بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملے

گزرے ڈیڑھ برس سے دہشت گردوں نے دوبارہ اپنی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے

گزرے ڈیڑھ برس سے دہشت گردوں نے دوبارہ اپنی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ فوٹو: فائل

بلوچستان میں ژوب گیریژن پر دہشت گردوں کے حملے میں 9 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے، اطلاعات کے مطابق دہشت گرد بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے'سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں 5دہشت گرد بھی مارے گئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق بدھ کی صبح سویرے دہشت گردوں کے ایک گروپ نے شمالی بلوچستان میں ژوب گیریژن پر حملہ کیا اور گیریژن کے اندر گھسنے کی ابتدائی کوشش کی جس کو ڈیوٹی پر موجود سیکیورٹی اہلکاروں نے ناکام بنا دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ژوب کینٹ میں کلیئرنس آپریشن مکمل کر لیا گیاہے۔

ادھراخباری خبر کے مطابق سی ٹی ڈی پنجاب نے اگلے روز انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے دوران مختلف شہروں سے کالعدم تنظیموں کے5 مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کر لیاہے۔

ژوب گیریژن پر دہشت گردوں کا حملہ ظاہر کرتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گرد گروہوں کا نیٹ ورک خاصا فعال ہے ۔اس صوبے میں ٹی ٹی پی اور دیگر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے درمیان مشترکہ اہداف کے اصول کے تحت اتحاد نظر آتا ہے۔

ملک کی دیگر دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیمیں بھی اپنے اپنے مفادات اور اہداف کے تناظر میں ایک دوسرے سے تعاون کرتی نظر آ رہی ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے ملک کے طاقتور انڈرورلڈ مافیا گروہوں اور ان تنظیموں کے درمیان بھی کہیں نہ کہیں رابطہ کاری موجود ہے۔ اس وجہ سے بھی دہشت گرد کامیاب کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان کی کارروائیاں رکنے میں نہیں آ رہیں'وہ آئے دن کہیں نہ کہیں سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے کر رہے ہیں۔

دوسری جانب اس خدشے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کی سیاست میں بھی یہ گروہ سرایت کر چکے ہیںجب کہ ریاستی سٹرکچر میں بھی ان کی جڑیں موجود ہیں۔ جن کے کسی نہ کسی سطح پر دہشت گردوں سے رابطے موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد انتہائی باحفاظت سمجھے جانے والی تنصیبات پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور وہاں نقصان بھی کرتے ہیں۔

اس امر سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گردوں کو سرحد پار سے بھی بھرپور معاونت مل رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا نیٹ ورک ٹوٹنے میں نہیں آ رہا۔پاکستان کو امید تھی کہ کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت ختم ہونے کے بعد طالبان کے برسراقتدار آنے سے دہشت گردوں کو افغانستان سے مدد ملنی بند ہو جائے گی۔

مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا اور جب سے افغانستان میں طالبان برسراقتدار آئے ہیں ' پاکستان میں دہشت گرد گروہ خاصے فعال ہو چکے ہیں اور مسلسل کارروائیاں کر رہے ہیںجس سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کے ذمے داران سے جب بھی ٹی ٹی پی اور پاکستان میں دہشت گردی کا سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ پاکستان اپنے اندر دہشت گرد تلاش کرے، اس کا کیا مقصد ہے۔

اس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہیں ہیں بلکہ پاکستان میں ہی ہیں۔ افغانستان پر کرزئی سے لے کر اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ کے اقتدار تک اور اب طالبان کے دور میں بھی افغانستان سے بہتر کسی ملک نے دہشت گردی کو استعمال نہیں کیا ہے یعنی افغانستان کا برسراقتدار گروہ مظلوم بن کر امریکا اور اتحادی ممالک سے اربوں روپے کی امداد ہڑپ کرتا رہا لیکن طالبان سے لڑنے کی باری آئی تو بھاگ کھڑے ہوئے بلکہ طالبان کے ساتھ مل گئے۔

اسی طرح کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت کے دوران بھی افغانستان کا ستراسی فیصد طالبان کے زیر کنٹرول تھا، قطر میں ان کا دفتر قائم تھا،پاکستان میں دہشت گردی ہوتی تو افغانستان کی حکومت پاکستان پر الزام عائد کردیتی جب کہ افغان طالبان بھی بیان داغ دیتے کہ پاکستان میں دہشت گردی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ افغان طالبان کے پاکستان میں موجود نظریاتی گروپس ان کی کھلے عام حمایت کرتے رہے، غیرقانونی تجارت،اسلحہ اور گاڑیوں کی اسمگلنگ، ڈرگز اورمنشیات کی اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ کردیا۔


بھارت نے بھی ان حالات سے خوب فائدہ اٹھایا، ماضی میں بھی بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ رہا اور اب طالبان حکومت بھی بھارت سے گندم کا عطیہ وصول کرنے میں ندامت محسوس نہیں کررہی ہے ۔جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا تعلق ہے تو بھارت اور افغانستان دونوں نے یہ جنگ نہیں لڑی، اس خطے میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ صرف پاکستان کی افواج،رینجرز، ایف سی، پولیس اور انٹیلی جنس اداروں نے لڑی ہے، پاکستان کی سیاسی جماعتوں، مذہبی سیاسی جماعتوں، تنظیموں، این جی اوز کا بھی اس میں ذرہ برابر حصہ نہیں ہے۔

ملک کے ادبی حلقے، شاعر ، ادیب، اسکرین پلے رائٹرز،ڈرامہ نویس کا بھی دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ لڑنے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ افغان طالبان تو اس جنگ کا خود ایک فریق تھے، انھوں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے کیا کردار ادا کرنا تھا۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گرد گروہ بڑے تواتر کے ساتھ کارروائیاں کر رہے ہیں' چند روز قبل بھی بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملے سے میجر سمیت چھ اہلکار شہید، ایک حملہ آور ہلاک، جب کہ ڈی آئی خان آپریشن میں تین دہشت گرد مارے گئے۔

بلوچستان کے ضلع شیرانی کے علاقے دھانہ سر میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد فائرنگ کے تبادلے میں ایف سی کا ایک اور پولیس کے تین اہلکار شہید ہوگئے، جب کہ ہوشاب کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کے تبادلے میں میجر سمیت دو اہلکار شہید ہوگئے۔

گزرے ڈیڑھ برس سے دہشت گردوں نے دوبارہ اپنی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاقے خصوصی طورپر جب کہ وطن عزیزکے کئی چھوٹے، بڑے شہر بھی دوبارہ دہشت گردی کا شکار ہیں، جب کہ سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادتیں بھی مسلسل اورکافی تعداد میں ہو رہی ہیں۔

سیکیورٹی فورسز اور تحقیقاتی ادارے یقیناً ان دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور ان کو بھیجنے والوں تک جلد ازجلد پہنچ جائیں گے اور بالآخر امن کے ان دشمنوں کو بھی کیفرکردار تک پہنچنا پڑے گا مگر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت آج بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے نظریاتی عزم سے محروم ہے۔عسکریت پسند تنظیمیں حملوں میں تیزی لا کر ریاستی رٹ کو کمزورکرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیز ی آرہی ہے اور دوسری طرف غیر یقینی صورتحال کے باعث حکومتی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے پولیس اہلکاروں سمیت سیکیورٹی اداروں پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں تو 2022 میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں 118 اہلکار شہید ہوئے۔ یہ شہادتیں زیادہ تر صوبے کے جنوبی اضلاع میں ٹی ٹی پی کی جانب سے کیے گئے حملوں میں ہوئیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی ایک مضبوط قوت بن کر سامنے آئی ہے جب کہ یہ بلوچستان میں بھی اپنا اثر بڑھا رہی ہے' ایسا لگتا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں اور ٹی ٹی پی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔

لہٰذا واضح رہے کہ ہم نے دہشت گردی کو پہلے بھی قوت بازو اور جذبہ ایمانی کے ساتھ شکست دی تھی، ہم آج بھی اسی جذبے کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، فقط ضرورت اِس امرکی ہے کہ سیاسی قائدین ایسے واقعات کے بعد اظہار تعزیت کی بجائے، واقعات اور اِن کے اسباب کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مل بیٹھیں، جس طرح سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد سیاسی قیادت یکسو ہوئی تھی، اگر ہم سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتیں گرانے بچانے میں لگے رہے تو کئی اہم مسائل کی طرح یہ اہم مسئلہ بھی ناسور بنتا جائے گا، مگر اِس کو ناسور نہیں بننے دینا کیونکہ ہم اپنے شہدا کی قربانیاں رائیگاں جانے نہیں دیں گے۔

دہشت گردی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لیے بلاشبہ حالات کو بدلنے کے لیے بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے جن میں تعلیم کی سہولتیں عام کرنا، بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات اٹھانا، نا انصافی کے خاتمے کے لیے عدلیہ کے نظام کی اصلاحات کا نفاذ اور عوام کے پسماندہ طبقوں میں غربت اور احساس محرومی کا خاتمہ لازمی ہے۔
Load Next Story