بچوں کو فیس بک کے منفی اثرات سے کیوں کر بچایا جائے

سوشل میڈیا ابتدا میں ہمارا شوق، پھر عادت اور اب مجبوری بنتا جارہا ہے


سوشل میڈیا ابتدا میں ہمارا شوق، پھر عادت اور اب مجبوری بنتا جارہا ہے۔ فوٹو : فائل

سائنس کی حیرت انگیز ترقی آج انسان کو بے شمار سہولیات فراہم کر رہی ہے، مگر سائنسی ایجادات جیسے، بندوق، بم اور میزائل وغیرہ نے انسانیت کو موت کے گڑھے پر بھی پہنچا دیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنس کے علم اور سائنسی ایجادات کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے، اسے انسانیت کی تباہی کا نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح کا ذریعہ بنایا جائے، اسی صورت میں ہم سائنس کے علم سے صحیح معنوں میں مستفید ہو سکیں گے۔ رابطوں کی آسانی، دور بیٹھے دوستوں سے بات چیت اور مواد کے حصول و فراہمی کے لیے سوشل میڈیا کو کلیدی کردار حاصل ہے۔ سوشل میڈیا کی سماجی ویب سائٹس کا حصہ بننا ابتدا میں ہمارا شوق، پھر عادت اور اب مجبوری بنتا جا رہا ہے۔ ہم میں سے بیشتر افراد کسی نہ کسی سماجی نیٹ ورک سے منسلک ہیں، خصوصاً نوجوانوں کے لیے ایسی ویب سائٹس مصروفیت کا اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔

ان ویب سائٹس کی مدد سے ہم دنیا کے کونے کونے میں موجود اپنے قریبی عزیز و اقارب اور دوستوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک سستا اور تیز رفتار پیغام رسانی کا ذریعہ ہے جبکہ خبریں جاننے کے لیے بھی ان دنوں سماجی ویب سائٹس کا استعمال آسان اور مقبول ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔



سوشل میڈیا کی دور حاضر میں نہایت مقبول ایجاد فیس بک ہے، جسے دنیا بھر میں کروڑوں لوگ استعمال کر رہے ہیں۔ بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں سبھی فیس بک کا استعمال کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ فیس بک ایک ایسی ویب سائٹ ہے جس میں ہر کوئی ہر کسی کے متعلق (اگر صارف چاہے) معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ فیس بک پر زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا اور اپنا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے رہنا فیس بک صارفین کا دلچسپ مشغلہ اور سرگرمی ہے۔ سائنس کی دیگر ایجادات کے فوائد زیادہ اور نقصانات کم ہیں لیکن اس کے برعکس فیس بک کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔

 



فیس بک کے بارے میں دو حقائق انتہائی خطرناک ہیں، پاکستان میں ایک کروڑ افراد (زیادہ تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے) فیس بک استعمال کرتے ہیں اور دو، فیس بک استعمال کرنے والے تقریباً ہر قسم کی معلومات شیئر کرتے ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص جس کا فیس بک پر اکاؤنٹ موجود ہے وہ اپنے آپ کو اپ ڈیٹ رکھنے کے چکر میں خود کو جرائم پیشہ افراد کے سامنے بطور تحفہ پیش کر رہا ہے۔



جب ہم انجان لوگوں کے سامنے اپنی ذات، اپنی فیملی، اپنے کیرئیر اور اپنی تقریبات حتیٰ کہ مستقبل کے منصوبوں اور خوابوں تک کو شئیر کریں گے تو پیچھے کیا بچے گا۔ اور تو اورجب ہم ہر نئے دوستی کے خواہش مند مرد اور خواتین سے اس نظریے کے تحت دوستی کر لیں گے کہ چلو ٹائم پاس ہو جائے گا، ہمارا حلقہ احباب وسیع ہو گا تو اس کے بعد ہونے والے کسی سانحے کا ذمہ دار ہم کس کو ٹھہرائیں گے۔



فیس بک پر بہت سے جعلی ناموں سے اکاؤنٹ موجود ہیں۔ اکثر لڑکے لڑکیوں کے ناموں سے اپنا اکاؤنٹ بنا کر دیگر لڑکوں کو بے وقوف بنانے اور پھنسانے کا ڈرامہ کر رہے ہوتے ہیں جس سے بھولے بھالے لوگ بُری طرح نہ صرف بے وقوف بنتے ہیں بلکہ ذہنی طور پر مغلوب ہو کر زند گی کے دیگر معاملات میں بھی فیل ہو جاتے ہیں۔کبھی بھی یہ مت لکھیں کہ آپ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنے جا رہے ہیں۔اب تو موبائل فون سے بھی فیس بک استعمال کی جا رہی ہے جس سے خطرہ مزید بڑھ چکاہے۔ موبائل فون پر انٹر نیٹ ہر وقت ہر جگہ آن رہتا ہے اور جب کوئی لکھتا ہے کہ میں گھر میں تنہا ہوں، بینک جا رہاہوں یا میں ابھی ابھی شو روم سے نئی گاڑی خرید کر نکلا ہوں تو اس کے بعد جرائم پیشہ افراد کا کام نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ جو اپنا زیادہ تر وقت فیس بک یا اس طرح کی ویب سائٹس پر گزارتے ہیں ان میں تنہائی پسند ہو جانے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ اپنی زندگی میں سماجی سرگرمیوں سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔

فیس بک کا استعمال افراد میں عداوت، حسد اور جلن جیسے منفی جذبات پیدا کرنے کابھی سبب بن سکتا ہے۔ فیس بک کے منفی اثرات کے حوالے سے جرمنی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق فیس بک استعمال کرنے والوں کو اکثر اپنے دوستوں کی تفریحی مقامات کی سیر سے جلن ہوتی ہے۔ دوسروں کی کامیاب پروفائل پڑھنے سے لوگوں میں اپنی زندگی سے شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کے نزدیک فیس بک پر نظر آنے والی زندگی ہی ان کے دوست کی اصل زندگی کا چہرہ ہے جہاں وہ ایک مطمئن اور خوشحال زندگی گزار رہا ہے۔ حالانکہ ہر انسان اپنی زندگی کے صرف انہی پہلوؤں کو دکھاتا ہے جو وہ دکھانا چاہتا ہے۔



فیس بک کا مسلسل استعمال وقت کے ضیاع کا بہت بڑا سبب ہے۔ خاص طور پر طلبہ کے مستقبل کے لیے تو یہ زہر کی حد تک خطرناک ہے اس میں کھو کر وہ اپنی تعلیم کو وقت نہیں دے پاتے لہٰذا ان کو اس سے بہت حد تک بچنا چاہیے۔ فیس بک استعمال کرنے والے نہ چاہتے ہوئے بھی دوستوں کی تصاویر لائیک/کمنٹ کرنے کے لیے، دوستوں کی پرو فائلز دیکھنے کے لیے یا گیمز وغیرہ کے لیے روزانہ گھنٹوں فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ اس دوران وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس وقت کو ضائع کرنے کی بجائے کسی مفید سرگرمی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

بچوں کو فیس بک کے مسلسل استعمال اور منفی اثرات سے بچانے کے لیے والدین کو سب سے پہلے خود فیس بک سے آگاہی حاصل کرنا ہو گی۔ جب تک وہ خود اسے نہیںسمجھیں گے بچوں کوکنٹرول نہیں کر سکیں گے۔ وہ بچوں کو سمجھائیں کہ انجان لوگوں کی بجائے صرف فیملی اور دوستوں کے ساتھ بات چیت کی جائے لیکن اس میں بھی احتیاط کریں کیوں کہ کوئی بھی آپ کا رشتہ دار بن کر آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ذاتی زندگی میں ہم ہر کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ لیکن سوشل میڈیا پر کوئی... بھی ہم سے دوستی کرنا چاہے ہم نہ صرف اس کی آفر قبول کر لیتے ہیں بلکہ اپنی پوری زندگی کھول کر اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں