اعضا کی پیوند کاری کا طریقۂ کار

ایس آئی یو ٹی کے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے 1995میں پاکستان کا پہلا کڈنی ٹرانسپلانٹ کر کے نئی تاریخ رقم کی۔


سید بابر علی May 04, 2014
گزشتہ سال ایس آئی یو ٹی میں مجموعی طور پر 391 افراد کے گردوں کی پیوند کاری کی گئی فوٹو : فائل

اعضاء کی پیوند کاری ایسا جراحتی عمل ہے جس میں خراب اعضا (گردے، جگر، آنکھ وغیرہ) کو نکال کر کسی دوسرے فرد (زندہ یا مردہ) کے اعضا لگا دیے جاتے ہیں۔

٭اعضاء کون عطیہ کر سکتا ہے؟

خونی رشتوں سمیت کوئی بھی ایسا شخص جس کا خون اور ٹشوز عطیے کے ضرورت مند سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ایسا شخص جس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہو اور اس کے عطیہ کیے گئے اعضاء کسی بیماری سے متاثر نہ ہوں تو اُنہیں کسی دوسرے فرد کے جس میں لگایا جا سکتا ہے۔

پیوند کاری کے آپریشن سے قبل عطیہ کنندہ اور عطیہ وصول کرنے والے افراد کے خون اور ٹشوز (نسیجوں) کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے، کیوں کہ ٹرانسپلانٹیشن کے لیے دونوں افراد (عطیہ وصول کنندہ اور عطیہ کنندہ) کے خون اور ٹشوز کا میچ ہونا ضروری ہے۔

اگر عطیہ کنندہ زندہ ہے تو اسے جراحی سے قبل اینستھیسیا (بے ہوش کرنے والی دوا) دی جاتی ہے۔

ہر اعضا کی پیوند کاری کا وقت مختلف ہوتا ہے مثال کے طور پر گردے کی پیوند کاری کا آپریشن تقریباً تین گھٹنے میں مکمل ہوجاتا ہے۔ تاہم ذیابیطس کے مریضوں میں ٹرانسپلانٹ کرتے وقت لبلبہ بھی اُسی وقت تبدیل کیا جا تا ہے جس میں مزید تین گھنٹے لگتے ہیں۔

٭اعضا کی پیوند کاری کن صورتوں میں کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر ہر اُس شخص کو ٹرانسپلانٹ کروانے کا مشورہ دیتے ہیں جس کے اعضائے رئیسہ (جگر، گردے وغیرہ) تقریباً ناکارہ ہوچکے ہوں۔ لیکن اگر مریض شدید نوعیت کے انفیکشن (تپ دق، ہیپاٹائیٹس اور ہڈیوں کے انفیکشن)، دل، جگر اور پھیپھڑوں کی کوئی بیماری یا کبھی سرطان میں مبتلا رہ چکا ہوں تو اُس کی جراحی نہیں کی جاتی، جب کہ تمباکو نوشی، شراب یا کسی اور نشے کی عادت میں مبتلا فرد کے ٹرانسپلانٹ سے بھی اجتناب کیا جاتا ہے۔

٭ٹرانسپلانٹ سے قبل کیے جانے والے ٹیسٹ

ٹرانسپلانٹ سے قبل ''ٹشوز'' اور ''بلڈ ٹائپنگ ٹیسٹ'' سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ جراحی کے بعد مریض کا جسم نئے گردے کو مسترد نہیں کرے گا۔ دل کی صحت جانچنے کے لیے ''ای سی جی'' (الیکٹرو کارڈیوگرام)یا ''کارڈیک کھیترازیشن'' کی جاتی ہے۔

٭پیوندکاری کروانے والے افراد کے لیے اہم ہدایات

ٹرانسپلانٹ کروانے افراد کو چاہیے کہ اگر وہ ڈونر (عطیہ کنندہ) کے لیے ویٹنگ لسٹ پر ہیں تو درج ذیل باتوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق غذا کھائیں۔
کوئی نشہ نہ کریں۔

جسمانی وزن تجویز کی گئی حد کے اندر رکھیں۔ ڈاکٹر کی بتائی گئی ورزش کریں۔
تجویز کی گئی دوا وقت پر کھائیں، کسی تبدیلی کی صورت میں فوراً اپنے معالج کو آگاہ کریں۔

٭پیوندکاری کے بعد کی احتیاطی تدابیر
پیوند کاری کے بعد مریض کو تقریباً ایک ہفتے (اس مدت کا تعین ڈاکٹر کرتا ہے) تک اسپتال میں رہنا پڑتا ہے۔ ڈسچارج ہونے کے بعد باقاعدگی سے ڈاکٹر کو چیک اپ اور ہر ایک دو مہینے بعد خون کا معائنہ ضرور کروائیں۔

ایس آئی یو ٹی کے اغراض و مقاصد
ایس آئی یو ٹی (سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈٹرانسپلاٹیشن) کے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے 1995میں پاکستان کا پہلا کڈنی ٹرانسپلانٹ کر کے نئی تاریخ رقم کی۔ پاکستان کے اپنی نوعیت کے واحد آپریشن میں چودہ سالہ ڈچ (ولندیزی) لڑکی کے گردے کو 24سالہ پاکستانی مریضہ کے لگایا گیا جو گردے فیل ہونے کے سبب موت کے دہانے پر کھڑی تھی۔ایس آئی یو ٹی کا شمار اسلامی دنیا کے اُن نو ممالک کے اداروں میں کیا جاتا ہے جہاں مرنے والوں کے اعضا قیمتی انسانی جان بچانے کے لیے ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں۔

ملک کے اس ممتاز ادارے نے نومبر 2003میں جگر کی پیوند کاری کا پہلا کام یاب آپریشن بھی کیا۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی سرپرستی میں ایس آئی یو ٹی کے ماہر ڈاکٹر اب تک گردوں کی مہلک بیماری میں مبتلا ہزاروں افراد کو اس موذی بیماری سے نجات دلا چکے ہیں۔
گزشتہ سال ایس آئی یو ٹی میں مجموعی طور پر 391 افراد کے گردوں کی پیوند کاری کی گئی۔ جنوری سے مارچ تک 86، اپریل سے جون تک 108، جولائی سے ستمبر تک 113اور اکتوبر سے دسمبر 2013تک 84مریضوں کو ایس آئی یو ٹی کی بدولت نئی زندگی ملی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں