لوڈ شیڈنگ مگر بل پھر بھی زیادہ
کے الیکٹرک نے صارفین کے لیے ہر علاقے میں جو کمپلین سینٹر بنا رکھے ہیں ان میں داخلہ آسان نہیں
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے کے الیکٹرک کو اوور بلنگ کی شکایت پر نوٹس جاری کردیے ہیں۔
دوسری خبر کے مطابق ہائی کورٹ نے صفورا کے رہائشی کی درخواست پر بجلی منقطع کرنے پر کے الیکٹرک سے بل کی تفصیلات طلب کر لیں۔ ہائی کورٹ کے حکم پر کے الیکٹرک نے رقم ایڈجسٹمنٹ کرنے کے بجائے بجلی کاٹ دی۔ کے الیکٹرک کے کسٹمر سینٹرز پر صارفین بجلی کا ہجوم معمول بنا ہوا ہے۔
صارفین کی لمبی لمبی لائنوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کم استعمال کرنے کے باوجود بلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور کمپلین سینٹروں پر موجود عملے کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ گھنٹوں کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ میںبجلی کم استعمال ہو رہی ہے تو بل کم کیوں نہیں ہو رہے؟
پہلے بجلی، گیس اور پانی ذریعہ تعیش نہیں بلکہ جینے کے لیے ضرورت اور عوام کی مجبوری ہے مگر ہر حکومت نے ان تینوں کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا اور یوٹیلیٹی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کو ریونیو جمع کرنے کے سینٹرز میں تبدیل کردیاہے یہی حال پٹرولیم مصنوعات کا ہے۔
پٹرولیم، بجلی و گیس فراہم کرنے والے سرکاری اداروں میں ہر حکومت نے ضرورت سے زیادہ عملہ مقرر کر رکھا ہے جن میں چھوٹے افسروں کی ماہانہ تنخواہیں لاکھوں روپے ہیں اور ان اداروں کا سارا بوجھ عوام برداشت کر رہے ہیں۔ ان اداروں کو نہ صرف کمرشل اور سیاسی بنا دیا گیا ہے اور آئے دن پٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور ان تینوں کے ذریعے ہر حکومت نے نرخ بڑھا کر عوام کا خون چوسا ہے اور عوام کو ریلیف نہیں دیا۔
ملک کا میڈیا بجلی و گیس کے بھاری بلوں سے متاثر ہونے والوں کی خبریں دے رہا ہے۔ وسائل رکھنے والے تو عدالتوں سے رجوع کرکے کچھ ریلیف بھی حاصل کر لیتے ہیں مگر جو لوگ عدلیہ سے رجوع کرنے کی سکت نہیں رکھتے وہ ان اداروں کے افسروں اور ملازمین کے رحم و کرم پر ہیں۔
عوام بجلی دیکھ بھال کر کم استعمال کر لیں مگر پھر بھی بل کم نہیں ہوتے۔جو لوگ عدلیہ سے رجوع کرتے ہیں وہاں ان اداروں کی وکالت کرنے والے مہنگے وکلا عوام کے بجائے ان اداروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں جس سے عدالتوں میں بھی وقت ضایع ہوتا ہے اور لوگوں کو فوری ریلیف نہیں ملتا اور لوگوں کو اپنے پیٹ کاٹ کر بھاری بل ادا کرنے پڑ رہے ہیں جس سے صارفین بجلی و گیس سخت پریشان ہیں۔
بجلی کے بلوں پر ایک سو، دو سو، تین سو یونٹوں تک کے الگ الگ چارجز درج ہوتے تھے۔ سو یونٹ، دو سو یونٹ اور تین سو سے سات سو یونٹ کے چارجز الگ الگ درج ہوتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہو رہا بلکہ اگر کسی صارف کے میٹر نے 253 یونٹ شو کیے ہیں تو ویری ایبل چارجز 5,601.42روپے اور مختلف رقوم شامل کرکے بل 7,508.50 روپے کا بھیجا جاتا ہے جس میں ٹی وی فیس تو صرف 35 روپے ہی ہے مگر اس بل سے قبل استعمال کی گئی بجلی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے علاوہ ایف سی اے چار ماہ کی رقم اور پی ایچ ایل کے ایڈیشنل چارجز 106.79 روپے الگ شامل ہیں۔
کے الیکٹرک نے صارفین کے لیے ہر علاقے میں جو کمپلین سینٹر بنا رکھے ہیں ان میں داخلہ آسان نہیں۔ بل لے جانا ضروری ہے جس کے بعد این آئی سی سے نام اور نمبر درج کرنے کے بعد موبائل نمبر لکھوا کر کارڈ ملے گا جس کے بعد ٹوکن مشین پر معلومات کے بعد ٹوکن جاری ہوگا یا وہیں سے لوٹا دیا جائے گا۔ شکایات زبانی سن کر ٹوکن ملے گا جس کا نمبر آنے پر کاؤنٹر پر بھی شنوائی نہیں ہوتی ٹال دیا جائے گا اور گھنٹوں کی خواری کے بعد صارف اپنا منہ لٹکا کر لوٹ جائے گا، زبانی شکایت رائیگاں جاتی ہے۔
دوسری خبر کے مطابق ہائی کورٹ نے صفورا کے رہائشی کی درخواست پر بجلی منقطع کرنے پر کے الیکٹرک سے بل کی تفصیلات طلب کر لیں۔ ہائی کورٹ کے حکم پر کے الیکٹرک نے رقم ایڈجسٹمنٹ کرنے کے بجائے بجلی کاٹ دی۔ کے الیکٹرک کے کسٹمر سینٹرز پر صارفین بجلی کا ہجوم معمول بنا ہوا ہے۔
صارفین کی لمبی لمبی لائنوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کم استعمال کرنے کے باوجود بلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور کمپلین سینٹروں پر موجود عملے کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ گھنٹوں کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ میںبجلی کم استعمال ہو رہی ہے تو بل کم کیوں نہیں ہو رہے؟
پہلے بجلی، گیس اور پانی ذریعہ تعیش نہیں بلکہ جینے کے لیے ضرورت اور عوام کی مجبوری ہے مگر ہر حکومت نے ان تینوں کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا اور یوٹیلیٹی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کو ریونیو جمع کرنے کے سینٹرز میں تبدیل کردیاہے یہی حال پٹرولیم مصنوعات کا ہے۔
پٹرولیم، بجلی و گیس فراہم کرنے والے سرکاری اداروں میں ہر حکومت نے ضرورت سے زیادہ عملہ مقرر کر رکھا ہے جن میں چھوٹے افسروں کی ماہانہ تنخواہیں لاکھوں روپے ہیں اور ان اداروں کا سارا بوجھ عوام برداشت کر رہے ہیں۔ ان اداروں کو نہ صرف کمرشل اور سیاسی بنا دیا گیا ہے اور آئے دن پٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور ان تینوں کے ذریعے ہر حکومت نے نرخ بڑھا کر عوام کا خون چوسا ہے اور عوام کو ریلیف نہیں دیا۔
ملک کا میڈیا بجلی و گیس کے بھاری بلوں سے متاثر ہونے والوں کی خبریں دے رہا ہے۔ وسائل رکھنے والے تو عدالتوں سے رجوع کرکے کچھ ریلیف بھی حاصل کر لیتے ہیں مگر جو لوگ عدلیہ سے رجوع کرنے کی سکت نہیں رکھتے وہ ان اداروں کے افسروں اور ملازمین کے رحم و کرم پر ہیں۔
عوام بجلی دیکھ بھال کر کم استعمال کر لیں مگر پھر بھی بل کم نہیں ہوتے۔جو لوگ عدلیہ سے رجوع کرتے ہیں وہاں ان اداروں کی وکالت کرنے والے مہنگے وکلا عوام کے بجائے ان اداروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں جس سے عدالتوں میں بھی وقت ضایع ہوتا ہے اور لوگوں کو فوری ریلیف نہیں ملتا اور لوگوں کو اپنے پیٹ کاٹ کر بھاری بل ادا کرنے پڑ رہے ہیں جس سے صارفین بجلی و گیس سخت پریشان ہیں۔
بجلی کے بلوں پر ایک سو، دو سو، تین سو یونٹوں تک کے الگ الگ چارجز درج ہوتے تھے۔ سو یونٹ، دو سو یونٹ اور تین سو سے سات سو یونٹ کے چارجز الگ الگ درج ہوتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہو رہا بلکہ اگر کسی صارف کے میٹر نے 253 یونٹ شو کیے ہیں تو ویری ایبل چارجز 5,601.42روپے اور مختلف رقوم شامل کرکے بل 7,508.50 روپے کا بھیجا جاتا ہے جس میں ٹی وی فیس تو صرف 35 روپے ہی ہے مگر اس بل سے قبل استعمال کی گئی بجلی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے علاوہ ایف سی اے چار ماہ کی رقم اور پی ایچ ایل کے ایڈیشنل چارجز 106.79 روپے الگ شامل ہیں۔
کے الیکٹرک نے صارفین کے لیے ہر علاقے میں جو کمپلین سینٹر بنا رکھے ہیں ان میں داخلہ آسان نہیں۔ بل لے جانا ضروری ہے جس کے بعد این آئی سی سے نام اور نمبر درج کرنے کے بعد موبائل نمبر لکھوا کر کارڈ ملے گا جس کے بعد ٹوکن مشین پر معلومات کے بعد ٹوکن جاری ہوگا یا وہیں سے لوٹا دیا جائے گا۔ شکایات زبانی سن کر ٹوکن ملے گا جس کا نمبر آنے پر کاؤنٹر پر بھی شنوائی نہیں ہوتی ٹال دیا جائے گا اور گھنٹوں کی خواری کے بعد صارف اپنا منہ لٹکا کر لوٹ جائے گا، زبانی شکایت رائیگاں جاتی ہے۔