کائنات کی تسبیح
’’اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو، یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔‘‘
اس کائنات کا ذرّہ ذرّہ اﷲ کی حمد و تسبیح کر رہا ہے، یہ پوری کائنات ایک زندہ کائنات ہے اور اﷲ کی تسبیح و تہلیل میں مصروف ہے اور اﷲ تعالیٰ کے سامنے جھکی ہوئی ہے۔
قرآن مجید کی مختلف آیات میں بیان ہُوا ہے کہ اس کائنات کی تمام موجودات اﷲ کی تسبیح کرتی ہیں، قران حکیم میں ارشاد ہوتا ہے، مفہوم:
''اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو، یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔'' اس آیت کی بنا پر کائنات کی تمام موجودات بغیر کسی استثناء کے اﷲ کی تسبیح میں شامل ہیں۔
اس حمد و تسبیح کی حقیقت کی تفسیر کے بارے میں علمائے کرام کا کہنا ہے کہ تسبیح کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تسبیح اختیاری اور دوسری تسبیح اضطراری یا تکوینی۔ تسبیحِ اختیاری تو فرشتے اور مومن جن و انسان کے لیے مخصوص ہے۔ مگر تکوینی طور پر اﷲ تعالیٰ نے کائنات کے ذرّے ذرّے کو اپنا تسبیح خواں بنا رکھا ہے، یہی تسبیحِ اضطراری ہے۔
تسبیح تکوینی لوگ سن نہیں سکتے، یہ ہمارے فہم و ادراک سے بالاتر ہے۔ جب روح شفاف ہو جاتی ہے اور انسان روحانی صفائی کے مدارج طے کرلیتا ہے تو وہ سب چیزوں کی تسبیح سنتا ہے، ہر متحرک اور ہر ساکن مخلوق کی آواز وہ سنتا ہے۔ اسے ہر چیز کی نبض چلتی نظر آتی ہے اور ہر چیز کی تسبیح سنائی دیتی ہے۔ اس کا رابطہ عالم بالا سے ہوجاتا ہے اور وہ اس کائنات کے ان اسرار و رموز کو دیکھتا ہے جس سے غافل لوگ بے خبر ہوتے ہیں۔
کیوں کہ مادیت کے پردے نے ان کی روح کو غافل رکھتا ہے، حالاں کہ روح کائنات کی ہر ساکن و جامد میں بھی متحرک ہے۔ ہر چیز میں ہر شجر و حجر میں۔ دل کی دھڑکن کو غور سے سنیں تو ہر لمحہ اسی کے نام کی تسبیح سنائی دے گی۔
حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی مٹھی میں چند کنکریاں لیں، میں نے خود سنا کہ وہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تسبیحِ کر رہی تھیں۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ میں اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے ہاتھ میں بھی۔ (بیہقی)
حضرت عبداﷲ بن عمروؓ کہتے ہیں: رسول اﷲ ﷺ نے مینڈک مارنے سے منع کیا اور فرمایا، مفہوم: ''مینڈک کا آواز نکالنا یہ اس کا اﷲ کی تسبیح بیان کرنا ہے۔''
(ابوداؤد، مستدرک حاکم، بیہقی، طبرانی، ترمذی و ابن ماجہ)
حضرت زید بن خالدؓ بیان کرتے ہیں، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
''مرغ کو بُرا بھلا نہ کہو، کیوں کہ وہ نماز کے لیے بیدار کرتا ہے۔'' (سنن ابی داؤد)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
''ایک چیونٹی نے نبیوں میں سے ایک نبی کو کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کے گھر کو جلا دینے کا حکم دیا اور وہ جلا دیا گیا، اس پر اﷲ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی جس کا مفہوم یہ ہے: اگر تمہیں کسی چیونٹی نے کاٹ لیا تھا تو (ایک ہی کو مارتے مگر) تم نے ایک ایسی امت (مخلوق) کو مار ڈالا جو (ہماری) تسبیح (پاکی) بیان کر رہی تھی۔''
(صحیح البخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ و مسند احمد)
سورۃ الحدید کا پہلا حصہ ابتدائی چھے آیات پر مشتمل ہے. اس سورہ مبارکہ کا آغاز اِن الفاظ ِ مبارکہ سے ہوتا ہے، مفہوم:
''تسبیح بیان کرتی ہے اﷲ کی ہر وہ شے جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔''
اس کا پہلا لفظ ''سَبَّحَ'' ہے، لغوی طور پر لفظ ''سَبَّحَ'' کا مفہوم کیا ہے! سَبَحَ یَسْبَحُ عر بی زبان میں آتا ہے کسی شے کے تیرنے کے لیے، تیرنا پانی میں بھی ہو سکتا ہے' ہَوا میں بھی اور خلا میں بھی۔ یعنی کوئی شے اپنی سطح پر برقرار رہے، نیچے نہ گرے، اگر پانی کی سطح پر ہے تو گویا کہ وہ تیر رہی ہے، اگر نیچے جائے گی تو ڈوب جائے گی۔
اسی طرح کوئی شے اگر خلا میں یا فضا میں حرکت کر رہی ہے لیکن اپنے مدار پر برقرار ہے، اپنی سطح پر قائم ہے تو یہ ہے سَبَحَ یَسْبَح ُ یعنی تیرنا۔
اب ذرا کائنات پر غور کریں، جب بنانے والا ایک ہوتا ہے تو اس کی ہر تخلیق میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے، آئیے! اﷲ پاک کی قدرت پر غور کرتے ہیں کائنات کی ہر شے ایٹم سے بنی ہے جو انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتا، ایک ایٹم کے اندر الیکٹرون ہر وقت اپنے مرکز کے گرد مخالف سمت میں گردش کرتے ہیں یعنی اینٹی کلاک وائز۔
اگر شمسی نظام پر غور کریں تو اس میں موجود تمام سیارے سورج کے گرد گھڑی کی مخالف سمت میں (اینٹی کلاک وائز) گردش کر رہے ہیں۔
غور کریں تو ارض و سماوات محوِ ہیں اپنی اپنے تسبیح میں۔ کعبہ اس دنیا کا مرکز ہے۔ اس کے طواف پر بھی غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ بھی گھڑی کی مخالف سمت مین (اینٹی کلاک وائز) جاری ہے۔
ہم دوسری مخلوقات کی باہمی گفت گُو کرنے کی کیفیت اور باہمی روابط کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے ہیں، حتٰی کہ ہم میں ان کی آوازیں سننے کی طاقت بھی نہیں ہے، کیوں کہ ہماری سننے کی طاقت صرف ان آوازوں کو سن سکتی ہے، جن کی فریکوینسی {frequency ایک خاص حد میں ہو اور اس سے زیادہ یا کم والی فریکوینسی کی آوازیں سننے کی طاقت ہم میں نہیں ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔'' (ترمذی، مسند احمد و طبرانی)
اﷲ کے ذکر کے ساتھ ادراکِ محبتِ رسول ﷺ بھی اﷲ نے سب کو عطا کیا ہے، کیا شجر، کیا حجر۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم مکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ وسلم کے ہم راہ تھے۔ آپ ﷺ مکہ کے گرد و نواح میں گئے تو راستے میں جو پتھر اور درخت آپ ﷺ کے سامنے آتا تو وہ کہتا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُولَ اﷲ ﷺ۔'' (جامع ترمذی)
سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے احد (پہاڑ) کی طرف دیکھا اور فرمایا، مفہوم: ''احد ایسا پہاڑ ہے کہ وہ ہمیں دوست رکھتا ہے اور ہم اس کو دوست رکھتے ہیں۔(صحیح مسلم)
حضرت عبداﷲ رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ کو اس کا نام لے کر پکارتے ہیں کہ اے فلاں پہاڑ ! کیا تیرے پاس آج کوئی شخص اﷲ کا ذکر کرتا ہوا گزرا ہے؟ اگر وہ کہہ دے کہ ہاں۔ تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔
بات صرف ادراک کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان عالی شان کا مفہوم ہے: ''سبحان اﷲ اور الحمدﷲ (کہنے کا اجر) زمین اور آسمان کے خلاء کو بھر دیتا ہے۔'' (صحیح مسلم)
انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اسے تو سب سے زیادہ تسبیح بیان کرنی چاہیے اپنے خالق و مالک کی، پھر اسرار کھلتے ہیں، معرفت کا دروازہ کھلتا ہے۔ ہم دنیا میں اتنا کھو گئے ہیں کہ مالک کی یاد سے محروم ہیں، ذرا سی توجہ دنیا اور لوازماتِ دنیا سے ہٹا کر کائنات کے مالک کی طرف کریں تو ہم بھی اسرارِ کائنات سمجھنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔
تیرے اسرارِ حقیقت کا وہی محرم ہُوا
رہ کے عالم میں بھی جو بیگانہِ عالم ہُوا