KP بار کونسل کے زیر اہتمام وکلاء کنونشن

کنونشن میں وکلاء کے کئی مطالبات منظور کرنے پر وزارت قانون کا شکریہ ادا کیا گیا

jamilmarghuz1@gmail.com

پراجیکٹ عمران خان کوبنانے سنوارنے میں ہر قسم کے وسائل اور میٹریل استعمال کیا گیا ' نہ صرف ان کو حکومت دی گئی بلکہ ایسا سبق پڑھایا گیا کہ' عمران خان ایماندار ہے ، باقی سب چور ہیں ' یوں سیاست اور معاشرت تقسیم ہو گئے 'ایک طرف عاشقان عمران تھے اور دوسری طرف مخالفین عمران تھے۔اس کشمکش میں وکلاء برادری میں بھی تقسیم نظر آئی ۔

وکلاء برادری کا ایک چھوٹا حصہ ''پراجیکٹ عمران'' کا حصہ بن گیا' سندھ' پنجاب 'بلوچستان 'خیبر پختونخوا کے بارکونسلز اور پاکستان بارکونسل پر مشتمل وکلاء برادری اس پراجیکٹ اور اس کے پروگرام کے خلاف رہے'وکلاء تو ایک طرف عدلیہ کے بعض محترم جج صاحبان اور ان کے خاندان بھی عمران خان کے سحر میںمبتلا ہوگئے تھے۔

اس دورمیں خیبر پختونخوا کی بار کونسل 'مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے پشاورمیں جمہوریت اورآئین پسند وکلاء کا کنونشن منعقد کر کے وکلاء کی اجتماعی رائے کو عوام اور اداروں کے سامنے اجاگر کیا'یہ کنونشن انشاء اللہ اندھیرے میں'آئین اور قانون کاچراغ ثابت ہوگا ۔

ہفتہ 9جولائی2023 کو پشاور میں خیبر پختونخوا بار کونسل کے زیر انتظام ایک کل پاکستان وکلاء کنونشن منعقد ہوا۔آل پاکستان لائرزنمایندہ کنونشن کے شرکاء نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظورکی 'جس میں 9مئی کو سرکاری اور فوجی تنصیبات پرحملوں کی مذمت کی گئی لیکن کہا گیا کہ خواتین اور بچوں کی طرح عام شہریوں کو بھی فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا جائے 'اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے عام انتخابات کا وقت پر آزادانہ اورمنصفانہ انعقاد ہونا چائیے۔

یہ کنونشن خیبر پختونخوا بار کونسل نے بلایا تھااور اس میںملک بھر کی بار کونسلز اور اور ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے شرکت کی 'خیبر پختونخوا کے تمام بارکونسلوں 'ہائی کورٹ بار اور ممبران سپریم کورٹ بار نے بھی بہت بڑی تعداد میں شرکت کی 'یہ وکلاء برادری کا ایک کامیاب کنونشن تھا 'جس میں 'ملک کو درپیش مختلف مسائل کے بارے میں ان کی اجتماعی رائے کا اظہار قراردادوں اور تقاریر کی شکل میںہوا۔وکلاء کا کہنا تھا کہ ہم کسی پارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ آئین اور قانون کے ساتھ ہیں اور غیر آئینی اقدامات کی مخالفت کرتے رہیں گے۔۔

کنونشن میں مندرجہ ذیل قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔

سویڈن میں قران کی توہین کی مذمت کی گئی ۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف حکم امتناعی کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ قانون' وکلاء کے طویل مطالبے کے جواب میں حکومت نے منظور کیا ہے۔اعلیٰ عدالتیں پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت بند کریں اور وہاں منظور شدہ قوانین کا احترام کریں۔

اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہوکر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے اور منتخب حکومت کو آزادانہ کام کرنے دے۔تمام لاپتہ افراد اور خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ لوگ کسی جرم میں ملوث ہیں تو عدالتوں میں ان کے منصفانہ ٹرائیل کو یقینی بنایا جائے۔


ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے سنیارٹی کے اصول پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو 'سپریم کورٹ کے آیندہ چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کی سفارش کے مطابق سپریم کورٹ میں تعینات کیا جائے۔

اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری ''میرٹ''کی بنیاد پر ہونی چائیے او ر ان تقرریوں میں ''چیمبر فیلو''کی طرفداری اور ترجیح کا تصور ختم ہونا چائیے۔

سابقہ فاٹا کے سات اضلاع کی خیبر پختونخوا میں انضمام کی وجہ سے پشاور ہائی کورٹ کی منظور شدہ تعداد 20 سے بڑھا کر 30کی جائے۔آئین کے آرٹیکل 209میں مناسب ترامیم کے ساتھ ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو عام کرنے کے لیے قواعد وضع کرنے کے علاوہ ان معاملات پر فیصلے کے لیے ٹائم فریم بنایا جائے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین سے مطالبہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف بار کونسلز کی شکایت پر کارروائی شروع کرنے کی تاریخ فوری طور پر طے کرے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو چائیے کہ وہ جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس کیس میں نظر ثانی کی درخواست واپس لینے کے لیے وفاق کی درخواست پر فیصلہ جلد سنائیں'کیونکہ یہ درخواست قانونی برادری کے مطالبے پر حکومت نے دائر کی ہے۔

سپریم کورٹ کے بنچوں کی تشکیل اور مقدمات میںیکسوئی کے لیے واضح قوانین ہونے چائیے۔اعلیٰ عدلیہ اور ضلعی عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں مقدمات کو نمٹانے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے 'تاکہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال ہو۔

٭۔آئین (اٹھارویں ترمیم)ایکٹ 2010 کے ذریعے داخل کردہ آئین کے آرٹیکل 175-Aکو اصل شکل میں بحال کرنے کا مطالبہ کیاگیااور کہا کہ آرٹیکل 184(3)کے تحت سپریم کورٹ کی جانب سے مقدمات کی سماعت کے لیے واضح معیار متعارف کرایا جائے۔

کنونشن میں وکلاء کے کئی مطالبات منظور کرنے پر وزارت قانون کا شکریہ ادا کیا گیا'جن میں وکلاء کے تحفظ اور بہبود ایکٹ کا نفاذ 'فنانس ایکٹ میں وکلاء کی تنظیموں کے لیے گرانٹ میں150ملین روپے سے 800ملین کا اضافہ شامل ہے۔

کنونشن کو یہ مطالبہ بھی کرنا چاہیے تھا کہ بار کونسلز کی طرح مختلف بار ایسوسی ایشنز کی مدت بھی بڑھا کر کم از کم دوسال کردی جائے اور اگر کوئی عہدیدار وکلاء کی رائے کے برخلاف حرکت کرے تواس کے خلاف عدم اعتماد کیا جا سکے۔

اس کنونشن کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ یہ خیبر پختونخوا بار کونسل کی طرف سے منعقد کیا گیا پہلا کنونشن تھا 'اس سے قبل پشاور میں جتنے وکلاء کنونشن منعقدہوئے 'وہ پشاور ہائی کورٹ بارکی طرف سے منعقد کیے جاتے تھے۔

پختونخوا بارکونسل موجودہ قیادت میں بہترین طریقے سے ترقی کے راستے پر گامزن ہے 'موجودہ کنونشن اس کا ثبوت ہے'کہ خیبرپختونخوا بار کونسل اب اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی ا ہے۔خیبر پختونخوا بار کونسل کے زیر اہتمام 'وکلاء کی بہبود کے لیے کیے گئے دیگر اقدام اور کارناموں کا ذکر بعد میں۔
Load Next Story