SIUT کا ڈاکیو ڈراما۔۔۔۔’’زندگی‘‘
’’زندگی‘‘ کہانی ہے شہر قائد کے ایک نوجوان کی۔۔۔ جو پاکستان میں اعضا کا پہلا عطیہ دےکردوسروں کو جینے کا ڈھنگ سکھا گیا۔
میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے آغا حسن عابدی آڈیٹوریم میں بیٹھا تھا۔۔۔ اس لمحے ہر آنکھ نم تھی، ہونی بھی چاہیے تھی، وہ مناظر ہی کچھ ایسے تھے۔
حاضرین سے بھرے آڈیٹوریم میں پردے پر ابھرتے منظر کچھ ایسی داستاں کہہ رہے تھے کہ کسی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تھی، تو کسی کی دبی دبی سسکیاں ماحول کو افسردہ کر رہی تھیں، لیکن یہ افسردگی ایسی نہیں تھی، جو زندگی کی حرارت سے خالی ہو۔ یہ ایسی افسردگی تھی جو سب کو انسانوں سے پیار کرنے ان کے کام آنے پر اکسائے، ایسی جاںفزا افسردگی۔ اسکرین پر روشن ہوتے ''زندگی'' کے مناظر ایک ایسی تاب ناک زندگی کی کہانی سنارہے تھے جس نے موت کو شکست دے کر امر ہوجانے کا تہیہ کر لیا تھا۔ یہ کہانی تھی شہر قائد کے ایک نوجوان کی۔۔۔ جو پاکستان میں اپنے جسمانی اعضا کا پہلا عطیہ کنندہ ہے اور جو دوسروں کو جینے کا ڈھنگ سکھا گیا۔
طب کی دنیا میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف امراض کے علاج میں جدت آتی رہی ہے، لیکن ناکارہ ہونے والے مختلف اعضا کی پیوند کاری نے موت کے منہ میں جانے والے لاکھوں مریضوں کو جینے کی ایک نئی امید دلائی۔ ہمارے بہت سے اعضا ایسے ہیں، جن پر ہماری سانسوں کا دارومدار بھی ہے۔ اس لیے جیتے جی یہ اعضا نہیں لیے جا سکتے، اس کے لیے بعد از مرگ اعضا عطیہ کرنے کا تصور سامنے آیا کہ انسان کے انتقال کے بعد اس کے جو اعضا ٹھیک حالت میں ہوں، وہ کسی دوسرے مریض کو دے کر اس کی زندگی بچائی جاسکے۔
سید نوید انور بعد ازمرگ اپنے اعضا عطیہ کرنے والے پہلے پاکستانی تھے۔ تین بہنوں کے یہ اکلوتے بھائی 25 اکتوبر 1998کو کراچی کی ایک سڑک پر ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے۔ ان کی موت کے بعد اہل خانہ نے ان کی اعضا عطیہ کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا۔ یوں ان کی آنکھیں اور گردے چار افراد کی زندگی میں جینے کی نئی امنگ لے کر آئے۔ آج 24 سالہ اس نوجوان کی اَلم ناک موت کے ذکر پر سب غم زدہ تھے، لیکن حاضرین کی آنکھوں سے رواں اشک اس بات کے گواہ تھے کہ آج بھی ہمارے دلوں میں انسانیت کا درد زندہ ہے۔۔۔ ہم میں سید نوید انور زندہ ہے۔ اپنے اعضا کے ذریعے دوسروں کی جان بچانے کا خوب صورت جذبہ!!
گزشتہ دنوں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کے آڈیٹوریم میں ''زندگی'' نامی دستاویزی تمثیل کے ذریعے سید نوید انور کی موت اور اس کے بعد اعضا عطیہ کرنے تک کے عمل کو نہایت متاثر کن تمثیل میں پیش کیا گیا۔ مختلف کرداروں نے حقیقی واقعات کو مکمل جزئیات کے ساتھ بخوبی ادا کیا۔ گھر کا اکلوتا لاڈلا سپوت۔۔۔ اچانک حادثہ اور پھر اس کی زندگی اور موت کی کش مکش سے اعضا عطیہ کرنے تک کے عمل کو حقیقت سے قریب ترین انداز میں دکھایا گیا کہ اس کا کوئی ناظر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
نوید انور کی آنکھیں اور گردے چار مختلف افراد کے کام آئے۔ اس وقت اعضا کی پیوندکاری کا کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اہل خانہ کو اپنے وکیل کی مدد بھی حاصل کرنا پڑی۔ نوید کے گردے واحد اور فرحان نامی دو مریضوں کو لگائے گئے، جب کہ آنکھیں بھی دو مختلف لوگوں کو عطیہ کی گئیں۔ یہ سب افراد اب نوید کے عطیے کے ذریعے ایک بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔
فلم کے آخر میں سید نوید انور کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ایک فرد کے 17 اعضا عطیہ کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ لوگ مختلف اعضا ناکارہ ہونے کی وجہ سے نہیں بچ پاتے، جن میں گردے، جگر، دل، پھیپھڑے اور لبلبے کے مریض شامل ہیں۔ یہ اعضا عطیہ کر کے ان کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
سید نوید انور کی بہن شازیہ نے کہا کہ ہم اپنے اکلوتے بھائی کی اس ناگہانی موت پر اپنی کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ اپنے کسی پیارے کے اعضا اس طرح عطیہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑے صبر اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن جب یہ پتا چلتا ہے کہ یہ عمل کسی کی زندگی بچا لے گا، تو آپ کے اندر ہمت آجاتی ہے۔
اعضا کی پیوند کاری سے آگاہی کا ذکر کرتے ہوئے شازیہ کا کہنا تھا کہ اُس وقت ان کی چھوٹی بہن طاہرہ، لیاقت نیشنل اسپتال میں تھیں، جہاں اعضا کی پیوند کاری پر ایک تقریب منعقد ہوئی، جس میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی بھی موجود تھے۔ ہم ان سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، اور اسی روز گھر میں ہم سب یہ بات کر رہے تھے کہ ہم اپنے اعضا عطیہ کر دیں گے۔ اس دوران بھائی بھی آیا اور اس نے کہا کہ میں بھی اپنی آنکھیں اور گردے وغیرہ عطیہ کردوں گا۔ اس واقعے کے ٹھیک تین، چار دن بعد یہ اندوہ ناک حادثہ پیش آگیا، جس سے ہم سب دہل کر رہ گئے، لیکن ہم نے اپنے مرحوم بھائی کی اعضا عطیہ کرنے کی خواہش پوری کی۔ کچھ رشتے داروں نے اس اقدام پر بہت زیادہ اعتراضات بھی کیے، ہمارے ابو نے ان تمام باتوں کا سامنا کیا اور کہا کہ قرآن کریم میں ہے کہ کسی ایک فرد کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا ہے۔ اس لیے آپ بھی اگر کسی ایک فرد کی جان بچا سکتے ہیں تو ضرور بچائیں۔
''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو میں شازیہ کا کہنا تھا کہ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلیں اور اپنا ہر عضو عطیہ کردیں۔ ہمارے سماج میں یہ ایک بہت حساس مسئلہ ہے، لوگوں کو اعضا عطیہ کرنے پر بہت زیادہ تحفظات ہیں۔ وہ اسے جائز نہیں سمجھتے، اسی لیے ہم اپنے بھائی کے انتقال کے بعد خاندان میں کسی اور کو اس کے لیے نہ کہہ سکے۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی کی جان بچانے کا عمل ہے، گناہ نہیں ہے۔ اب ہم سب بہنوں اور ہمارے بچوں نے بھی اپنے اعضا عطیہ کرنے کے لیے یہاں رجسٹریشن کروالی ہے۔ سب لوگوں کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے جان بچانے کے اس کارواں کا ساتھ دیں اور ان کے مدد گار بنیں۔ ایک فرد صرف 17 افراد کی جانیں نہیں بچاتا، بلکہ اس کے ذریعے اس سے وابستہ 17 خاندان بھی جی اٹھتے ہیں۔
ایس آئی یو ٹی کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اس موقع پر کہا کہ لوگوں کی زندگی دینے کے خواب کو تعبیر دینے میں حکومت سندھ گزشتہ 40 سال سے ہماری مددگار ہے۔ ماضی میں یہ انسان کا ایک خواب تھا کہ اس کے اعضا تبدیل کیے جا سکیں، لیکن آج اعضا کی پیوندکاری ایک حقیقت بن چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں اسپین اعضا کی پیوند کاری کے حوالے سے سب سے آگے ہے اور اب ایران میں بھی بہت تیزی سے اعضا عطیہ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ افراد مختلف اعضا ناکارہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان میں 25 ہزار گردے، 50 ہزار جگر اور 10ہزار دل کے مریض شامل ہیں۔ گردے کے مریضوں کی کچھ تعداد کو تو اپنے رشتے داروں کا گردہ مل جاتا ہے، لیکن دل، جگر اور لبلبے جیسے اعضا زندہ افراد عطیہ نہیں کر سکتے، لہٰذا اس کے لیے ان کی تبدیلی بعد ازمرگ عطیہ شدہ اعضا سے ہی کی جاتی ہے۔
''ایکسپریس'' سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اعضا کے عطیہ کرنے کے لیے لوگوں میں آگاہی کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں اس کام کی تحریک نہ ہونا اس ضمن میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس آگاہی کے لیے ذرایع ابلاغ نے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے، اب اسے مزید آگے بڑھانا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ لاہور سے آئی ہوئی معروف اداکارہ فریال گوہر، جن کی نم آنکھیں ان کے دکھ کی عکاس تھیں، نے بتایا کہ ان کے والد گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوکر صرف 46 سال کی عمر میں دنیا سے چلے گئے، کیوں کہ اس وقت ڈایالیسس کی سہولتیں نہیں تھی اور نہ ہی گردوں کی پیوندکاری کی جاتی تھی۔ اب اعضا کی پیوندکاری کا طریقہ موجود ہے، اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اعضا عطیہ کرنے کی طرف بھرپور توجہ دیں۔ ضرورت مندوں کے کام آنا انسان کا سب سے بڑا شرف ہے۔
تقریب کے بعد حاضرین کو دعوت دی گئی کہ وہ اسٹال پر موجود ''آرگن ڈونر'' فارم حاصل کر سکتے ہیں، تاکہ اپنے اعضا عطیہ کر کے کئی قیمتی زندگیاں بچا سکیں۔ اس موقع پر لوگوں کی بہت بڑی تعداد اعضا عطیہ کرنے کے حوالے سے معلومات حاصل کرتی نظر آئی۔ شرکا کو بتایا گیا کہ اعضا عطیہ کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ جسمانی اعضا صرف دماغی موت کی صورت میں عطیہ کیے جا سکتے ہیں، جب مریض وینٹی لیٹر پر رہا ہو۔ دماغی موت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دراصل ہمارا دماغ سانس لینے کے عمل میں مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے، جب کہ ہمارے دیگر اعضا ٹھیک ہیں۔
سماج کی فلاح اور دوسروں کی بہبود کے لیے لوگوں کا جمع ہونا ایک نیک شگون ہے۔ مسائل کی چکی میں پسے لوگوں کا جذبہ بابر ایاز ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ''جن لوگوں کو ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی چھو جائیں، وہ خود ہی چاہنے لگتے ہیں کہ دوسروں کے لیے کچھ کر جائیں۔'' یہ تقریب اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھی۔
''واحد کی آنکھوں میں نوید نظر آتا ہے''
ملتان سے تعلق رکھنے والے واحد نامی شخص کو سید نوید انور کی ایک آنکھ لگائی گئی۔ اس کے بعد نوید کے گھر والوں نے نہ صرف واحد کو اپنے گھر مدعو کیا، بلکہ اسے نوید کے گھر کے فرد کی سی حیثیت حاصل ہو گئی۔ نوید کے اہل خانہ کے بقول،''واحد کی آنکھوں میں ہمیں نوید نظر آتا ہے۔ ''
''زندگی'' بین الاقوامی فیسٹیول میں بھیجی جائے گی
20 منٹ کے دورانیے پر محیط متاثر کن ڈاکیومینٹری ''زندگی'' نجی ٹی وی چینل ''ہم'' کی روح رواں اور سینیر قلم کار سلطانہ صدیقی، اطہر وقار عظیم اور ریحان احمد نے تیار کی ہے۔ SIUT میں اس فلم کی رونمائی کے موقع پر ناظرین نے اسے بہت سراہا۔ اس موقع پر اطہر وقار عظیم نے اس فلم کو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھیجنے کا بھی اعلان کیا، جس سے ایک طرف پاکستان میں اعضا عطیہ کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی ہوگی، بلکہ ساتھ ہی دنیا بھر میں پاکستان کا ایک مثبت تاثر بھی اجاگر ہو گا۔
آٹھ بستروں سے وسیع وعریض سینٹر تک
سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کی ابتدا 1970 میں سول اسپتال میں یورولوجی ڈیپارٹمنٹ سے ہوئی۔ 1991 میں اس وسعت اختیار کرتے ہوئے شعبے کو ایک علیحدہ حیثیت دے دی گئی۔ یہاں ڈایالیسس کے علاوہ یومیہ دو گردوں کی پیوند کاری بھی کی جاتی ہے۔ 2003 میں یہاں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جگر کی تبدیلی کا آپریشن بھی کیا گیا۔ 2004 میں یہاں شعبہ اطفال کا آغاز کیا گیا۔ آٹھ بستروں سے شروع ہونے والا یہ ادارہ آج پاکستان کا سب سے بڑا کڈنی ڈایالیسس سینٹر ہے، جہاں مستحقین کو بلامعاوضہ علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
SIUT کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا شمار پاکستان کے نام وَر مسیحاؤں میں ہوتا ہے، جو بڑھتی عمر کے باوجود اپنے حوصلوں میں جواں ہیں۔ گردوں کی پیوند کاری کے ذریعے مریضوں کی زندگی بچانے کے بعد اب وہ دیگر جسمانی اعضا کی پیوند کاری کے لیے پرعزم ہیں، چاہتے ہیں کہ لوگ اپنے اعضا عطیہ کر کے ضرورت مند مریضوں کی زندگیاں بچانے میں مدد کریں۔ ایس آئی یو ٹی کو پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت 4 ہزار 800 سے زاید اعضا کی پیوند کاری کا فخر حاصل ہے۔ SIUT بلارنگ ونسل اور مذہب اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے۔ یہ ادارہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کوئی بھی فرد علاج کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث زندگی نہ ہارے۔ SIUT کے مراکز دیگر شہروں میں بھی قائم کیے جا رہے ہیں۔
حاضرین سے بھرے آڈیٹوریم میں پردے پر ابھرتے منظر کچھ ایسی داستاں کہہ رہے تھے کہ کسی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تھی، تو کسی کی دبی دبی سسکیاں ماحول کو افسردہ کر رہی تھیں، لیکن یہ افسردگی ایسی نہیں تھی، جو زندگی کی حرارت سے خالی ہو۔ یہ ایسی افسردگی تھی جو سب کو انسانوں سے پیار کرنے ان کے کام آنے پر اکسائے، ایسی جاںفزا افسردگی۔ اسکرین پر روشن ہوتے ''زندگی'' کے مناظر ایک ایسی تاب ناک زندگی کی کہانی سنارہے تھے جس نے موت کو شکست دے کر امر ہوجانے کا تہیہ کر لیا تھا۔ یہ کہانی تھی شہر قائد کے ایک نوجوان کی۔۔۔ جو پاکستان میں اپنے جسمانی اعضا کا پہلا عطیہ کنندہ ہے اور جو دوسروں کو جینے کا ڈھنگ سکھا گیا۔
طب کی دنیا میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف امراض کے علاج میں جدت آتی رہی ہے، لیکن ناکارہ ہونے والے مختلف اعضا کی پیوند کاری نے موت کے منہ میں جانے والے لاکھوں مریضوں کو جینے کی ایک نئی امید دلائی۔ ہمارے بہت سے اعضا ایسے ہیں، جن پر ہماری سانسوں کا دارومدار بھی ہے۔ اس لیے جیتے جی یہ اعضا نہیں لیے جا سکتے، اس کے لیے بعد از مرگ اعضا عطیہ کرنے کا تصور سامنے آیا کہ انسان کے انتقال کے بعد اس کے جو اعضا ٹھیک حالت میں ہوں، وہ کسی دوسرے مریض کو دے کر اس کی زندگی بچائی جاسکے۔
سید نوید انور بعد ازمرگ اپنے اعضا عطیہ کرنے والے پہلے پاکستانی تھے۔ تین بہنوں کے یہ اکلوتے بھائی 25 اکتوبر 1998کو کراچی کی ایک سڑک پر ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے۔ ان کی موت کے بعد اہل خانہ نے ان کی اعضا عطیہ کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا۔ یوں ان کی آنکھیں اور گردے چار افراد کی زندگی میں جینے کی نئی امنگ لے کر آئے۔ آج 24 سالہ اس نوجوان کی اَلم ناک موت کے ذکر پر سب غم زدہ تھے، لیکن حاضرین کی آنکھوں سے رواں اشک اس بات کے گواہ تھے کہ آج بھی ہمارے دلوں میں انسانیت کا درد زندہ ہے۔۔۔ ہم میں سید نوید انور زندہ ہے۔ اپنے اعضا کے ذریعے دوسروں کی جان بچانے کا خوب صورت جذبہ!!
گزشتہ دنوں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کے آڈیٹوریم میں ''زندگی'' نامی دستاویزی تمثیل کے ذریعے سید نوید انور کی موت اور اس کے بعد اعضا عطیہ کرنے تک کے عمل کو نہایت متاثر کن تمثیل میں پیش کیا گیا۔ مختلف کرداروں نے حقیقی واقعات کو مکمل جزئیات کے ساتھ بخوبی ادا کیا۔ گھر کا اکلوتا لاڈلا سپوت۔۔۔ اچانک حادثہ اور پھر اس کی زندگی اور موت کی کش مکش سے اعضا عطیہ کرنے تک کے عمل کو حقیقت سے قریب ترین انداز میں دکھایا گیا کہ اس کا کوئی ناظر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
نوید انور کی آنکھیں اور گردے چار مختلف افراد کے کام آئے۔ اس وقت اعضا کی پیوندکاری کا کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اہل خانہ کو اپنے وکیل کی مدد بھی حاصل کرنا پڑی۔ نوید کے گردے واحد اور فرحان نامی دو مریضوں کو لگائے گئے، جب کہ آنکھیں بھی دو مختلف لوگوں کو عطیہ کی گئیں۔ یہ سب افراد اب نوید کے عطیے کے ذریعے ایک بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔
فلم کے آخر میں سید نوید انور کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ایک فرد کے 17 اعضا عطیہ کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ لوگ مختلف اعضا ناکارہ ہونے کی وجہ سے نہیں بچ پاتے، جن میں گردے، جگر، دل، پھیپھڑے اور لبلبے کے مریض شامل ہیں۔ یہ اعضا عطیہ کر کے ان کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
سید نوید انور کی بہن شازیہ نے کہا کہ ہم اپنے اکلوتے بھائی کی اس ناگہانی موت پر اپنی کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ اپنے کسی پیارے کے اعضا اس طرح عطیہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑے صبر اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن جب یہ پتا چلتا ہے کہ یہ عمل کسی کی زندگی بچا لے گا، تو آپ کے اندر ہمت آجاتی ہے۔
اعضا کی پیوند کاری سے آگاہی کا ذکر کرتے ہوئے شازیہ کا کہنا تھا کہ اُس وقت ان کی چھوٹی بہن طاہرہ، لیاقت نیشنل اسپتال میں تھیں، جہاں اعضا کی پیوند کاری پر ایک تقریب منعقد ہوئی، جس میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی بھی موجود تھے۔ ہم ان سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، اور اسی روز گھر میں ہم سب یہ بات کر رہے تھے کہ ہم اپنے اعضا عطیہ کر دیں گے۔ اس دوران بھائی بھی آیا اور اس نے کہا کہ میں بھی اپنی آنکھیں اور گردے وغیرہ عطیہ کردوں گا۔ اس واقعے کے ٹھیک تین، چار دن بعد یہ اندوہ ناک حادثہ پیش آگیا، جس سے ہم سب دہل کر رہ گئے، لیکن ہم نے اپنے مرحوم بھائی کی اعضا عطیہ کرنے کی خواہش پوری کی۔ کچھ رشتے داروں نے اس اقدام پر بہت زیادہ اعتراضات بھی کیے، ہمارے ابو نے ان تمام باتوں کا سامنا کیا اور کہا کہ قرآن کریم میں ہے کہ کسی ایک فرد کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا ہے۔ اس لیے آپ بھی اگر کسی ایک فرد کی جان بچا سکتے ہیں تو ضرور بچائیں۔
''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو میں شازیہ کا کہنا تھا کہ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلیں اور اپنا ہر عضو عطیہ کردیں۔ ہمارے سماج میں یہ ایک بہت حساس مسئلہ ہے، لوگوں کو اعضا عطیہ کرنے پر بہت زیادہ تحفظات ہیں۔ وہ اسے جائز نہیں سمجھتے، اسی لیے ہم اپنے بھائی کے انتقال کے بعد خاندان میں کسی اور کو اس کے لیے نہ کہہ سکے۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی کی جان بچانے کا عمل ہے، گناہ نہیں ہے۔ اب ہم سب بہنوں اور ہمارے بچوں نے بھی اپنے اعضا عطیہ کرنے کے لیے یہاں رجسٹریشن کروالی ہے۔ سب لوگوں کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے جان بچانے کے اس کارواں کا ساتھ دیں اور ان کے مدد گار بنیں۔ ایک فرد صرف 17 افراد کی جانیں نہیں بچاتا، بلکہ اس کے ذریعے اس سے وابستہ 17 خاندان بھی جی اٹھتے ہیں۔
ایس آئی یو ٹی کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اس موقع پر کہا کہ لوگوں کی زندگی دینے کے خواب کو تعبیر دینے میں حکومت سندھ گزشتہ 40 سال سے ہماری مددگار ہے۔ ماضی میں یہ انسان کا ایک خواب تھا کہ اس کے اعضا تبدیل کیے جا سکیں، لیکن آج اعضا کی پیوندکاری ایک حقیقت بن چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں اسپین اعضا کی پیوند کاری کے حوالے سے سب سے آگے ہے اور اب ایران میں بھی بہت تیزی سے اعضا عطیہ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ افراد مختلف اعضا ناکارہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان میں 25 ہزار گردے، 50 ہزار جگر اور 10ہزار دل کے مریض شامل ہیں۔ گردے کے مریضوں کی کچھ تعداد کو تو اپنے رشتے داروں کا گردہ مل جاتا ہے، لیکن دل، جگر اور لبلبے جیسے اعضا زندہ افراد عطیہ نہیں کر سکتے، لہٰذا اس کے لیے ان کی تبدیلی بعد ازمرگ عطیہ شدہ اعضا سے ہی کی جاتی ہے۔
''ایکسپریس'' سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اعضا کے عطیہ کرنے کے لیے لوگوں میں آگاہی کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں اس کام کی تحریک نہ ہونا اس ضمن میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس آگاہی کے لیے ذرایع ابلاغ نے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے، اب اسے مزید آگے بڑھانا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ لاہور سے آئی ہوئی معروف اداکارہ فریال گوہر، جن کی نم آنکھیں ان کے دکھ کی عکاس تھیں، نے بتایا کہ ان کے والد گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوکر صرف 46 سال کی عمر میں دنیا سے چلے گئے، کیوں کہ اس وقت ڈایالیسس کی سہولتیں نہیں تھی اور نہ ہی گردوں کی پیوندکاری کی جاتی تھی۔ اب اعضا کی پیوندکاری کا طریقہ موجود ہے، اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اعضا عطیہ کرنے کی طرف بھرپور توجہ دیں۔ ضرورت مندوں کے کام آنا انسان کا سب سے بڑا شرف ہے۔
تقریب کے بعد حاضرین کو دعوت دی گئی کہ وہ اسٹال پر موجود ''آرگن ڈونر'' فارم حاصل کر سکتے ہیں، تاکہ اپنے اعضا عطیہ کر کے کئی قیمتی زندگیاں بچا سکیں۔ اس موقع پر لوگوں کی بہت بڑی تعداد اعضا عطیہ کرنے کے حوالے سے معلومات حاصل کرتی نظر آئی۔ شرکا کو بتایا گیا کہ اعضا عطیہ کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ جسمانی اعضا صرف دماغی موت کی صورت میں عطیہ کیے جا سکتے ہیں، جب مریض وینٹی لیٹر پر رہا ہو۔ دماغی موت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دراصل ہمارا دماغ سانس لینے کے عمل میں مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے، جب کہ ہمارے دیگر اعضا ٹھیک ہیں۔
سماج کی فلاح اور دوسروں کی بہبود کے لیے لوگوں کا جمع ہونا ایک نیک شگون ہے۔ مسائل کی چکی میں پسے لوگوں کا جذبہ بابر ایاز ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ''جن لوگوں کو ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی چھو جائیں، وہ خود ہی چاہنے لگتے ہیں کہ دوسروں کے لیے کچھ کر جائیں۔'' یہ تقریب اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھی۔
''واحد کی آنکھوں میں نوید نظر آتا ہے''
ملتان سے تعلق رکھنے والے واحد نامی شخص کو سید نوید انور کی ایک آنکھ لگائی گئی۔ اس کے بعد نوید کے گھر والوں نے نہ صرف واحد کو اپنے گھر مدعو کیا، بلکہ اسے نوید کے گھر کے فرد کی سی حیثیت حاصل ہو گئی۔ نوید کے اہل خانہ کے بقول،''واحد کی آنکھوں میں ہمیں نوید نظر آتا ہے۔ ''
''زندگی'' بین الاقوامی فیسٹیول میں بھیجی جائے گی
20 منٹ کے دورانیے پر محیط متاثر کن ڈاکیومینٹری ''زندگی'' نجی ٹی وی چینل ''ہم'' کی روح رواں اور سینیر قلم کار سلطانہ صدیقی، اطہر وقار عظیم اور ریحان احمد نے تیار کی ہے۔ SIUT میں اس فلم کی رونمائی کے موقع پر ناظرین نے اسے بہت سراہا۔ اس موقع پر اطہر وقار عظیم نے اس فلم کو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھیجنے کا بھی اعلان کیا، جس سے ایک طرف پاکستان میں اعضا عطیہ کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی ہوگی، بلکہ ساتھ ہی دنیا بھر میں پاکستان کا ایک مثبت تاثر بھی اجاگر ہو گا۔
آٹھ بستروں سے وسیع وعریض سینٹر تک
سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کی ابتدا 1970 میں سول اسپتال میں یورولوجی ڈیپارٹمنٹ سے ہوئی۔ 1991 میں اس وسعت اختیار کرتے ہوئے شعبے کو ایک علیحدہ حیثیت دے دی گئی۔ یہاں ڈایالیسس کے علاوہ یومیہ دو گردوں کی پیوند کاری بھی کی جاتی ہے۔ 2003 میں یہاں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جگر کی تبدیلی کا آپریشن بھی کیا گیا۔ 2004 میں یہاں شعبہ اطفال کا آغاز کیا گیا۔ آٹھ بستروں سے شروع ہونے والا یہ ادارہ آج پاکستان کا سب سے بڑا کڈنی ڈایالیسس سینٹر ہے، جہاں مستحقین کو بلامعاوضہ علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
SIUT کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا شمار پاکستان کے نام وَر مسیحاؤں میں ہوتا ہے، جو بڑھتی عمر کے باوجود اپنے حوصلوں میں جواں ہیں۔ گردوں کی پیوند کاری کے ذریعے مریضوں کی زندگی بچانے کے بعد اب وہ دیگر جسمانی اعضا کی پیوند کاری کے لیے پرعزم ہیں، چاہتے ہیں کہ لوگ اپنے اعضا عطیہ کر کے ضرورت مند مریضوں کی زندگیاں بچانے میں مدد کریں۔ ایس آئی یو ٹی کو پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت 4 ہزار 800 سے زاید اعضا کی پیوند کاری کا فخر حاصل ہے۔ SIUT بلارنگ ونسل اور مذہب اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے۔ یہ ادارہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کوئی بھی فرد علاج کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث زندگی نہ ہارے۔ SIUT کے مراکز دیگر شہروں میں بھی قائم کیے جا رہے ہیں۔