بہترین حکومت
دنیا کے چند ممالک ہیں جہاں ابھی تک بادشاہی نظام کا خاتمہ نہیں ہوسکا اور عوام مطلق العنان بادشاہوں کے تابع فرمان ہیں
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم ؑ کی تخلیق کی تو اُس نے فرشتوں سے آدم ؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو اشرف المخلوقات قرار دیا۔ ابلیس کو حکم عدولی کرنے کے سبب راندہ درگاہ کر دیا گیا جس پر آج تک سب اُس پر لعنت بھیجتے ہیں۔
فرشتہ اور انسان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اُنہیں صرف ہر حکمِ خداوندی کی تعمیل کرنے کی قوت عطا کی گئی ہے جب کہ انسان کو نیکی اور بدی دونوں کے ارتکاب کی قوت حاصل ہے اور یہ جہانِ فانی اُس کے لیے ایک کمرہِ امتحان ہے جہاں سے فارغ ہو کر اُسے ملکِ عدم سدھارنا ہے جہاں اُس کو اپنی نیکی اور بدی کا حساب دینا ہے۔
عزت اور ذلت صرف اور صرف رب العالمین کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت۔ بڑے بڑے بادشاہوں اور حکمرانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں بشرطیکہ ہم اِن سے عبرت حاصل کریں۔
دارا رہا نہ جَم نہ سکندر تھا بادشاہ
تختِ زمیں پہ سیکڑوں آئے چلے گئے
سب سے بڑی مثال فراعین کی ہے جو اپنے آپ کو نعوذ باللہ خدا سمجھتے تھے، اُن کا انجام بھی دنیا کے سامنے ہے۔ افسوس اِس بات کا ہے کہ بہت کم حکمراں ایسے گزرے ہیں کہ جن کے دل میں خوفِ خدا تھا۔ تاریخ میں اُن کے نام سنہری الفاظ میں لکھے جائیں گے اور ساری دنیا اُن کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیتی رہے گی۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ بہت سے حکمراں ایسے ہیں کہ جو خوفِ خدا سے عاری ہوکر خدا پرستی کو چھوڑ کر خود پرستی کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ اِس دنیائے فانی کو مستقل قیام گاہ سمجھتے ہیں اور اِس کی رنگینیوں کی بھُول بھُلیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ امارت، عدالت اور وزارت کا نشہ اُن کے سر پر سوار ہوکر اُنہیں اندھا کر دیتا ہے۔
بہادر شاہ ظفر نے کیا خوب کہا ہے۔
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
بہادر شاہ ظفر مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار تھے، اس لیے اُنہیں بادشاہت کا ذاتی اور خوب تجربہ حاصل تھا اس لیے اُن کے کہے ہوئے کو آپ بیتی کا درجہ حاصل ہے اور مستند ہے اُن کا فرمایا ہوا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ پرانے زمانہ میں جب مطلق العنان بادشاہوں کی حکومتیں ہوتی تھیں اور بادشاہ اپنی مرضی کے مالک ہوا کرتے تھے تب بھی اپنی اخلاقی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے بادشاہ وقتاً فوقتاً رعایا کے حالات اور مسائل معلوم کرنے کے لیے دربارِ عام لگایا کرتے تھے۔
رعایا کو پوری آزادی ہوتی تھی کہ وہ اپنے مسائل سے بادشاہ سلامت کو آگاہ کرے لیکن موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے یہ کمال کر دیا ہے کہ دنیا کے ایک کونے کی خبر دوسرے کونے تک پہنچنے میں لمحہ بھر نہیں لگتا، اس لیے کسی بھی حکمراں کے لیے یہ عذرِ لنگ پیش کرنے کے لیے ذرا سی بھی گنجائش باقی نہیں رہی کہ اُسے عوام کے فلاں مسئلہ کا علم نہیں تھا۔
اِس صورتحال نے حکمرانوں کی ذمے داریوں میں بہت اضافہ کردیا ہے چنانچہ عوام کے کسی مسئلہ کو حل نہ کرنے سے مفر حاصل کرنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ جمہوری نظام میں کیونکہ حکمراں عوام کا منتخب کیا ہوا ہوتا ہے وہ اخلاقاً اور قانوناً عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے ورنہ یہ طرزِ حکمرانی جمہوریت کے دائرہ کے باہر مانی جائے گی۔
عصرِ حاضر جمہوریت سے وابستہ ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک میں بادشاہتوں کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اُن کی جگہ جمہوریتوں کا بول بالا ہورہا ہے۔
دنیا کے چند ممالک ہیں جہاں ابھی تک بادشاہی نظام کا خاتمہ نہیں ہوسکا اور عوام مطلق العنان بادشاہوں کے تابع فرمان ہیں لیکن کیونکہ جمہوریت کے اثرات دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں اِس لیے بادشاہتوں والے ممالک میں بھی حکمرانوں کے رویوں میں لچک پیدا ہو رہی ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان بھی ماضی میں مطلق العنان حکمرانوں کا مزہ چکھ چکا ہے، اِس لیے جمہوری نظام کا قیام ایک خوش آئند بات ہے۔جنرل محمد ایوب خاں کے دورِ حکمرانی میں ایک نیا نظام قائم کیا گیا تھا جس کا نام بنیادی جمہوریت رکھا گیا تھا۔ اِس نظام کو پاکستان کے عوام '' بی ڈی سسٹم '' کے نام سے جانتے ہیں۔
اِس نظام کے تحت نہ کوئی قومی اسمبلی موجود تھی اور نہ کسی صوبائی اسمبلی کا کوئی وجود تھا۔ یہ نظام جمہوری نظام کی وجہ سے رائج کیا گیا تھا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ جمہوری نظام بُری طرح ناکام ہوچکا تھا۔ وطنِ عزیز میں یہ نظام دس سال تک نافذ رہا۔
بھارت اور پاکستان میں جمہوری نظام کے حوالے سے ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ وہاں کے جمہوری نظام میں نہرو خاندان کی بالا دستی تھی۔
ہمارے ہاں وطنِ عزیز میں جب سے جمہوریت کا دور آیا اُس دن سے لے کر آج تک بھٹو خاندان کی بالادستی ہے، یہی نہیں بلکہ دور حاضر میں بھی ہماری رَوِش اور چلن یہی ہے۔ اِس موقع پر ہمیں انگریزی کے ممتاز شاعر اور دانشور الیگزینڈر پوپ کا یہ قول یاد آرہا ہے۔
پارمز آف گورنمنٹ لٹ فُولز کنٹیسٹ
واٹ ایور ایڈمنسٹرڈ اِز بیسٹ اِز دی بیسٹ
مفہوم یہ ہے کہ حکومت کی اشکال و نوعیت کے بارے میں احمقوں کو الجھے رہنے دیجیے بہترین حکومت وہ ہے جس کا انتظام بہترین ہے۔