جیون میں ایک بارجانا تھائی لینڈ
ایک دن اس نے راہ چلتے ہوئے ایک کمزور گدھے کو دیکھا جو زمین پر لیٹا ہوا تھا
عہد قدیم کے سلاطین کے قصے دلچسپ بھی ہوتے ہیں اور ان میں حکمت و دانائی بھی ہوتی ہے، بادشاہوں کے دربار میں طبیبوں اور حکیموں کا باقاعدہ ایک دستہ ہوتا تھا جو بادشاہ کو جوان رکھنے کے نسخے تیار کرتے تھے۔
اسی طرح خواجہ سراؤں اور کنیزوں کا بھی ایک ہجوم ہوتا تھا،یہ سب لوگ بادشاہ کی خدمت پر مامور تھے، کوئی بادشاہ کے لیے کشتے تیار کرتا، کوئی جسم کا مساج کرتا، کنیزیں زیادہ تر مساج کی ڈیوٹی ہی انجام دیتی تھیں۔کہتے ہیں کہ بادشاہ، درباری اور تجار خودکو جوان رکھنے کے لیے نوخیز کنیزوں کے جھرمٹ میں رہتے تھے۔
اس طریقہ علاج کے بارے میں سنا تو بہت تھا کہ اکثر امیرلوگ بڑھاپے میں یہی طریقہ استعمال کرتے تھے، بعض اوقات تو کئی کئی لڑکیاں بطور علاج خریدی جاتی ہیں بلکہ سنا ہے کہ یورپ اور امریکا میں اب بھی یہ طریقہ علاج مستعمل ہے جہاں بڈھے لوگ خود کو جوان رکھنے کی کوشش میں نوجوان لڑکیوں سے مساج وغیرہ کراتے ہیں اور پھرکچھ عرصہ اس ''علاج'' کی یادوں میں خوش رہتے ہیں۔
اپنے مشرق میں اس کا رواج نہیں ہے، اس لیے صاحب استطاعت لوگ چارشادیوں کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جب بھی ضرورت ہوتی ہے، اسی سالہ بڈھے کسی جوان لڑکی کو حبالہ عقد میں لے آتے ہیں لیکن سنا ہے کہ اس طریقہ علاج کے لیے آج کل تھائی لینڈ بہت مشہور ہے، وہاں بے شمار ایسے مساج سینٹر قائم ہیں جن میں منتخب لڑکیاں مردوں خصوصاً بوڑھوں کا مساج کرتی ہیں اورانھیں راحت وسکون مہیا کرتی ہیں ۔
ہمارے ایک مرحوم دوست جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، شاید معیاراونچا ہونے پر دوسرے جہاں چلے گئے ، وہ ایک مالدار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ٹی وی پروڈیوسر تھے، وہ ایک مرتبہ سرکاری دورے پر تھائی لینڈ گئے تھے (سرکار بھی اپنے افسروں کی صحت کاخیال رکھتے ہوئے بیرون ملک سیروسیاحت پر بھیجتی ہے) اس دورے کے بعد اسے تھائی لینڈ کا چسکہ پڑ گیا چنانچہ وہ سال چھ مہینے بعد تھائی لینڈ جانے لگا لیکن اسے یہ سیر وسیاحت راس نہیں آئی ، بیچارہ جوانی ہی میں چٹ پٹ ہوگیا ۔
وہ تھائی لینڈ کے بڑے دلچسپ قصے سنایا کرتاتھا جس میں ان پاکستانی لیڈروں کے نام بھی آجاتے تھے جو وہاں کے مستقل ''مریض'' تھے ، ویسے لیڈروں کو اس طریقہ علاج کی ضرورت بھی ہے، بیچارے بہت زیادہ اوور ورک کرتے رہتے ہیں، عوام اورملک وقوم کی خدمت میں دن رات ہلکان رہتے ہیں، یہاں جلسہ، وہاں دھرنا، جلوسوں کی قیادت، بے تحاشاتقریریں ، پریس کانفرنس، ذراسوچیے اتنا کام اور اکیلی جان، آخر ری چارج ہونے کی ضرورت پڑجاتی ہے۔
اگلے وقتوں میں جب ہمیں تھائی لینڈ کے ''شفاخانوں'' کا پتہ نہیں تھا، ہم اکثر سوچتے رہتے تھے کہ یہ لیڈرلوگ عوام کے لیے خود کو دن رات تھکا مارتے ہیں۔
ان کا کچھ کرناچاہیے، کچھ ہونا چاہیے لیکن جب تھائی لینڈ کے ''چارجنگ ''سینٹروں کاپتہ چلا تو اپنے اوور ورک لیڈروں کی طرف سے اطمینان ہوگیا، ویسے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ چونکہ تھائی لینڈ اس سلسلے میں کچھ زیادہ بدنام ہوچکا ہے، اس لیے خوشحال اور تگڑے ''مریض'' امریکا، برطانیہ، فرانس، متحدہ عرب امارات وغیرہ میں یہ علاج کروا لیتے ہیں کیوں کہ مقبول ہونے کی وجہ سے اب یہ طریقہ دوسرے ممالک میں بھی ہونے لگا ہے ۔
ہمارے پاس ایک مرتبہ ملتان کا ایک ''دانائے راز'' آیا تھا، اس کے پاس پاکستان کے تمام لیڈروں کی پس پردہ سرگرمیوں کا ریکارڈ تھا،اس کے انکشافات سے پتہ چلا کہ اکثر سرمایہ داروں، بیوروکریٹس نے کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں تھائی لینڈ،فلپائن سے مساجرز امپورٹ کرلی ہیں۔کمال کا انسائیکلوپیڈیا ٹائپ کاآدمی تھا، ہم جس لیڈر یا لیڈرنی، بیوروکریٹ، کا نام لیتے تھے، وہ ان کا یہی خفیہ باب نکال لیتا تھا۔ اب توشعبہ صحافت کو بھی نوازنے کا کام جاری ہے۔
ویسے ہم نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ اس کو راوی بنا کر ایک کتاب لکھیں لیکن پھر اﷲ تعالیٰ کے نام ''ستار'' کا خیال آیا، اس لیے ارادہ ترک کردیا۔ ہم مانتے ہیں اس شخص کی روایات اور بیانات میں مبالغہ زیادہ تھا لیکن کچھ نہ کچھ سچائی بھی تھی۔
ہماری تو تجویز ہے کہ جب ہمارے لیڈرعوام کی خدمت میں خود کو تھکاماریں تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ کبھی کبھی انھیں یورپ بھیجاکریں۔ وہ ایک نوجوان صحن میں کھاناکھا رہا تھا کہ ایک مرغ اسے تنگ کرنے لگا، کبھی روٹی کھینچتا،کبھی ترکاری پرجھپٹا مارتا،نوجوان نے مرغے کی شرارت دیکھتے ہوئے کہا ، بازآجا ورنہ اپنے باپ سے کہہ کر تمہاری بھی شادی کرادوں گا۔ باپ نے یہ بات سنی تو بیٹے سے کہا، بیٹا! میراخیال ہے تم کچھ دنوں کے لیے اپنے ماموں کے ہاں چلے جاؤ ۔چونکہ ماموں کے ہاں اچھا کھانا پینا تھا۔
ایک دن اس نے راہ چلتے ہوئے ایک کمزورگدھے کو دیکھا جو زمین پر لیٹا ہواتھا، لوگ اسے طرح طرح کے جتن کرکے اٹھانے کی کوشش کررہے تھے ،گدھا بھی اٹھنے کی کوشش کرتا لیکن پھر گر پڑتا۔ اس نوجوان نے گدھے کے کان کے پاس منہ لے جاکر کہا، اتنے ناتواں ہو تو باپ سے کہو، تجھے ماموں کے ہاں بھیج دے۔
جیون میں ایک بار جانا تھائی لینڈ
اسی طرح خواجہ سراؤں اور کنیزوں کا بھی ایک ہجوم ہوتا تھا،یہ سب لوگ بادشاہ کی خدمت پر مامور تھے، کوئی بادشاہ کے لیے کشتے تیار کرتا، کوئی جسم کا مساج کرتا، کنیزیں زیادہ تر مساج کی ڈیوٹی ہی انجام دیتی تھیں۔کہتے ہیں کہ بادشاہ، درباری اور تجار خودکو جوان رکھنے کے لیے نوخیز کنیزوں کے جھرمٹ میں رہتے تھے۔
اس طریقہ علاج کے بارے میں سنا تو بہت تھا کہ اکثر امیرلوگ بڑھاپے میں یہی طریقہ استعمال کرتے تھے، بعض اوقات تو کئی کئی لڑکیاں بطور علاج خریدی جاتی ہیں بلکہ سنا ہے کہ یورپ اور امریکا میں اب بھی یہ طریقہ علاج مستعمل ہے جہاں بڈھے لوگ خود کو جوان رکھنے کی کوشش میں نوجوان لڑکیوں سے مساج وغیرہ کراتے ہیں اور پھرکچھ عرصہ اس ''علاج'' کی یادوں میں خوش رہتے ہیں۔
اپنے مشرق میں اس کا رواج نہیں ہے، اس لیے صاحب استطاعت لوگ چارشادیوں کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جب بھی ضرورت ہوتی ہے، اسی سالہ بڈھے کسی جوان لڑکی کو حبالہ عقد میں لے آتے ہیں لیکن سنا ہے کہ اس طریقہ علاج کے لیے آج کل تھائی لینڈ بہت مشہور ہے، وہاں بے شمار ایسے مساج سینٹر قائم ہیں جن میں منتخب لڑکیاں مردوں خصوصاً بوڑھوں کا مساج کرتی ہیں اورانھیں راحت وسکون مہیا کرتی ہیں ۔
ہمارے ایک مرحوم دوست جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، شاید معیاراونچا ہونے پر دوسرے جہاں چلے گئے ، وہ ایک مالدار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ٹی وی پروڈیوسر تھے، وہ ایک مرتبہ سرکاری دورے پر تھائی لینڈ گئے تھے (سرکار بھی اپنے افسروں کی صحت کاخیال رکھتے ہوئے بیرون ملک سیروسیاحت پر بھیجتی ہے) اس دورے کے بعد اسے تھائی لینڈ کا چسکہ پڑ گیا چنانچہ وہ سال چھ مہینے بعد تھائی لینڈ جانے لگا لیکن اسے یہ سیر وسیاحت راس نہیں آئی ، بیچارہ جوانی ہی میں چٹ پٹ ہوگیا ۔
وہ تھائی لینڈ کے بڑے دلچسپ قصے سنایا کرتاتھا جس میں ان پاکستانی لیڈروں کے نام بھی آجاتے تھے جو وہاں کے مستقل ''مریض'' تھے ، ویسے لیڈروں کو اس طریقہ علاج کی ضرورت بھی ہے، بیچارے بہت زیادہ اوور ورک کرتے رہتے ہیں، عوام اورملک وقوم کی خدمت میں دن رات ہلکان رہتے ہیں، یہاں جلسہ، وہاں دھرنا، جلوسوں کی قیادت، بے تحاشاتقریریں ، پریس کانفرنس، ذراسوچیے اتنا کام اور اکیلی جان، آخر ری چارج ہونے کی ضرورت پڑجاتی ہے۔
اگلے وقتوں میں جب ہمیں تھائی لینڈ کے ''شفاخانوں'' کا پتہ نہیں تھا، ہم اکثر سوچتے رہتے تھے کہ یہ لیڈرلوگ عوام کے لیے خود کو دن رات تھکا مارتے ہیں۔
ان کا کچھ کرناچاہیے، کچھ ہونا چاہیے لیکن جب تھائی لینڈ کے ''چارجنگ ''سینٹروں کاپتہ چلا تو اپنے اوور ورک لیڈروں کی طرف سے اطمینان ہوگیا، ویسے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ چونکہ تھائی لینڈ اس سلسلے میں کچھ زیادہ بدنام ہوچکا ہے، اس لیے خوشحال اور تگڑے ''مریض'' امریکا، برطانیہ، فرانس، متحدہ عرب امارات وغیرہ میں یہ علاج کروا لیتے ہیں کیوں کہ مقبول ہونے کی وجہ سے اب یہ طریقہ دوسرے ممالک میں بھی ہونے لگا ہے ۔
ہمارے پاس ایک مرتبہ ملتان کا ایک ''دانائے راز'' آیا تھا، اس کے پاس پاکستان کے تمام لیڈروں کی پس پردہ سرگرمیوں کا ریکارڈ تھا،اس کے انکشافات سے پتہ چلا کہ اکثر سرمایہ داروں، بیوروکریٹس نے کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں تھائی لینڈ،فلپائن سے مساجرز امپورٹ کرلی ہیں۔کمال کا انسائیکلوپیڈیا ٹائپ کاآدمی تھا، ہم جس لیڈر یا لیڈرنی، بیوروکریٹ، کا نام لیتے تھے، وہ ان کا یہی خفیہ باب نکال لیتا تھا۔ اب توشعبہ صحافت کو بھی نوازنے کا کام جاری ہے۔
ویسے ہم نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ اس کو راوی بنا کر ایک کتاب لکھیں لیکن پھر اﷲ تعالیٰ کے نام ''ستار'' کا خیال آیا، اس لیے ارادہ ترک کردیا۔ ہم مانتے ہیں اس شخص کی روایات اور بیانات میں مبالغہ زیادہ تھا لیکن کچھ نہ کچھ سچائی بھی تھی۔
ہماری تو تجویز ہے کہ جب ہمارے لیڈرعوام کی خدمت میں خود کو تھکاماریں تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ کبھی کبھی انھیں یورپ بھیجاکریں۔ وہ ایک نوجوان صحن میں کھاناکھا رہا تھا کہ ایک مرغ اسے تنگ کرنے لگا، کبھی روٹی کھینچتا،کبھی ترکاری پرجھپٹا مارتا،نوجوان نے مرغے کی شرارت دیکھتے ہوئے کہا ، بازآجا ورنہ اپنے باپ سے کہہ کر تمہاری بھی شادی کرادوں گا۔ باپ نے یہ بات سنی تو بیٹے سے کہا، بیٹا! میراخیال ہے تم کچھ دنوں کے لیے اپنے ماموں کے ہاں چلے جاؤ ۔چونکہ ماموں کے ہاں اچھا کھانا پینا تھا۔
ایک دن اس نے راہ چلتے ہوئے ایک کمزورگدھے کو دیکھا جو زمین پر لیٹا ہواتھا، لوگ اسے طرح طرح کے جتن کرکے اٹھانے کی کوشش کررہے تھے ،گدھا بھی اٹھنے کی کوشش کرتا لیکن پھر گر پڑتا۔ اس نوجوان نے گدھے کے کان کے پاس منہ لے جاکر کہا، اتنے ناتواں ہو تو باپ سے کہو، تجھے ماموں کے ہاں بھیج دے۔
جیون میں ایک بار جانا تھائی لینڈ