اب تک تو تپش سے بھی محفوظ ہیں
سابق وزیر اعظم نے جیل میں موجود میاں محمد نواز شریف کی تمام سہولتیں ختم کرانے کا اعلان کیا تھا
پی ٹی آئی کے بانی رہنما اور سابق وزیر اعظم کے متعدد مقدمات کی وکالت کرنے والے ماہر قانون حامد خان نے کہا ہے کہ نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ عدالتی فیصلے سے قبل ہی کہیں ہو چکا تھا اور عدلیہ کو صرف استعمال کیا گیا۔
نواز شریف سمجھتے تھے کہ وہ عدلیہ کو ہینڈل کر لیں گے مگر بعد میں انھیں احساس ہوا کہ وہ ایسا نہیں کرسکیں گے کیونکہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔
جس روز حامد خان نے یہ انٹرویو دیا، اس روز ہی پی ٹی آئی چیئرمین کو اسلام آباد میں تاریخی ریلیف ملا اور انھیں 16 مقدمات میں حفاظتی ضمانت مل گئی اور اپنی یقینی گرفتاری کا خدشہ لے کر اسلام آباد آنے والے سابق وزیر اعظم محفوظ رہ کر واپس زمان پارک لاہور چلے گئے۔
پاکستان میں ایک وزیر اعظم کو پھانسی اور دوکو نااہلی کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف کا پاناما میں نام نہ ہونے کے باوجود اقامہ پر پہلے نااہل کیا گیا اور بعد میں قید کی سزا بھی دلائی گئی تھی۔ نواز شریف کو نااہل اور سزا دے کر حکومت سے ہٹانے کے لیے عدلیہ کو استعمال کرنے کی جو باتیں مسلم لیگی رہنما کیا کرتے تھے، اس کی تصدیق پی ٹی آئی کے اہم رہنما حامد خان نے بھی کردی ہے ۔
توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم خاصے دباؤ میں ہیں۔ وہ توشہ خانہ کیس کو بھی غلط قرار دے رہے ہیں ، وہ اپنے خلاف کسی ایک کیس کو درست نہیں مان رہے۔
سابق وزیر اعظم کے مخالفین، متعدد صحافی اور اینکر ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے متعدد رہنما بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ جتنا عدالتی ریلیف پی ٹی آئی قائدکو دیا گیا، اس کی ماضی میں کوئی مثال ہی نہیں ملتی جب کہ ماضی میں نواز شریف پر ہوائی جہاز کے اغوا کا کیس ڈال کر انھیں برطرف کیا گیا تھا پھر انھیں اسی مقدمے میں سزا دے کر جلا وطن کیا گیا تھا اور انھیں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر سفر کرایا جاتا تھا لیکن ان کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں تین بار ملک کا وزیر اعظم رہنے والے کے ساتھ جیل میں جو سلوک کرایا تھا، وہ بھی منفرد انتقام تھا جس میں سابق وزیر اعظم کو لندن میں بستر مرگ پر پڑی ان کی اہلیہ سے فون پر بات نہیں کرنے دی تھی اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو ملاقات کے موقع پر باپ کے سامنے جیل میں ہی گرفتار کرایا تھا۔
سابق وزیر اعظم نے جیل میں موجود میاں محمد نواز شریف کی تمام سہولتیں ختم کرانے کا اعلان کیا تھا اور ان کی حالت خراب ہونے پر انھیں باہر جانے دیا اور پھر ان کی بیماری کو جعلی قرار دیا تھا اور یہی کچھ بیگم کلثوم نواز کے ساتھ بھی ہوا تھا۔
170 مقدمات میں ملوث سابق وزیر اعظم اتنے بااثر ہیں کہ حکومت میں انھیں گرفتار کرنے کی ہمت نہیں، وہ سوا سال سے لاہور میں اپنے گھر میں اہلیہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ انھیں صرف پیشیوں پر جانا پڑتا ہے جہاں بھی وہ اپنی مرضی سے جاتے ہیں۔ انھیں اپنے گھر میں تمام سہولیات حاصل ہیں جہاں وہ میڈیا پرسنز سے سے ملتے ہیں، غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہیں۔
سانحہ 9 مئی کے بعد بھی جناح ہاؤس کو لگائی گئی آگ کی تپش بھی سابق وزیر اعظم تک نہیں پہنچی اور انھیں فوجی عدالت کے ٹرائل سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ انھوں نے اپنی حکومت میں فوجی عدالتوں سے سزاؤں کی مکمل حمایت کی تھی اور آج وہ فوجی عدالتوں سے ٹرائل کے مخالف ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے اب تک جیل دیکھی نہ جیل کی صعوبتیں اور نہ ہی حکومتی انتقام نہ ہی قید اور پریشانی دیکھی کیونکہ وہ مکمل آزاد اور محفوظ ہیں۔
نواز شریف سمجھتے تھے کہ وہ عدلیہ کو ہینڈل کر لیں گے مگر بعد میں انھیں احساس ہوا کہ وہ ایسا نہیں کرسکیں گے کیونکہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔
جس روز حامد خان نے یہ انٹرویو دیا، اس روز ہی پی ٹی آئی چیئرمین کو اسلام آباد میں تاریخی ریلیف ملا اور انھیں 16 مقدمات میں حفاظتی ضمانت مل گئی اور اپنی یقینی گرفتاری کا خدشہ لے کر اسلام آباد آنے والے سابق وزیر اعظم محفوظ رہ کر واپس زمان پارک لاہور چلے گئے۔
پاکستان میں ایک وزیر اعظم کو پھانسی اور دوکو نااہلی کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف کا پاناما میں نام نہ ہونے کے باوجود اقامہ پر پہلے نااہل کیا گیا اور بعد میں قید کی سزا بھی دلائی گئی تھی۔ نواز شریف کو نااہل اور سزا دے کر حکومت سے ہٹانے کے لیے عدلیہ کو استعمال کرنے کی جو باتیں مسلم لیگی رہنما کیا کرتے تھے، اس کی تصدیق پی ٹی آئی کے اہم رہنما حامد خان نے بھی کردی ہے ۔
توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم خاصے دباؤ میں ہیں۔ وہ توشہ خانہ کیس کو بھی غلط قرار دے رہے ہیں ، وہ اپنے خلاف کسی ایک کیس کو درست نہیں مان رہے۔
سابق وزیر اعظم کے مخالفین، متعدد صحافی اور اینکر ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے متعدد رہنما بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ جتنا عدالتی ریلیف پی ٹی آئی قائدکو دیا گیا، اس کی ماضی میں کوئی مثال ہی نہیں ملتی جب کہ ماضی میں نواز شریف پر ہوائی جہاز کے اغوا کا کیس ڈال کر انھیں برطرف کیا گیا تھا پھر انھیں اسی مقدمے میں سزا دے کر جلا وطن کیا گیا تھا اور انھیں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر سفر کرایا جاتا تھا لیکن ان کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں تین بار ملک کا وزیر اعظم رہنے والے کے ساتھ جیل میں جو سلوک کرایا تھا، وہ بھی منفرد انتقام تھا جس میں سابق وزیر اعظم کو لندن میں بستر مرگ پر پڑی ان کی اہلیہ سے فون پر بات نہیں کرنے دی تھی اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو ملاقات کے موقع پر باپ کے سامنے جیل میں ہی گرفتار کرایا تھا۔
سابق وزیر اعظم نے جیل میں موجود میاں محمد نواز شریف کی تمام سہولتیں ختم کرانے کا اعلان کیا تھا اور ان کی حالت خراب ہونے پر انھیں باہر جانے دیا اور پھر ان کی بیماری کو جعلی قرار دیا تھا اور یہی کچھ بیگم کلثوم نواز کے ساتھ بھی ہوا تھا۔
170 مقدمات میں ملوث سابق وزیر اعظم اتنے بااثر ہیں کہ حکومت میں انھیں گرفتار کرنے کی ہمت نہیں، وہ سوا سال سے لاہور میں اپنے گھر میں اہلیہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ انھیں صرف پیشیوں پر جانا پڑتا ہے جہاں بھی وہ اپنی مرضی سے جاتے ہیں۔ انھیں اپنے گھر میں تمام سہولیات حاصل ہیں جہاں وہ میڈیا پرسنز سے سے ملتے ہیں، غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہیں۔
سانحہ 9 مئی کے بعد بھی جناح ہاؤس کو لگائی گئی آگ کی تپش بھی سابق وزیر اعظم تک نہیں پہنچی اور انھیں فوجی عدالت کے ٹرائل سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ انھوں نے اپنی حکومت میں فوجی عدالتوں سے سزاؤں کی مکمل حمایت کی تھی اور آج وہ فوجی عدالتوں سے ٹرائل کے مخالف ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے اب تک جیل دیکھی نہ جیل کی صعوبتیں اور نہ ہی حکومتی انتقام نہ ہی قید اور پریشانی دیکھی کیونکہ وہ مکمل آزاد اور محفوظ ہیں۔