پنجاب میں خواتین اوربچوں کیخلاف تشدد اوراغوا کے واقعات میں ہولناک اضافہ

جنوری تا اپریل 5551 خواتین کواغوا اور1111 کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 858 بچے بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنے، رپورٹ

فوٹو: فائل

سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی تحقیق کے مطابق پنجاب میں چار ماہ کے دوران خواتین اوربچوں پرتشددکے 12 ہزارسے زائد مقدمات درج ہوئے ہیں۔

ایکسپریس نیوزکوموصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق پنجاب میں خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کے مقدمات کی ایف آئی آرز میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، یکم جنوری تا 30 اپریل 2023 تک خواتین پر تشدد کے کل 10,365 کیسز پولیس کو رپورٹ ہوئے جبکہ اسی عرصے میں بچوں پر تشدد کے 1768 کیسز بھی رپورٹ ہوئے۔

سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کے مطابق رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی اصل تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ بہت سے لوگ سماجی بدنامی کے خوف اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے ایسے کیسز کی پولیس کو رپورٹ نہیں کرتے۔

جرائم کی مخصوص اقسام پر نظر ڈالیں تو ان چار مہینوں کے دوران پنجاب میں حیرت انگیز طور پر 5551 خواتین کو اغوا کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اوسطاً ہر ایک گھنٹے میں 2خواتین کو اغوا کیا گیا۔

لاہور میں خواتین کو اغوا کرنے کے 1427 کیسز سامنے آئے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چار میں سے ایک خاتون صوبائی دارالحکومت سے اغوا ہوئی۔ اس کے بعد سب سے زیادہ تعداد جسمانی حملوں (2818) کی دیکھی گئی، جہاں لاہور ایک بار پھر 504 واقعات کے ساتھ سب سے آگے رہا۔

اس کے بعد شیخوپورہ 262 اور فیصل آباد 225 کیسز کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبرپر رہے۔ اس کے علاوہ جنوری تا اپریل کے دوران ریپ کے 1111 اور انسانی اسمگلنگ کے 613 کیسز بھی رپورٹ ہوئے۔

لاہور میں ریپ کے 139 اور انسانی اسمگلنگ کے 210 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اس کے بعد فیصل آباد میں 117 سے زائد زیادتی کے واقعات رپورٹ کیے گئے۔

جنوری تا اپریل خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے 219 کیسز رپورٹ ہوئے، جہاں گوجرانوالہ 64 واقعات کے ساتھ سب سے زیادہ متاثرہ ضلع رہا۔ اس کے بعد لاہور میں خواتین پر گھریلو تشدد کے 38 واقعات رپورٹ ہوئے۔


صوبے میں اس عرصے کے دوران غیرت کے نام پر قتل کے 53 واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ ضلع رحیم یار خان میں غیرت کے نام پر قتل کے سب سے زیادہ 8 واقعات رپورٹ ہوئے۔

بچوں کے خلاف تشدد کے معاملے میں جنسی تشدد سب سے زیادہ عام تھا، جس کے کل 858 واقعات سامنے آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر روز تقریباً 7 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے سب سے زیادہ 82 کیسز فیصل آباد اوراس کے بعد لاہور میں 74 کیسز رپورٹ ہوئے۔ چار ماہ کے عرصے کے دوران 613 بچوں کو اغوا کیا گیا یعنی اوسطاً 5 بچے یومیہ اغوا ہوئے۔

بچوں کے اغوا کے 210 کیسز صرف لاہور میں رپورٹ کیے گئے۔ اغوا کے ساتھ ساتھ 221 بچے انسانی اسمگلنگ کا بھی شکار ہوئے، جن میں سے تقریباً ہرپانچواں کیس چنیوٹ (44) سے تھا۔ اس کے علاوہ 48 بچوں کو قتل بھی کیا گیا، چائلڈ لیبر کے 24 اور بچوں کی شادی کے 4 کیسز بھی رپورٹ ہوئے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ایس ڈی او سید کوثر عباس کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پنجاب پولیس خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کے مقدمات درج کرنے میں ایک قابل ذکر کام کر رہی ہے اور اسی وجہ سے رپورٹنگ میں تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

سید کوثر عباس کے مطابق یہ بات بھی قابل ستائش ہے کہ ایسے کیسز کا ایک جامع ڈیٹا بیس بھی رکھا جا رہا ہے۔ ان اعداد و شمار کو شائع کرنے کا مقصد خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کے حد سے زیادہ پھیلاؤ کی طرف عوام کی توجہ دلانا ہے۔

اس سال کے صرف پہلے چار مہینوں کے دوران 12,000 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں خواتین کے تحفظ کی انتہائی تشویشناک تصویر پیش کرتا ہے۔

سید کوثر عباس نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ڈیٹا پالیسی سازوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے لیے ایک حوالہ فراہم کر سکتا ہے تاکہ اس مسئلے کو روکنے کے لیے اپنی کوششوں کو ایک ہدفی نقطہ نظر کی طرف لے جا سکے۔
Load Next Story