نیا افغان صدر کون ہوگا
عبداﷲ عبداﷲ اور اشرف غنی میں فیصلہ کن معرکے کا طبل بج گیا
فغانستان میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوچکی ہے اور بے چینی سے نتائج کا اعلان سننے کے منتظر لوگوں کو یہ خبر ملی ہے کہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار فیصلہ کن برتری حاصل نہیں کرسکا، یعنی کسی بھی امیدوار کو مجموعی ووٹوں کا 50 فی صد حصہ نہیں ملا۔
عبوری نتائج کے مطابق عبداﷲ عبداﷲ نے سب سے زیادہ 44.9 فی صد ووٹ حاصل کیے جب کہ اشرف غنی 31.5 فی صد ووٹ حاصل کرسکے۔ اب صدارتی انتخاب کے دوسرے اور حتمی مرحلے میں ان دونوں شخصیات کے درمیان ماہ مئی کے اواخر یا جون کے اوائل میں فیصلہ کن معرکہ ہوگا۔ پہلے مرحلے کے انتخابی نتائج کا باقاعدہ سرکاری و حتمی اعلان 14 مئی کو متوقع ہے۔
صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں حصہ لینے والے دونوں امیدواروں یعنی عبداﷲعبداﷲ اور اشرف غنی نے انتخابی نتائج پر الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے عبداﷲ عبداﷲ نے تو یہاں تک کہہ دیا،''اگر ملک میں دوبارہ امن وامان کی صورت حال پیدا ہوئی تو اس کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر عاید ہوگی۔ ہم انتخابات کے دوسرے مرحلے سے خوفزدہ نہیں ہیں، الیکشن میں دھاندلی نہ ہوئی تو جیت ہمارا مقدر ہو گی، ناقص انتظامات پر الیکشن کمیشن کو عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔'' اشرف غنی نے بھی کسی بھی امیدوار کے اکثریت حاصل نہ کرنے کے نتیجے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
عالمی حالات و واقعات کے تناظر میں بھی افغانستان کے ان انتخابات کو دنیا بھر میں توجہ حاصل رہی ہے اور اب عالمی سیاسی حلقے اور تجزیہ نگار صدارتی الیکشن کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ دوسری جانب افغان عوام کو بھی انتظار ہے کہ ملک کا نیا سربراہ مملکت کون ہوگا؟ اور کون کابل میں بیٹھ کر کس طرح افغان عوام کے مصائب اور برسوں سے رستے زخموں پر مرہم رکھ سکے گا؟ ان صدارتی انتخابات میں کوئی بھی جیتے لیکن یہ بات طے ہے کہ افغانستان کا نیا سربراہ مبارکباد کے ساتھ مسائل اور چیلینجوں کا ڈھیر بھی وصول کرے گا۔ غیرملکی افواج کے ملک سے انخلا کے بعد افغان حکومت اور نئے صدر کا اصل امتحان شروع ہوگا، کیوںکہ مختلف قبائل میں مفاہمت و اتحاد، مختلف گروہوں کے آپس کے اختلافات کو ختم کرانا، ان کے مطالبات کو ماننا یا نہ ماننا، طالبان کو سیاسی طور پر ساتھ لے کر چلنا اور عالمی دباؤ کا مقابلہ کرنا ایسے چیلنیج ہیں جن کا سامنا کرنے کے لیے ہمت ، جرأت اور دوراندیشی کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے صدارتی انتخابات کو اس لیے بھی بہت اہمیت دی جارہی ہے کیوںکہ یہ افغانستان کی تاریخ کے شاید سب سے پرامن انتخابات ثابت ہوئے ہیں۔ اس بار11 امیدواروں نے مملکت کی ذمے داریاں سنبھالنے کے عزم کے ساتھ صدارت الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ انہوں نے جلسوں میں عوام کے سامنے روشن مستقبل، حالات کی بہتری اور ترقی و خوش حالی کے وعدے کیے تھے۔ 3 امیدواروں کو شروع ہی سے کافی مقبولیت حاصل رہی، ان میں عبداﷲ عبداﷲ، اشرف غنی اور زلمے رسول شامل ہیں۔ ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں کیوںکہ افغانستان میں صدارتی انتخابات کا طریقۂ کار کچھ اس طرح کا ہے کہ نئے صدر کے حتمی انتخاب میں کئی ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق صدارتی الیکشن کا ٹرن آؤٹ 2009 کے انتخابات کے مقابلے میں بہت زیادہ رہا۔ خاص طور پر مجموعی ووٹوں میں سے36 فی صد خواتین کے تھے، جو جنگ و جدل اور خواتین کے استحصال کی کہانیاں بیان کرتے معاشرے میں بہت حوصلہ افزا خبر ہے۔
افغان صدارتی انتخابات کا انعقاد 2 مراحل میں ہوتا ہے، کسی بھی امیدوار کو کام یابی کے لیے 50 فی صد سے زاید ووٹ لینا ہوتے ہیں، لیکن اگر ایسا نہ ہوسکے اور عوام کی رائے مختلف امیدواروں کے درمیان منقسم ہوجائے تو پھر سب سے زیادہ ووٹ لینے والے پہلے 2 امیدواروں کے درمیان الیکشن کا دوسرا راؤنڈ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 5 اپریل کو ووٹنگ کے باوجود انتخابی مراحل کا سلسلہ طوالت اختیار کرسکتا ہے۔ ملک کے دوردراز علاقوں سے بیلٹ پیپروں کی واپسی، گنتی اور دیگر عوام کی وجہ سے خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ نئے صدر کا اعلان مئی کے وسط تک ہی ممکن ہوگا۔ مئی ہی میں حامد کرزئی عہدہ صدارت سے سبکدوش ہوں گے۔
آخری دونوں امیدواروں کے درمیان انتخابی جنگ کم ازکم 6 ہفتے طویل ہوگی، لیکن اس کا دورانیہ بڑھ بھی سکتا ہے کیوںکہ افغانستان کے غیریقینی حالات کی وجہ سے کوئی بھی بڑا حادثہ یا مختلف گروپوں میں تصادم سارے عمل کو کچھ عرصے کے لیے روک بھی سکتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان اور افغان عوام کو نیا صدر جولائی یا اگست تک ہی ملے گا۔
قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے بتاتے چلیں کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات کی نگرانی آزاد الیکشن کمیشن کرتا ہے اور انتخابات کے حوالے سے تحفظات و شکایات کا ازالہ بھی اسی کمیشن کی ذمے داری ہے۔ اسی الیکشن کمیشن نے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والے متعدد صدارتی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے تھے۔ گوکہ مختلف حلقوں کی جانب سے الیکشن کمیشن پر تنقید بھی ہوتی رہی لیکن الیکشن کمیشن نے اپنا کام کیا اور نئے صدر کے اعلان تک کمیشن کو اپنا کام جاری رکھنا ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق افغانستان کے تقریبا ً 3 کروڑ (30 ملین) افراد میں سے ایک کروڑ 20 لاکھ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ قانون کے مطابق الیکشن میں اپنے رائے کا اظہار کرنے اور اپنی پسندیدہ شخصیت کو ووٹ دینے کے لیے ہر کسی کے پاس ووٹر رجسٹریشن کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم مختلف رپورٹوں اور تجزیوں کے مطابق افغان ووٹروں کے لیے ووٹر رجسٹریشن کارڈ کا نظام جامع نہیں ہے اور اس میں مختلف طریقوں سے تبدیلیاں بھی لائی جاسکتی ہیں اور لائی گئی ہیں۔ نئے صدر کے لیے افغانستان کے طول و عرض میں 6,845ووٹنگ کے مراکز قائم کیے گئے تھے، حکام کے مطابق ووٹنگ کے دن ان میں سے 95 فی صد فعال تھے۔
یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ صدارتی انتخابات کی مہم شروع ہوتے ہی ملک کے مختلف حصوں میں ووٹر رجسٹریشن کارڈ فروخت بھی کیے گئے۔ اس حوالے سے خواتین کے ووٹر کارڈز کو مختلف عناصر نے من پسند نتائج کے لیے استعمال کیا، کیوںکہ خواتین کے ووٹر کارڈز پر تصاویر نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے ان میں تبدیلی لانا آسان ہے، اگر کسی نے دھاندلی کرنی ہو تو خواتین کے ووٹرز کارڈ پر پہلے کارروائی کی جاتی ہے۔ قبائلی نظام اور مختلف گروپوں میں بٹے ملک میں ایسی کارروائیاں معمول ہی سمجھی جاتی ہیں ، حکومتی رٹ برقرار رکھنے کے دعوے اپنی جگہ لیکن افغانستان میں اس دعوے کو عملہ جامہ پہنانا آسان نہیں۔
افغانستان میں عام انتخابات کا مرحلہ ہو یا صدارتی الیکشن کا وقت، ووٹروں کو ایک ووٹ ڈالنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، ووٹروں کے لیے مشکلات اور چیلینجوں کا سمندر عبور کیے بغیر ووٹ ڈالنا آسان نہیں ہوتا۔ دور دراز اور دشوارگزار علاقوں سے گزر کر پونگ اسٹیشنوں تک آنا اور حق رائے دہی استعمال کرنا ہزاروں افغانوں کے لیے بہت مشکل ہے۔ انھیں مختلف سیاسی گروپوں کی پسند و ناپسند کا بھی شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ امن و امان کی دگرگوں صورت حال بھی ہر افغان مرد و خواتین کے لیے پریشان کن ہے، جہاں کہیں بھی کسی بھی وقت کوئی ناخوش گوار واقعہ، فائرنگ، دھماکوں یا نیٹو کے حملوں کی صورت میں ممکن ہے۔ سب سے اہم رکاوٹ طالبان کی جانب سے الیکشن کو وقت ضائع کرنے کے مترادف قرار دینا تھا۔
اس صورت حال میں اگر بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے ہوں تو اسے افغان حکام کی کام یابی ہی کہا جاسکتا ہے، لیکن اس کا فیصلہ انتخابی نتائج سامنے آنے پر ہی ہوگا کہ ٹرن آؤٹ کیا رہا؟ گوکہ صدارتی انتخابی مرحلے کو پر امن انداز میں یقینی بنانے کے لیے افغان فورسز ہی ہراول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہیں تاہم انھیں غیرملکی افواج کی بھی حمایت حاصل رہی۔ خوف کے ماحول میں صحرائی و پہاڑی علاقوں میں بیلٹ باکس بھیجنا، ووٹنگ کرانا، عملے کی آمدورفت، ووٹروں اور انتخابی عملے کا تحفظ، بیلٹ پیپروں کی بحفاظت واپسی یقینی طور پر بڑا کام ہے۔
افغان صدارتی انتخابات کے آخری مرحلے میں مقابلہ عبداﷲ عبداﷲ اور اشرف غنی کے درمیان ہوگا، قارئین کے لیے ان کا مختصر تعارف پیش کیا جارہا ہے۔ نئے افغان صدر کے لیے سب سے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آنے والے 54سالہ عبداﷲ عبداﷲ افغان سیاست میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد 2001 سے 2005 کے عرصے میں وزیرخارجہ کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں اور افغانستان کے حالات و واقعات سے مکمل آگاہی رکھنے کے ساتھ عالمی سطح پر تعلقات کی بہتری کے رموز سے بھی آگاہ ہیں۔ افغان وزیرخارجہ کی حیثیت سے انھوں نے تقریباً تمام عالمی فورمز پر افغانستان کے موقف کو بحسن و خوبی پیش کیا۔ 2009 میں انھوں نے افغان صدر کا الیکشن لڑا تھا اور 30.5 فی صد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے، لیکن انھوں نے الیکشن کے حتمی مرحلے میں شرکت سے انکار کردیا تھا، ان کا مؤقف تھا کہ انتخابی عمل میں زبردست دھاندلی ہوئی ہے۔ عبداﷲ عبداﷲ شمالی اتحاد کے احد شاہ مسعود کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔
2010 میں عبداﷲ عبداﷲ نے بڑا اپوزیشن اتحاد تشکیل دیا اور مختلف مواقع پر اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے رہے۔ عبداﷲ عبداﷲ نے ڈاکٹر آف میڈیسن کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر کام یاب ہوگئے تو وہ سیاسی و قبائلی تنازعات، جنگ و جدل اور مختلف دھڑوں میں اختلافات کے باعث افغانستان کو لگنے والے زخموں پر کس طرح مرہم رکھتے ہیں۔ مختلف غیرملکی سروے رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اب تک کی گنتی کے مطابق عبداﷲ عبداﷲ نے مجموعی ووٹوں کا 41 فیصد حاصل کرلیا ہے اور وہ پہلی نمبر پر ہیں، ان کے قریب حریف اشرف غنی ہیں۔
عبداﷲ عبداﷲ کے حریف اشرف غنی 2009 کے صدارتی الیکشن میں چوتھے نمبر پر رہے تھے، افغان صدر حامد کرزئی کے بعد عبداﷲ عبداﷲ اور رمضان بشر دوست ان سے آگے تھے۔ اشرف غنی کا تعلق احمد زئی قبیلے سے ہے، وہ کابل یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں، جب کہ وزیرخزانہ کی حیثیت سے بھی انھوں نے خدمات انجام دیں۔ طالبان دور کے بعد افغان معیشت کی بحالی کے لیے ان کی کوششیں عالمی سطح پر تسلیم کی گئیں۔
55 سالہ اشرف غنی 1949 میں صوبے لوگر میں پیدا ہوئی، ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے بیروت کی امریکی یونیورسٹی اور امریکا میں باقی تعلیمی سفر طے کیا۔ وہ ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ میں بھی مختلف عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔ 24 سال طویل عرصہ بیرون ملک گزارنے کے بعد وہ 2001 میں واپس افغانستان آئے اور صدر کرزئی کے چیف ایڈوائزر بن گئے۔ اس حیثیت میں وہ افغان لویہ جرگہ کی تیاری میں مصروف رہے، جس نے صدر کرزئی کے انتخاب اور افغانستان کے آئین کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔ 2006 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے بعد بعض مغربی اخبارات و جرائد نے اشرف غنی کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے لیے موزوں قرار دیا تھا اور تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ اگر اشرف غنی اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری ہوجائیں تو یہ عالمی ادارے کے لیے بھی بہتر ہوگا۔
انھیں 2003 میں ایشیا کے بہترین وزیرخارجہ کا بھی ایوارڈ ملا جو ان کی موثر حکمت عملی، پالیسیوں اور فیصلوں کا اعتراف تھا۔افغانستان کی معاشی صورت حال کی بہتری اور ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے اشرف غنی نے بہت سے منصوبے اور پالیسیاں تیار کیں۔ اگر وہ افغان صدر بن گئے تو خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے عالمی رابطوں کے باعث ملکی حیثیت کی بہتری میں نمایاں کام کرسکیں گے۔ وہ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ دوبارہ افغانستان آئے اور قومی سیاست میں سرگرم کردار ادا کیا۔ مغربی رسائل و جرائد میں ان کے درجنوں مضامین ان کی قابلیت و تجربے کا بھرپور اعتراف ہیں جنھیں عالمی پذیرائی بھی ملی۔ لویہ جرگہ کے معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے بھی زلمے رسول نے بے حد محنت کی۔ 2002 میں صدر کرزئی نے انھیں سول ایوی ایشن کی وزارت سونپی۔
ان تینوں اہم امیدواروں کے علاوہ قیوم کرزئی، نادر نعیم، عبدالرسول سیاف، گل آغا شیر زئی و دیگر بھی صدارتی دوڑ میں شریک تھے، انھوں نے بھی انتخابی مہم میں عوام کے بھرپور اعتماد کے اعلانات اور دعوے کیے تھے لیکن سیاسی تجربہ کار ابتدا ہی سے عبداﷲ عبداﷲ، اشرف غنی اور زلمے رسول کو مضبوط امیدوار قرار دے رہے تھے۔
افغانستان کو امریکی اور نیٹو افواج کے آنے سے بھی مسائل کا سامنا تھا اور اب غیرملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد بھی افغان منظرنامہ بہت سی مشکلات، پیچیدہ مسائل اور ان گنت تنازعات کی تصویر دکھارہا ہے۔ یہ نئے افغان صدر کی سیاسی بصیرت، سوجھ بوجھ، دوراندیشی، تحمل و برداشت اور اصول پسندی کا امتحان ہوگاکہ وہ ملک کو قبائلی تنازعات سے نکال کر پرامن افغانستان کی بنیاد ڈالے۔ نئے افغان صدر کا منصب عبداﷲ عبداﷲ سنبھالیں یا اشرف غنی، ان کو یہ بھی طے کرنا ہے کہ انتخابات اور جمہوریت کے مخالف طالبان کو کس طرح سیاسی و قومی دھارے میں شامل کیا جائے، تاکہ ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوسکے اور ہر افغانی سکھ کا سانس لے سکے۔ اب دنیا بھر کی نظریں عبداﷲ عبداﷲ اور اشرف غنی پر جمی ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ان میں سے کون افغان عوام کا اعتماد حاصل کرکے کابل کے صدارتی محل میں پہنچتا ہے اور وہاں سے افغان عوام کے بہتر حال اور پُرامن مستقبل کے لیے کیا پالیسیاں اختیار کرتا ہے؟ اور کیسے فیصلے کرتا ہے؟
عبوری نتائج کے مطابق عبداﷲ عبداﷲ نے سب سے زیادہ 44.9 فی صد ووٹ حاصل کیے جب کہ اشرف غنی 31.5 فی صد ووٹ حاصل کرسکے۔ اب صدارتی انتخاب کے دوسرے اور حتمی مرحلے میں ان دونوں شخصیات کے درمیان ماہ مئی کے اواخر یا جون کے اوائل میں فیصلہ کن معرکہ ہوگا۔ پہلے مرحلے کے انتخابی نتائج کا باقاعدہ سرکاری و حتمی اعلان 14 مئی کو متوقع ہے۔
صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں حصہ لینے والے دونوں امیدواروں یعنی عبداﷲعبداﷲ اور اشرف غنی نے انتخابی نتائج پر الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے عبداﷲ عبداﷲ نے تو یہاں تک کہہ دیا،''اگر ملک میں دوبارہ امن وامان کی صورت حال پیدا ہوئی تو اس کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر عاید ہوگی۔ ہم انتخابات کے دوسرے مرحلے سے خوفزدہ نہیں ہیں، الیکشن میں دھاندلی نہ ہوئی تو جیت ہمارا مقدر ہو گی، ناقص انتظامات پر الیکشن کمیشن کو عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔'' اشرف غنی نے بھی کسی بھی امیدوار کے اکثریت حاصل نہ کرنے کے نتیجے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
عالمی حالات و واقعات کے تناظر میں بھی افغانستان کے ان انتخابات کو دنیا بھر میں توجہ حاصل رہی ہے اور اب عالمی سیاسی حلقے اور تجزیہ نگار صدارتی الیکشن کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ دوسری جانب افغان عوام کو بھی انتظار ہے کہ ملک کا نیا سربراہ مملکت کون ہوگا؟ اور کون کابل میں بیٹھ کر کس طرح افغان عوام کے مصائب اور برسوں سے رستے زخموں پر مرہم رکھ سکے گا؟ ان صدارتی انتخابات میں کوئی بھی جیتے لیکن یہ بات طے ہے کہ افغانستان کا نیا سربراہ مبارکباد کے ساتھ مسائل اور چیلینجوں کا ڈھیر بھی وصول کرے گا۔ غیرملکی افواج کے ملک سے انخلا کے بعد افغان حکومت اور نئے صدر کا اصل امتحان شروع ہوگا، کیوںکہ مختلف قبائل میں مفاہمت و اتحاد، مختلف گروہوں کے آپس کے اختلافات کو ختم کرانا، ان کے مطالبات کو ماننا یا نہ ماننا، طالبان کو سیاسی طور پر ساتھ لے کر چلنا اور عالمی دباؤ کا مقابلہ کرنا ایسے چیلنیج ہیں جن کا سامنا کرنے کے لیے ہمت ، جرأت اور دوراندیشی کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے صدارتی انتخابات کو اس لیے بھی بہت اہمیت دی جارہی ہے کیوںکہ یہ افغانستان کی تاریخ کے شاید سب سے پرامن انتخابات ثابت ہوئے ہیں۔ اس بار11 امیدواروں نے مملکت کی ذمے داریاں سنبھالنے کے عزم کے ساتھ صدارت الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ انہوں نے جلسوں میں عوام کے سامنے روشن مستقبل، حالات کی بہتری اور ترقی و خوش حالی کے وعدے کیے تھے۔ 3 امیدواروں کو شروع ہی سے کافی مقبولیت حاصل رہی، ان میں عبداﷲ عبداﷲ، اشرف غنی اور زلمے رسول شامل ہیں۔ ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں کیوںکہ افغانستان میں صدارتی انتخابات کا طریقۂ کار کچھ اس طرح کا ہے کہ نئے صدر کے حتمی انتخاب میں کئی ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق صدارتی الیکشن کا ٹرن آؤٹ 2009 کے انتخابات کے مقابلے میں بہت زیادہ رہا۔ خاص طور پر مجموعی ووٹوں میں سے36 فی صد خواتین کے تھے، جو جنگ و جدل اور خواتین کے استحصال کی کہانیاں بیان کرتے معاشرے میں بہت حوصلہ افزا خبر ہے۔
افغان صدارتی انتخابات کا انعقاد 2 مراحل میں ہوتا ہے، کسی بھی امیدوار کو کام یابی کے لیے 50 فی صد سے زاید ووٹ لینا ہوتے ہیں، لیکن اگر ایسا نہ ہوسکے اور عوام کی رائے مختلف امیدواروں کے درمیان منقسم ہوجائے تو پھر سب سے زیادہ ووٹ لینے والے پہلے 2 امیدواروں کے درمیان الیکشن کا دوسرا راؤنڈ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 5 اپریل کو ووٹنگ کے باوجود انتخابی مراحل کا سلسلہ طوالت اختیار کرسکتا ہے۔ ملک کے دوردراز علاقوں سے بیلٹ پیپروں کی واپسی، گنتی اور دیگر عوام کی وجہ سے خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ نئے صدر کا اعلان مئی کے وسط تک ہی ممکن ہوگا۔ مئی ہی میں حامد کرزئی عہدہ صدارت سے سبکدوش ہوں گے۔
آخری دونوں امیدواروں کے درمیان انتخابی جنگ کم ازکم 6 ہفتے طویل ہوگی، لیکن اس کا دورانیہ بڑھ بھی سکتا ہے کیوںکہ افغانستان کے غیریقینی حالات کی وجہ سے کوئی بھی بڑا حادثہ یا مختلف گروپوں میں تصادم سارے عمل کو کچھ عرصے کے لیے روک بھی سکتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان اور افغان عوام کو نیا صدر جولائی یا اگست تک ہی ملے گا۔
قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے بتاتے چلیں کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات کی نگرانی آزاد الیکشن کمیشن کرتا ہے اور انتخابات کے حوالے سے تحفظات و شکایات کا ازالہ بھی اسی کمیشن کی ذمے داری ہے۔ اسی الیکشن کمیشن نے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والے متعدد صدارتی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے تھے۔ گوکہ مختلف حلقوں کی جانب سے الیکشن کمیشن پر تنقید بھی ہوتی رہی لیکن الیکشن کمیشن نے اپنا کام کیا اور نئے صدر کے اعلان تک کمیشن کو اپنا کام جاری رکھنا ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق افغانستان کے تقریبا ً 3 کروڑ (30 ملین) افراد میں سے ایک کروڑ 20 لاکھ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ قانون کے مطابق الیکشن میں اپنے رائے کا اظہار کرنے اور اپنی پسندیدہ شخصیت کو ووٹ دینے کے لیے ہر کسی کے پاس ووٹر رجسٹریشن کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم مختلف رپورٹوں اور تجزیوں کے مطابق افغان ووٹروں کے لیے ووٹر رجسٹریشن کارڈ کا نظام جامع نہیں ہے اور اس میں مختلف طریقوں سے تبدیلیاں بھی لائی جاسکتی ہیں اور لائی گئی ہیں۔ نئے صدر کے لیے افغانستان کے طول و عرض میں 6,845ووٹنگ کے مراکز قائم کیے گئے تھے، حکام کے مطابق ووٹنگ کے دن ان میں سے 95 فی صد فعال تھے۔
یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ صدارتی انتخابات کی مہم شروع ہوتے ہی ملک کے مختلف حصوں میں ووٹر رجسٹریشن کارڈ فروخت بھی کیے گئے۔ اس حوالے سے خواتین کے ووٹر کارڈز کو مختلف عناصر نے من پسند نتائج کے لیے استعمال کیا، کیوںکہ خواتین کے ووٹر کارڈز پر تصاویر نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے ان میں تبدیلی لانا آسان ہے، اگر کسی نے دھاندلی کرنی ہو تو خواتین کے ووٹرز کارڈ پر پہلے کارروائی کی جاتی ہے۔ قبائلی نظام اور مختلف گروپوں میں بٹے ملک میں ایسی کارروائیاں معمول ہی سمجھی جاتی ہیں ، حکومتی رٹ برقرار رکھنے کے دعوے اپنی جگہ لیکن افغانستان میں اس دعوے کو عملہ جامہ پہنانا آسان نہیں۔
افغانستان میں عام انتخابات کا مرحلہ ہو یا صدارتی الیکشن کا وقت، ووٹروں کو ایک ووٹ ڈالنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، ووٹروں کے لیے مشکلات اور چیلینجوں کا سمندر عبور کیے بغیر ووٹ ڈالنا آسان نہیں ہوتا۔ دور دراز اور دشوارگزار علاقوں سے گزر کر پونگ اسٹیشنوں تک آنا اور حق رائے دہی استعمال کرنا ہزاروں افغانوں کے لیے بہت مشکل ہے۔ انھیں مختلف سیاسی گروپوں کی پسند و ناپسند کا بھی شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ امن و امان کی دگرگوں صورت حال بھی ہر افغان مرد و خواتین کے لیے پریشان کن ہے، جہاں کہیں بھی کسی بھی وقت کوئی ناخوش گوار واقعہ، فائرنگ، دھماکوں یا نیٹو کے حملوں کی صورت میں ممکن ہے۔ سب سے اہم رکاوٹ طالبان کی جانب سے الیکشن کو وقت ضائع کرنے کے مترادف قرار دینا تھا۔
اس صورت حال میں اگر بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے ہوں تو اسے افغان حکام کی کام یابی ہی کہا جاسکتا ہے، لیکن اس کا فیصلہ انتخابی نتائج سامنے آنے پر ہی ہوگا کہ ٹرن آؤٹ کیا رہا؟ گوکہ صدارتی انتخابی مرحلے کو پر امن انداز میں یقینی بنانے کے لیے افغان فورسز ہی ہراول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہیں تاہم انھیں غیرملکی افواج کی بھی حمایت حاصل رہی۔ خوف کے ماحول میں صحرائی و پہاڑی علاقوں میں بیلٹ باکس بھیجنا، ووٹنگ کرانا، عملے کی آمدورفت، ووٹروں اور انتخابی عملے کا تحفظ، بیلٹ پیپروں کی بحفاظت واپسی یقینی طور پر بڑا کام ہے۔
افغان صدارتی انتخابات کے آخری مرحلے میں مقابلہ عبداﷲ عبداﷲ اور اشرف غنی کے درمیان ہوگا، قارئین کے لیے ان کا مختصر تعارف پیش کیا جارہا ہے۔ نئے افغان صدر کے لیے سب سے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آنے والے 54سالہ عبداﷲ عبداﷲ افغان سیاست میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد 2001 سے 2005 کے عرصے میں وزیرخارجہ کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں اور افغانستان کے حالات و واقعات سے مکمل آگاہی رکھنے کے ساتھ عالمی سطح پر تعلقات کی بہتری کے رموز سے بھی آگاہ ہیں۔ افغان وزیرخارجہ کی حیثیت سے انھوں نے تقریباً تمام عالمی فورمز پر افغانستان کے موقف کو بحسن و خوبی پیش کیا۔ 2009 میں انھوں نے افغان صدر کا الیکشن لڑا تھا اور 30.5 فی صد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے، لیکن انھوں نے الیکشن کے حتمی مرحلے میں شرکت سے انکار کردیا تھا، ان کا مؤقف تھا کہ انتخابی عمل میں زبردست دھاندلی ہوئی ہے۔ عبداﷲ عبداﷲ شمالی اتحاد کے احد شاہ مسعود کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔
2010 میں عبداﷲ عبداﷲ نے بڑا اپوزیشن اتحاد تشکیل دیا اور مختلف مواقع پر اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے رہے۔ عبداﷲ عبداﷲ نے ڈاکٹر آف میڈیسن کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر کام یاب ہوگئے تو وہ سیاسی و قبائلی تنازعات، جنگ و جدل اور مختلف دھڑوں میں اختلافات کے باعث افغانستان کو لگنے والے زخموں پر کس طرح مرہم رکھتے ہیں۔ مختلف غیرملکی سروے رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اب تک کی گنتی کے مطابق عبداﷲ عبداﷲ نے مجموعی ووٹوں کا 41 فیصد حاصل کرلیا ہے اور وہ پہلی نمبر پر ہیں، ان کے قریب حریف اشرف غنی ہیں۔
عبداﷲ عبداﷲ کے حریف اشرف غنی 2009 کے صدارتی الیکشن میں چوتھے نمبر پر رہے تھے، افغان صدر حامد کرزئی کے بعد عبداﷲ عبداﷲ اور رمضان بشر دوست ان سے آگے تھے۔ اشرف غنی کا تعلق احمد زئی قبیلے سے ہے، وہ کابل یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں، جب کہ وزیرخزانہ کی حیثیت سے بھی انھوں نے خدمات انجام دیں۔ طالبان دور کے بعد افغان معیشت کی بحالی کے لیے ان کی کوششیں عالمی سطح پر تسلیم کی گئیں۔
55 سالہ اشرف غنی 1949 میں صوبے لوگر میں پیدا ہوئی، ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے بیروت کی امریکی یونیورسٹی اور امریکا میں باقی تعلیمی سفر طے کیا۔ وہ ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ میں بھی مختلف عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔ 24 سال طویل عرصہ بیرون ملک گزارنے کے بعد وہ 2001 میں واپس افغانستان آئے اور صدر کرزئی کے چیف ایڈوائزر بن گئے۔ اس حیثیت میں وہ افغان لویہ جرگہ کی تیاری میں مصروف رہے، جس نے صدر کرزئی کے انتخاب اور افغانستان کے آئین کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔ 2006 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے بعد بعض مغربی اخبارات و جرائد نے اشرف غنی کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے لیے موزوں قرار دیا تھا اور تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ اگر اشرف غنی اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری ہوجائیں تو یہ عالمی ادارے کے لیے بھی بہتر ہوگا۔
انھیں 2003 میں ایشیا کے بہترین وزیرخارجہ کا بھی ایوارڈ ملا جو ان کی موثر حکمت عملی، پالیسیوں اور فیصلوں کا اعتراف تھا۔افغانستان کی معاشی صورت حال کی بہتری اور ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے اشرف غنی نے بہت سے منصوبے اور پالیسیاں تیار کیں۔ اگر وہ افغان صدر بن گئے تو خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے عالمی رابطوں کے باعث ملکی حیثیت کی بہتری میں نمایاں کام کرسکیں گے۔ وہ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ دوبارہ افغانستان آئے اور قومی سیاست میں سرگرم کردار ادا کیا۔ مغربی رسائل و جرائد میں ان کے درجنوں مضامین ان کی قابلیت و تجربے کا بھرپور اعتراف ہیں جنھیں عالمی پذیرائی بھی ملی۔ لویہ جرگہ کے معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے بھی زلمے رسول نے بے حد محنت کی۔ 2002 میں صدر کرزئی نے انھیں سول ایوی ایشن کی وزارت سونپی۔
ان تینوں اہم امیدواروں کے علاوہ قیوم کرزئی، نادر نعیم، عبدالرسول سیاف، گل آغا شیر زئی و دیگر بھی صدارتی دوڑ میں شریک تھے، انھوں نے بھی انتخابی مہم میں عوام کے بھرپور اعتماد کے اعلانات اور دعوے کیے تھے لیکن سیاسی تجربہ کار ابتدا ہی سے عبداﷲ عبداﷲ، اشرف غنی اور زلمے رسول کو مضبوط امیدوار قرار دے رہے تھے۔
افغانستان کو امریکی اور نیٹو افواج کے آنے سے بھی مسائل کا سامنا تھا اور اب غیرملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد بھی افغان منظرنامہ بہت سی مشکلات، پیچیدہ مسائل اور ان گنت تنازعات کی تصویر دکھارہا ہے۔ یہ نئے افغان صدر کی سیاسی بصیرت، سوجھ بوجھ، دوراندیشی، تحمل و برداشت اور اصول پسندی کا امتحان ہوگاکہ وہ ملک کو قبائلی تنازعات سے نکال کر پرامن افغانستان کی بنیاد ڈالے۔ نئے افغان صدر کا منصب عبداﷲ عبداﷲ سنبھالیں یا اشرف غنی، ان کو یہ بھی طے کرنا ہے کہ انتخابات اور جمہوریت کے مخالف طالبان کو کس طرح سیاسی و قومی دھارے میں شامل کیا جائے، تاکہ ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوسکے اور ہر افغانی سکھ کا سانس لے سکے۔ اب دنیا بھر کی نظریں عبداﷲ عبداﷲ اور اشرف غنی پر جمی ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ان میں سے کون افغان عوام کا اعتماد حاصل کرکے کابل کے صدارتی محل میں پہنچتا ہے اور وہاں سے افغان عوام کے بہتر حال اور پُرامن مستقبل کے لیے کیا پالیسیاں اختیار کرتا ہے؟ اور کیسے فیصلے کرتا ہے؟