گا، جب ہم مقامی حکومتوں کے نظام کے بارے میں کہتے ہیں کہ ملک حکمرانی کے بحران میں غیرمعمولی حالات سے گزر رہا ہے تو پھر اس نقطہ کو بھی اپنی ترجیح کا حصہ بنائیں کہ ہمیں ان حالات میں غیرمعمولی پالیسیاں، قانون سازی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر قومی اور صوبائی ارکان کی جانب سے اس نظام کی پس پردہ مخالفت اور ان مقامی حکومتوں کو فعال نہ کرنا یا ان کو کمزور کرنے کا نتیجہ ہمیں مزید نئے حکمرانی کے بحران سے دوچار کر رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری قومی بحث اسی نقطہ پر ہونی چاہیے کہ کیسے ہم مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیاد بنا کر اپنی حکمرانی کے نظام میں موجود مسائل و مشکلات کو حل یا کم کرسکتے ہیں۔ یہ ہی مقامی حکومتوں کا نظام ملک میں جمہوری نظام کی ساکھ کو بنانے، اسے مضبوط کرنے اور لوگوں میں اس نظام کے بارے میں اپنائیت یا جڑت کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا لیکن کیا ہمارے طاقتور طبقات ماضی کی غلطیوں سے باہر نکل کر کچھ نیا کرسکیں گے جو عوامی مفادات پر مبنی ہو، ایک بڑا سوال ہے اور اس پر سنجیدگی سے غور وفکر اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
اس کے لیے ہمیں مقامی حکومتوں کے نظام میں غیرمعمولی تبدیلیاں قانونی، سیاسی اور انتظامی بنیادوں پر لاکر ایک بڑے فریم ورک پر اتفاق کرنا ہوگا تاکہ ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام زیادہ موثر انداز میں اپنا رنگ دکھاسکے۔ یہ ہی علاج ہمیں اس ملک میں اچھی گورننس اور لوگوں کے مفادات کو تحفظ دینے میں اپنا کردار ادا کرسکے گا۔