زراعت میں خود کفالت کی منزل

کسی بھی حکومت نے زراعت ، کسان اور دیہی ترقی و خود مختاری کے لیے کوئی اقدام کیا ہی نہیں

کسی بھی حکومت نے زراعت ، کسان اور دیہی ترقی و خود مختاری کے لیے کوئی اقدام کیا ہی نہیں—فائل فوٹو

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''گرین پاکستان انیشی ایٹیو'' ملک کے لیے دوسرا بڑا سبز انقلاب ثابت ہوگا جو پاکستان کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھولے گا، اس ویژن کے تحت آیندہ چار، پانچ سال میں 30، 40 ارب ڈالر کی متوقع سرمایہ کاری کے ساتھ تقریباً 40 لوگوں کو روزگار ملے گا۔

سیمینار میں پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر بطور اعزازی مہمان شریک ہوئے۔ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ کوئی دنیاوی طاقت پاکستان کو ترقی سے روک نہیں سکتی، انھوں نے یقین دلایا کہ پاک فوج اسپیشل انویسمنٹ فسیلٹیشن کونسل کے تحت تمام حکومتی اقدامات جیسے '' گرین پاکستان انیشی ایٹیو'' میں پاکستانی قوم کی امنگوں پر پورا اترے گی۔

یہ نہایت اچھی پیش رفت ہے کہ حکومت اور پاک فوج سرمایہ کاری کونسل کے ذریعے زراعت میں جدید ٹیکنالوجی اور نگرانی کا نظام لا کر ملک میں زراعت کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

گرین پاکستان انیشی ایٹو کا فلیگ شپ پروجیکٹ شروع کر دیا گیا ہے اور دوسرے زرعی انقلاب کا آغاز ہونے کو ہے، اس پروگرام کے باعث ملک میں عوام کے لیے روزگار کے وسائل بھی پیدا ہوں گے۔

سعودی عرب، چائنہ، متحدہ عرب امارت، قطر اور بحرین کے ساتھ بہت سے منصوبوں میں شراکت داری کی جارہی ہے جس سے پاکستان کی برآمدات میں یقینی اضافہ ہوگا۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 36.9 فیصد پاکستانی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ان میں سے 18.3 فیصد کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ مروجہ غذائی عدم تحفظ کا ادراک رکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر غذائی قلت اور زرعی مصنوعات کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل، آبادی میں متوقع اضافے اور مستقبل کی گھریلو خوراک کی ضروریات کے پیش نظر قومی سیاسی، اقتصادی اور عسکری قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس نازک مسئلے سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن اور بامعنی اقدامات کیے جائیں۔

کسان جھلسانے والی گرمی، شدید حبس، بارش، طوفان اور دیگر زمینی اور آسمانی آفات کے ہوتے ہوئے بھی دن رات کی انتھک محنت سے شہروں میں بسنے والوں کے لیے اناج، پھل،پھول کاشت کرتا ہے ، گوشت اور دودھ کی ضروریات پورا کرنے کے لیے گائے ، بھینس ، بکریاں اور مرغیاں پالتا ہے لیکن اقتدار پر قابض شہری اشرافیہ نے کبھی زراعت کو ترقی دینے اور کاشتکار و کسان کو خوشحال بنانے کے لیے کام نہیں کیا۔

پاکستان کے کسان ہر سال ماحولیاتی تبدیلیوں، ناقص حکومتی پالیسیوں اور مہنگائی کے باعث پسماندگی اور غربت کا شکار ہیں۔ کھاد، زرعی ادویات و مشینری اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں، پاکستان میں زراعت منافع بخش نہیں رہی ہے ، اسی لیے زرعی ہنر مند طبقات اور چھوٹے کسان گاؤں چھوڑ کر بڑے شہروں میں آکر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

ایک ایسے ملک میں گندم باہر سے درآمد کی جاتی ہے جہاں کے کسان لائنوں میں لگ کر اپنی گندم فروخت کرتے ہیں اور کوئی خریدار نہیں ہوتا۔ ہر گزرتا دن محنتی اور جفاکش کسانوں کے لیے مایوسیاں اور نئی پریشانیاں لے کر طلوع ہوتا ہے۔

کسی بھی حکومت نے زراعت ، کسان اور دیہی ترقی و خود مختاری کے لیے کوئی اقدام کیا ہی نہیں، قرضوں کی نت نئی اسکیموں کے جال میں پھنسا کر ان کی ساری زندگی ذہنی اذیتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔

ہمارے کسان کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگے زرعی مداخل اور کیش لیکویڈٹی کا نہ ہونا ہے ، ان کو فصل کی بوائی اور کاشت کے لیے قرض لینا پڑتا ہے۔ اس قرض کو بروقت اتارنے کے لیے اسے اپنی فیصل اونے پونے نرخ پر بیچنی پڑ جاتی ہے۔

پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زراعت اور اس سے چلنے والی صنعتوں پر منحصر ہے۔ ملکی برآمدات کا نصف سے زائد انحصار ٹیکسٹائل مصنوعات پر ہے۔ زراعت کا شعبہ نہ صرف عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ مختلف شعبوں میں عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے اور صنعت و ملکی معیشت کی ترقی میں کردار ادا کرتا ہے۔


شہروں میں بیٹھے بڑے فیکٹری مالکان کے کاروبار اچھی فصلوں سے ہی ترقی کے منازل طے کر رہے ہوتے ہیں اور کسان دن رات محنت میں لگے رہتے ہیں۔

ان کسانوں کے دم سے لاکھوں لوگوں کو روٹی اور روزگار مل رہا ہوتا ہے جب کہ ان غریبوں کو آج تک نا تو اپنی فصلوں کا مارکیٹ میں صحیح معاوضہ ملا ہے اور نا ہی کسی قسم کا ریلیف۔ دنیا کا تن ڈھانپنے کا سامان کرنے والے کے اپنے بدن پر موزوں لباس بھی نہیں ہوتا۔ زراعت کے شعبہ کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ19 فیصد ہے اور یہ شعبہ مجموعی طور پر ملک کی39 فیصد آبادی کے روزگار کا انحصار براہ راست زراعت پر ہے۔

اس کے علاوہ ملک کی قریباً70 فیصد آبادی بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ زراعت سے منسلک ہے۔ اس وقت ملکی زراعت کو درپیش مسائل میں قابلِ کاشت رقبے کی کمی، موسمیاتی تبدیلیاں، پانی کی کمی اور دیہی آبادی کی شہروں کی طرف منتقل اور پیداواری لاگت میں اضافہ قابلِ ذکر ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ کامیاب اور منافع بخش کاشتکاری کے لیے زمین کی تیاری، منظور شدہ اقسام کا تصدیق شدہ بیج، آبپاشی، کھادوں کے متوازن استعمال، بیماریوں اور نقصان دہ کیڑوں کے حملہ کے کنٹرول سے لے کر فصل کی برداشت تک تمام مراحل میں رہنمائی درکار ہوتی ہے لیکن فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے لیے زمین اور پانی کی صحت اور معیار کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔

فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں کیمیائی کھادوں کے متوازن استعمال اور زمین کی زرخیزی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

زرعی ماہرین کے مطابق فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے عوامل میں کھادوں کا حصہ 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ ہمارے ملک میں مسلسل کاشتکاری کی وجہ سے زمین کی زرخیزی کم ہو رہی ہے اور کھادوں کی افادیت سے متعلق آگاہی کے فقدان اور بین الاقوامی منڈی میں ان کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہمارا کسان متوازن کھادوں کا استعمال نہیں کر پا رہا جس کی وجہ سے ہماری فصلوں کی اوسط پیداوار دنیا کے مقابلہ میں کم ہے۔

پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے زرعی زمینوں پر بنائی جانے والی رہائشی اسکیموں نے زرعی شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ زر خیز اور سر سبز علاقے جہاں کبھی کھیت اور درخت ہوتے تھے، اب رہائشی آبادیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر سال دیہی رقبہ خصوصاً زیر کاشت رقبہ کم ہورہا ہے اور شہری آبادی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

اس امر کو سمجھنا ہوگا کہ زرعی زمینوں کی قلت سے ملک میں اجناس کی کمی اور بے روز گاری میں اضافہ ہوتا ہے اور دیہات میں رہنے والے جن کا انحصار کھیتی باڑی پر ہوتا ہے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں جس سے صورتحال مزید گھمبیر ہو جاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خاتمے میں زراعت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

زرعی جنگلات اور تحفظ زراعت سمیت پائیدار کاشتکاری کے طریقے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرتے ہیں، کاربن کے اخراج کو فروغ دیتے ہیں، اور مٹی کے کٹاؤ کو کم کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ زراعت زرعی فضلہ کی مصنوعات سے حاصل ہونے والے بائیو ایندھن کے استعمال کے ذریعے قابل تجدید توانائی کی پیداوار میں حصہ ڈال سکتی ہے۔

ڈیمز اور آبی ذخائر میں اضافے اور زراعت کی ترقی سے ہم خود کفالت کی منزل جلد حاصل کر سکتے ہیں۔ فوڈ پروسیسنگ کے شعبے میں زرعی مصنوعات خام مال کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکسٹائل کی صنعت قدرتی ریشوں جیسے کپاس اور جوٹ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔

ان صنعتوں کی ترقی بدلے میں برآمدات اور آمدنی میں اضافے کے ذریعے قومی معیشت کو فروغ دیتی ہے۔ اگر بہتر زرعی پالیسیاں بنائی جائیں تو پاکستان میں سبز انقلاب بھی آ جائے گا، مویشیوں کی افزائش میں بھی اضافہ ہو گا اور ایگری بزنس بھی بڑھے گا، یوں پاکستان خوشحالی کی منزل کی جانب رواں دواں ہو جائے گا۔

زراعت کے شعبے میں جدید ریسرچ، مشینری، زرعی ٹیکنالوجی کے ساتھ قدرتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کم لاگت سے زیادہ پیداوار حاصل کرنا وقت کا تقاضا ہے تاکہ ملکی آبادی کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنا یا جا سکے۔
Load Next Story