نچلی سطح کے اختیار کا بلدیاتی نظام
کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے قانون مجریہ 2023 پر گورنر سندھ نے مہر ثبت کر دی
آخرکار کراچی کے میئر کو شہر میں پانی کی تقسیم کے ادارہ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کا چیئرمین بنا ہی دیا گیا۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے قانون مجریہ 2023 پر گورنر سندھ نے مہر ثبت کر دی۔ اس قانون کے تحت اب کراچی کے شہریوں کو پانی کی فراہمی کا ادارہ تجارتی بنیادوں پر کام کرے گا۔ یہ کارپوریشن پانی کو تجارتی بنیاد پر فروخت کرے گی۔
ذرایع کہتے ہیں کہ اب میئر کو کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی KDA کا بھی سربراہ مقرر کیا جارہا ہے۔ کے ڈی اے کا بنیادی فریضہ سڑکیں اور پل تعمیر کرنا اور مستقبل کی ٹاؤن پلاننگ کرنا ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلدیاتی امور سے متعلق دو اہم ترین اداروں کو منتخب قیادت کی نگرانی میں دے کر ایک انتہائی مثبت قدم اٹھایا مگر اس کے ساتھ ہی سابق میئر وسیم اختر نے اس الزام کی تصدیق کردی کہ میئر کے پاس اختیارات نہیں تھے مگر بلدیاتی اداروں میں نچلی سطح تک اختیارات کا معاملہ اب بھی گھمبیر نظر آتا ہے۔
اگرچہ نئے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے منحرف گروپ، مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام و تحریک لبیک کے اراکین بھی منتخب ہوئے ہیں۔
اس ترتیب سے پیپلز پارٹی کے پاس 13 ٹاؤنز ہیں، جماعت اسلامی کے پاس 9 اور تحریک انصاف کے پاس 3 ٹاؤنز ہیں۔ بلدیاتی ڈھانچہ کے تحت ٹاؤن کے ساتھ یونین کونسل ہیں جن میں مختلف جماعتوں کے کونسلر شامل ہیں۔
اس دفعہ خواتین، مزدوروں اور اقلیتوں کے ساتھ ٹرانس جینڈر کو بھی مختلف بلدیاتی درجوں میں نمایندگی دی گئی ہے۔ کونسلر کا تعلق براہ راست اپنے علاقہ کے لوگوں سے ہوتا ہے۔ یونین کونسل کا چیئرمین اور ٹاؤن کے چیئرمین اپنی اپنی حدود میں عوام سے رابطے رکھتے ہیں۔
تاریخی طور پر بلدیاتی نظام کا جائزہ لیا جائے تو ایک حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ پانی کی فراہمی، سیوریج کے مسائل، سڑکوں کی مرمت، صفائی سے متعلق مسائل کا براہِ راست تعلق کونسلر اور یونین کونسل سے ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے شہر کی ترقی کے سائنسی طریقہ نچلی سطح تک اختیار کے نظام کے نظریہ کو قبول نہیں کیا۔
سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت میں نچلی سطح تک اختیار کا نظام قائم کیا گیا تھا۔ اس نظام کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں صوبائی خود مختاری کے تصور کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ اسلام آباد براہِ راست شہروں میں قائم سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سے رابطہ میں رہتا تھا۔ ناظم کے احتساب کا طریقہ کار کمزور تھا۔
بلدیاتی فنڈز کو آڈٹ کے دائرہ کار سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا، یوں اس قانون میں ترمیم کر کے ان خامیوں کو دور کیا جاسکتا تھا، مگر حکومت سندھ کے اکابرین تمام اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے، اس بناء پر اس قانون کی جگہ جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ بلدیاتی قانون کو کچھ ترامیم کے ساتھ نافذ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے صوبہ میں بلدیاتی امور ٹھپ ہوئے۔ کراچی شہر میں کوڑے کے پہاڑ بن گئے، امراء کی بستیاں ہوں یا غریبوں کی ہر سڑک ہر گلی میں سیوریج کے پانی کی نہریں بہنا روز کا معمول ہوگیا۔
سندھ کے چھوٹے شہروں میں انفرا اسٹرکچر پہلے ہی پسماندہ تھا، وہ مزید خراب ہوگیا۔ حکومت نے بیوروکریسی کی تجاویز پر عملدرآمد کرتے ہوئے سولڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کا ادارہ بنایا۔ کراچی میں صفائی کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو دے دیا گیا۔ اس کمپنی نے سڑکوں پر ڈسٹ بن کھڑے کر دیے۔ سڑکوں کی صفائی کے لیے کچھ جدید گاڑیاں درآمد کی گئیں مگر کوڑے کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ کراچی کا یہ مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ بن گیا۔
امریکا کے سب سے بڑے اخبار نیو یارک ٹائمز میں کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی زبوں حالی پر فیچر شایع ہوا۔ پرانے بلدیاتی نظام میں کونسلر کا کوئی کردار نہیں تھا، یونین کونسل کا کام پیدائش، نکاح اور شادی اور اموات کے سرٹیفکیٹ جاری کرنا ہی رہ گیا تھا۔
سندھ کی حکومت نے مخصوص گروہ کے افراد کو یونین کونسل کا سیکریٹری مقرر کیا تھا، یوں صرف رشوت کا ریٹ بلند ہونے کے علاوہ کچھ نہ ہوا۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی شہر کی ٹاؤن پلاننگ اور ماسٹر پلان کا ایک اہم جز ہے۔
شہر کو جدید بنانے کی منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میئر کی نگرانی میں کام کرے مگر حکومت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا کر اس اہم ادارہ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس ادارہ کی شاندار کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان کو خاصا وقت اس ادارہ کے خلاف شکایتوں پر فیصلہ دینے میں صرف ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ 15 برسوں کے دوران بلدیاتی اداروں نے انتخابات کرانے کے لیے کئی اہم فیصلے دیے، یوں بر سرِ اقتدار حکومتوں کو مجبوراً بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرانے پڑے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس گلزار نے اپنی مدت ختم ہوتے ہوئے آخری دن فیصلہ دیا کہ بلدیاتی قانون میں میئر کے اختیارات کے لیے ترمیم کی جائے۔
گزشتہ برسوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور سابق ناظم مصطفی کمال وغیرہ نے کئی معاہدے کیے تھے۔ یہ معاہدے ان جماعتوں کے مسلسل احتجاج کے بعد ہوئے تھے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے نہ تو سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کیا نہ ان معاہدوں کا پاس کیا، یوں نچلی سطح تک اختیارات کا معاملہ ہنوز التواء کا شکار رہا۔
نو منتخب میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کوشش کی کہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی آلائشوں کو فوری طور پر ٹھکانے لگانے کا کام سلیقہ سے مکمل ہوجائے۔ میئر کی کوششوں سے کچھ علاقوں میں تو صورتحال بہتر رہی مگر بہت سے علاقوں میں جانوروں کی آلائشوں کی بدبو سے زندگی اجیرن ہوئی۔
شہر میں گیسٹرو کی بیماری پھیلنے کے نتیجہ میں ابھی ایک عورت جاں بحق ہوئی اور سیکڑوں افراد کو اسپتال میں علاج کرانا پڑا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پیٹ کی بیماری کی بنیادی وجوہات ناقص خوراک کے علاوہ آلودہ پانی اور قربانی کے تہوار کے بعد صفائی کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ مخالف جماعتوں نے یہ شور مچانا شروع کیا کہ ٹاؤن چیئرمین اور یونین کونسل کے سربراہوں کو اختیارات نہیں دیے گئے، یوں یہ منتخب اراکین عید الاضحی کے موقع پر بہت زیادہ موثر کردار اد انہ کرسکے۔
حکومت سندھ کے میئر کو اہم اداروں کے اختیارات اس وقت دینے سے ثابت ہوتا ہے کہ ابھی تک نچلی سطح کے بلدیاتی اداروں کے اختیارات کا معاملہ التواء کا شکار ہے۔ شہروں کی ترقی نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کے ذریعہ ہوتی ہے۔
دنیا کے جدید شہروں کی طرح کراچی کا میئر بھی با اختیار ہونا چاہیے۔ میئر کی ساری توجہ جدید ماس ٹرانزٹ پروگرام، ہر شہری کو پانی و بجلی کی فراہمی، ٹاؤن پلاننگ اور تعلیم اور صحت کی جدید سہولتوں کی فراہمی پر ہونی چاہیے۔ ٹاؤن کے چیئرمین کی ذمے داری ٹاؤن کی ترقی اور ہر گلی میں صفائی کے لیے یونین کونسل کے ساتھ مربوط کوششوں پر مرکوز ہونی چاہیے۔ کونسلر کے ادارہ کو مکمل طور پر بااختیار ہونا چاہیے۔
حکومت سندھ کو کنٹونمنٹ ایریاز کو ختم کر کے پورے شہر پر بلدیہ کی عملداری کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔ مستقبل میں شہر کی پولیس کو بھی میئر کی نگرانی میں کام کرنا چاہیے۔ نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کے ذریعے سندھ کے شہر جدید شہروں کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے قانون مجریہ 2023 پر گورنر سندھ نے مہر ثبت کر دی۔ اس قانون کے تحت اب کراچی کے شہریوں کو پانی کی فراہمی کا ادارہ تجارتی بنیادوں پر کام کرے گا۔ یہ کارپوریشن پانی کو تجارتی بنیاد پر فروخت کرے گی۔
ذرایع کہتے ہیں کہ اب میئر کو کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی KDA کا بھی سربراہ مقرر کیا جارہا ہے۔ کے ڈی اے کا بنیادی فریضہ سڑکیں اور پل تعمیر کرنا اور مستقبل کی ٹاؤن پلاننگ کرنا ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلدیاتی امور سے متعلق دو اہم ترین اداروں کو منتخب قیادت کی نگرانی میں دے کر ایک انتہائی مثبت قدم اٹھایا مگر اس کے ساتھ ہی سابق میئر وسیم اختر نے اس الزام کی تصدیق کردی کہ میئر کے پاس اختیارات نہیں تھے مگر بلدیاتی اداروں میں نچلی سطح تک اختیارات کا معاملہ اب بھی گھمبیر نظر آتا ہے۔
اگرچہ نئے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے منحرف گروپ، مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام و تحریک لبیک کے اراکین بھی منتخب ہوئے ہیں۔
اس ترتیب سے پیپلز پارٹی کے پاس 13 ٹاؤنز ہیں، جماعت اسلامی کے پاس 9 اور تحریک انصاف کے پاس 3 ٹاؤنز ہیں۔ بلدیاتی ڈھانچہ کے تحت ٹاؤن کے ساتھ یونین کونسل ہیں جن میں مختلف جماعتوں کے کونسلر شامل ہیں۔
اس دفعہ خواتین، مزدوروں اور اقلیتوں کے ساتھ ٹرانس جینڈر کو بھی مختلف بلدیاتی درجوں میں نمایندگی دی گئی ہے۔ کونسلر کا تعلق براہ راست اپنے علاقہ کے لوگوں سے ہوتا ہے۔ یونین کونسل کا چیئرمین اور ٹاؤن کے چیئرمین اپنی اپنی حدود میں عوام سے رابطے رکھتے ہیں۔
تاریخی طور پر بلدیاتی نظام کا جائزہ لیا جائے تو ایک حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ پانی کی فراہمی، سیوریج کے مسائل، سڑکوں کی مرمت، صفائی سے متعلق مسائل کا براہِ راست تعلق کونسلر اور یونین کونسل سے ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے شہر کی ترقی کے سائنسی طریقہ نچلی سطح تک اختیار کے نظام کے نظریہ کو قبول نہیں کیا۔
سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت میں نچلی سطح تک اختیار کا نظام قائم کیا گیا تھا۔ اس نظام کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں صوبائی خود مختاری کے تصور کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ اسلام آباد براہِ راست شہروں میں قائم سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سے رابطہ میں رہتا تھا۔ ناظم کے احتساب کا طریقہ کار کمزور تھا۔
بلدیاتی فنڈز کو آڈٹ کے دائرہ کار سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا، یوں اس قانون میں ترمیم کر کے ان خامیوں کو دور کیا جاسکتا تھا، مگر حکومت سندھ کے اکابرین تمام اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے، اس بناء پر اس قانون کی جگہ جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ بلدیاتی قانون کو کچھ ترامیم کے ساتھ نافذ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے صوبہ میں بلدیاتی امور ٹھپ ہوئے۔ کراچی شہر میں کوڑے کے پہاڑ بن گئے، امراء کی بستیاں ہوں یا غریبوں کی ہر سڑک ہر گلی میں سیوریج کے پانی کی نہریں بہنا روز کا معمول ہوگیا۔
سندھ کے چھوٹے شہروں میں انفرا اسٹرکچر پہلے ہی پسماندہ تھا، وہ مزید خراب ہوگیا۔ حکومت نے بیوروکریسی کی تجاویز پر عملدرآمد کرتے ہوئے سولڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کا ادارہ بنایا۔ کراچی میں صفائی کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو دے دیا گیا۔ اس کمپنی نے سڑکوں پر ڈسٹ بن کھڑے کر دیے۔ سڑکوں کی صفائی کے لیے کچھ جدید گاڑیاں درآمد کی گئیں مگر کوڑے کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ کراچی کا یہ مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ بن گیا۔
امریکا کے سب سے بڑے اخبار نیو یارک ٹائمز میں کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی زبوں حالی پر فیچر شایع ہوا۔ پرانے بلدیاتی نظام میں کونسلر کا کوئی کردار نہیں تھا، یونین کونسل کا کام پیدائش، نکاح اور شادی اور اموات کے سرٹیفکیٹ جاری کرنا ہی رہ گیا تھا۔
سندھ کی حکومت نے مخصوص گروہ کے افراد کو یونین کونسل کا سیکریٹری مقرر کیا تھا، یوں صرف رشوت کا ریٹ بلند ہونے کے علاوہ کچھ نہ ہوا۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی شہر کی ٹاؤن پلاننگ اور ماسٹر پلان کا ایک اہم جز ہے۔
شہر کو جدید بنانے کی منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میئر کی نگرانی میں کام کرے مگر حکومت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا کر اس اہم ادارہ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس ادارہ کی شاندار کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان کو خاصا وقت اس ادارہ کے خلاف شکایتوں پر فیصلہ دینے میں صرف ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ 15 برسوں کے دوران بلدیاتی اداروں نے انتخابات کرانے کے لیے کئی اہم فیصلے دیے، یوں بر سرِ اقتدار حکومتوں کو مجبوراً بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرانے پڑے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس گلزار نے اپنی مدت ختم ہوتے ہوئے آخری دن فیصلہ دیا کہ بلدیاتی قانون میں میئر کے اختیارات کے لیے ترمیم کی جائے۔
گزشتہ برسوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور سابق ناظم مصطفی کمال وغیرہ نے کئی معاہدے کیے تھے۔ یہ معاہدے ان جماعتوں کے مسلسل احتجاج کے بعد ہوئے تھے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے نہ تو سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کیا نہ ان معاہدوں کا پاس کیا، یوں نچلی سطح تک اختیارات کا معاملہ ہنوز التواء کا شکار رہا۔
نو منتخب میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کوشش کی کہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی آلائشوں کو فوری طور پر ٹھکانے لگانے کا کام سلیقہ سے مکمل ہوجائے۔ میئر کی کوششوں سے کچھ علاقوں میں تو صورتحال بہتر رہی مگر بہت سے علاقوں میں جانوروں کی آلائشوں کی بدبو سے زندگی اجیرن ہوئی۔
شہر میں گیسٹرو کی بیماری پھیلنے کے نتیجہ میں ابھی ایک عورت جاں بحق ہوئی اور سیکڑوں افراد کو اسپتال میں علاج کرانا پڑا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پیٹ کی بیماری کی بنیادی وجوہات ناقص خوراک کے علاوہ آلودہ پانی اور قربانی کے تہوار کے بعد صفائی کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ مخالف جماعتوں نے یہ شور مچانا شروع کیا کہ ٹاؤن چیئرمین اور یونین کونسل کے سربراہوں کو اختیارات نہیں دیے گئے، یوں یہ منتخب اراکین عید الاضحی کے موقع پر بہت زیادہ موثر کردار اد انہ کرسکے۔
حکومت سندھ کے میئر کو اہم اداروں کے اختیارات اس وقت دینے سے ثابت ہوتا ہے کہ ابھی تک نچلی سطح کے بلدیاتی اداروں کے اختیارات کا معاملہ التواء کا شکار ہے۔ شہروں کی ترقی نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کے ذریعہ ہوتی ہے۔
دنیا کے جدید شہروں کی طرح کراچی کا میئر بھی با اختیار ہونا چاہیے۔ میئر کی ساری توجہ جدید ماس ٹرانزٹ پروگرام، ہر شہری کو پانی و بجلی کی فراہمی، ٹاؤن پلاننگ اور تعلیم اور صحت کی جدید سہولتوں کی فراہمی پر ہونی چاہیے۔ ٹاؤن کے چیئرمین کی ذمے داری ٹاؤن کی ترقی اور ہر گلی میں صفائی کے لیے یونین کونسل کے ساتھ مربوط کوششوں پر مرکوز ہونی چاہیے۔ کونسلر کے ادارہ کو مکمل طور پر بااختیار ہونا چاہیے۔
حکومت سندھ کو کنٹونمنٹ ایریاز کو ختم کر کے پورے شہر پر بلدیہ کی عملداری کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔ مستقبل میں شہر کی پولیس کو بھی میئر کی نگرانی میں کام کرنا چاہیے۔ نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کے ذریعے سندھ کے شہر جدید شہروں کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں۔