کے الیکٹرک لائسنس کی تجدید پر سیاست
کراچی شہر میں یوٹیلٹیز کی فراہمی اور عدم فراہمی کی سیاست تقریباً 4 دہائی پرانی ہے اور شہر میں سیاست کا یہی طرز عمل جاری ہے۔ کراچی میں فراہمی و نکاسی آب، گیس اور بجلی کے حوالے سے مظاہرے اور ہنگامے شہر کی سیاست کا مرکز رہے ہیں۔
یہ 2002 کی بات ہوگی جب کراچی میں فراہمی و نکاسی آب کے مسائل جابجا نظر آتے تھے۔ سڑکیں زبوں حالی کا شکار تھیں۔ ساتھ ہی شہر میں بجلی کی فراہمی کی صورتحال بھی نہایت مخدوش تھی۔ شہر میں بجلی کی عدم فراہمی کے مسائل میں عوام کا بلوں کی عدم ادائیگی کے علاوہ اس وقت کے ای ایس سی کے عملے کی نااہلی، تساہل اور یونین بازی تھی۔ ایک دن میرے گھر کو بجلی فراہم کرنے والی تار کا جمپر اڑ گیا، تو اس ایک تار کو جوڑنے کئی دنوں تک کے ای ایس سی کا عملہ نہ پہنچ سکا اور ہم بغیر بجلی کے بیٹھے رہے۔ ٹیلی فون، واٹس ایپ، سوشل میڈیا کا زمانہ تو تھا نہیں، بار بار یوٹیلٹی کے دفتر جانا پڑتا تھا۔ اور یہ چکر ہم روزانہ لگایا کرتے تھے۔
نظام کو درست کرنے کےلیے کے ای ایس سی کو فوج کے حوالے کردیا گیا۔ جس کی توجہ ایک تو نظام کو درست کرنے کے ساتھ بلوں کی ریکوری پر تھی۔ کیونکہ کے ای ایس سی کو ماہانہ ایک ارب روپے کا خسارہ ہورہا تھا جو اس وقت خزانے پر ایک بوجھ تھا۔
2005 میں کے ای ایس سی کی نجکاری کردی گئی اور پاکستان میں نجی شعبے میں کام کرنے والی واحد ورٹیکل انٹرگریٹڈ یوٹیلٹی ہے۔ نجکاری کے بعد شہر میں بجلی کے نظام میں بہتری لانے پر کے الیکٹرک کے سرمایہ کار 400 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کے الیکٹرک کا دعویٰ ہے کہ اس نے شہر میں 75 فیصد لوڈشیڈنگ ختم کردی ہے اور صرف ان علاقوں میں لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جہاں پر بلوں کی وصولی اور چوری بہت زیادہ ہے۔ کے الیکٹرک کی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق شہر کے علاقے، جہاں سے بلوں کی ریکوری بہت کم ہے یا لائن لاسز بہت زیادہ ہیں، میں ملیر، گڈاپ، سرجانی، نئی کراچی، اورنگی، سائٹ اور لیاری شامل ہیں۔
شہر میں بجلی کے نظام میں بہتری کے باوجود کیا وجہ ہے کہ بجلی کے نام پر شہر میں سیاست عروج پر ہے۔ جماعت اسلامی کے الیکٹرک کے لائسنس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم پاکستان بھی اسی مطالبے کو دہراتی ہے۔ اب جبکہ ملک میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی مارکیٹ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عمل جاری ہے۔ نیپرا بجلی کے شعبے میں بنیادی تبدیلیاں کررہا ہے۔ اس عمل میں تقسیم کار کمپنیوں کے لائسنس کی تجدید کا عمل جاری ہے اور نیپرا اپنے اصولی موقف کے تحت ڈیسکوز کو غیر استثنیٰ لائسنس کی فراہمی کررہا ہے۔ ایسے میں کے الیکٹرک نے بھی اپنا لائسنس غیر استثنیٰ فراہم کرنے کی درخواست دے دی ہے۔
دیگر ڈیسکوز کے برعکس کے الیکٹرک کی جانب سے غیر استثنیٰ لائسنس کی درخواست پر ایک سیاسی مہم کا آغاز ہوگیا ہے۔ جس میں مطالبہ کیا جارہا ہے کہ نیپرا کے الیکٹرک کا لائسنس کی تجدید کرنے کے بجائے اس کا لائسنس منسوخ کردے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کی جانب سے شہر بھر میں بینرز آویزاں کردیے گئے ہیں، جبکہ میڈیا میں مسلسل بیانات کے ذریعے بھی جماعت اسلامی شہر میں ایک فضا بنا رہی ہے۔ تو اس کی دیکھا دیکھی دیگر سیاسی جماعتیں بھی کے الیکٹرک کے خلاف محاذ کو گرم کررہی ہیں۔ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا کے الیکٹرک کے لائسنس کی عدم تجدید اور منسوخی ملکی قوانین کے ساتھ شہر کے مفاد میں بھی ہے؟
ملک بھر میں بجلی کی فراہمی کا سلسلہ جب شروع ہوا تو کراچی کو بجلی کی فراہمی کا نظام سب سے الگ تھلگ تھا۔ کے ای ایس سی گزشتہ ایک سو تیرہ (113) سال سے کراچی میں بجلی فراہم کررہی ہے۔ کے ای ایس سی اس حوالے سے ایک خودمختار ادارہ تھی۔ نوے کی دہائی میں بجلی کے شعبے میں اصلاحات کا عمل شروع ہوا تو واپڈا کو مختلف شعبہ جات میں تقسیم کردیا گیا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں جن کو ڈیسکوز کہا جاتا ہے، وجود میں آئیں۔ ان ڈیسکوز کو زیر لائسنس علاقے میں بجلی فراہم کرنے والے واحد ادارے کے طور پر لائسنس جاری کیا گیا یعنی مناپلی لائسنس تھا۔ نیپرا نے بجلی کی مارکیٹ میں مسابقت کو بڑھانے اور جدید انتظامی نظام کو لانے کےلیے فیصلہ کیا کہ ڈیسکوز کی ان کے زیرلائسنس علاقے میں بجلی کی تقسیم پر مناپلی یا اجارہ داری کو ختم کرتے ہوئے غیر استثنیٰ یا نان ایکسکلیوزیو لائسنس کے اجرا کا فیصلہ کیا اور تقریباً تمام ڈیسکوز کو یہ لائسنس جاری بھی کردیا گیا۔ چونکہ کے الیکٹرک کا لائسنس جولائی 30 کو ختم ہونا ہے، اس لیے اس لائسنس کے اجرا سے قبل عوامی سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔
کے الیکٹرک کو 2005 میں نجکاری کرتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اکثریتی حصص کی فروخت انتظامی کنٹرول کے ساتھ کردی گئی۔ یعنی اب کے الیکٹرک حکومت کا ملکیتی ادارہ نہیں بلکہ ایک نجی شعبے کی کمپنی بن گئی۔ سرمایہ کاروں نے حکومت پاکستان کو اس وقت کی کے ای ایس سی اور آج کی کے الیکٹرک کے تمام اثاثے بشمول بجلی کے پیداواری یونٹس، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام تمام کھمبے، پی ایم ٹی اور تاریں رقم کی ادائیگی پر خرید لیں اور اب شہر میں موجود بجلی کا تمام نیٹ ورک کے الیکٹرک کی ملکیت ہے اور کوئی بھی حکومتی ادارہ یا ریاست پاکستان بھی حق ملکیت کے قانون کے تحت کے الیکٹرک کے اثاثے اس سے جبری طور پر ضبط نہیں کرسکتی۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کردیا جائے تو کیا ہوگا؟
اگر ملکی قوانین کے تحت حکومت یا ریاست پاکستان کے الیکٹرک کی نجی املاک کو اپنی تحویل میں نہیں لے سکتی ہے تو پھر اگر نیپرا کے الیکٹرک کے لائسنس کی تجدید سے انکار کردے اور کے الیکٹرک کو شہر اور زیر لائسنس علاقے میں بجلی کی فراہمی کا حق واپس لے تو شہر میں بجلی کی فراہمی بند ہوجائے گی۔ کیونکہ کوئی اور فرد قیمت ادا کیے بغیر کے الیکٹرک کے انفرااسٹرکچر کو استعمال نہیں کرسکے گا اور نہ کوئی دوسری کمپنی ٹرانسمیشن ڈسٹری بیوشن کا نیٹ ورک ڈال سکے گی۔ کیا شہری اس بندش کے ساتھ طویل عرصہ رہ سکیں گے؟
دوسری جانب حکومت پاکستان کو دیکھا جائے تو پتہ یہ چلتا ہے کہ وہ بھی بجلی کے کاروبار سے خود کو الگ کرنا چاہتی ہے۔ اسی لیے وہ نیپرا کے ذریعے بجلی کے کاروبار کو آزاد اور نجی شعبے کی شمولیت کو بڑھانے کی پالیسی پر عملدرآمد کررہی ہے۔ کیونکہ حکومتی ملکیت میں کام کرنے والی ڈیسکوز کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے حکومت کو سالانہ 300 ارب روپے سے زائد مالیت بجلی چوری کا سامنا ہے جس کی وجہ سے 2800 ارب سے زائد کا گردشی قرضہ حکومت کےلیے مسائل کھڑے کررہا ہے۔ اسی لیے حکومت پاکستان ڈٖیسکوز اور دیگر بجلی کے انفرااسٹرکچر کی فروخت کی بھی کاوشیں کررہی ہے تو ایسے میں ایک یوٹیلٹی جو پہلے ہی نجی شعبے کے زیر انتظام ہے، اس کو ہونے والا نقصان حکومتی خزانے کے بجائے کمپنی کے سرمایہ کاروں کو متاثر کرتا ہے۔ ایسے میں نجی شعبے کی یوٹیلٹی کو کون سی حکومت قومیانا چاہے گی۔
اس تمام صورتحال میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے کے الیکٹرک لائسنس کی منسوخی کا مطالبہ ایک سیاسی چال اور عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ عوام کو بجلی کے بھاری بلوں سے نجات دلانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ کے الیکٹرک کے لائسنس کو غیر استثنیٰ اجرا کے ساتھ شہر میں مقابلے کی فضا بنائی جائے تاکہ عوام کو بجلی کی فراہمی میں بہتری آسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔