سوشل میڈیا ہر مرض کی دوا

مریض، ڈاکٹر اور اسپتال۔۔۔ سب ہورہے ہیں ان سائٹس سے مستفید

مریض، ڈاکٹر اور اسپتال۔۔۔ سب ہورہے ہیں ان سائٹس سے مستفید۔ فوٹو : فائل

لاہور:
کمیونیکیشن کی دنیا میں سوشل میڈیا موثر ترین ذرایع ابلاغ میں سے ایک بن چکا ہے اور ہر شعبے میں غلبہ حاصل کررہا ہے۔

یوں لگتا ہے کہ انٹرنیٹ تک رسائی کی سہولت رکھنے والا دنیا کا ہر باسی فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام یا کسی دوسرے سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم کے ذریعے اپنے دوستوں اور خاندان سے رابطے رکھے ہوئے ہے۔ لوگ مختلف ضروریات اور وجوہات کے تحت سوشل ویب سائٹس استعمال کرتے ہیں، ان میں سماجی ویب سائٹس کو صحت سے متعلق معاملات کے حوالے سے استعمال کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے یوزرز کی ایک تہائی تعداد جسمانی وذہنی صحت سے متعلق مسائل کے حل اور آگاہی کے لیے ان سائٹس کو استعمال کرتی ہے۔ اس طرح یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ سوشل میڈیا کا فروغ ''ہیلتھ کیئر انڈسٹری'' میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لا رہا ہے، جو مریضوں، ڈاکٹروں اور اسپتالوں سمیت اس شعبے سے متعلق تمام افراد اور اداروں پر اثر انداز ہورہی ہیں۔

سوشل میڈیا ڈاکٹروں کو یہ سہولت فراہم کر رہا ہے کہ وہ مریضوں سے اس طرح طویل فاصلے کے باوجود رابطے میں رہیں جو ماضی کے برسوں میں ممکن نہیں تھا۔ امریکا کے ڈاکٹروں سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق اس سروے کا حصہ بننے والے ساٹھ فی صد ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے مریضوں کی ہیلتھ کیئر کا معیار پہلے کے مقابلے میں بہتر بنایا ہے۔ سماجی ویب سائٹس جس طرح اس شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہیں ان میں سب سے نمایاں خدمت یہ ہے کہ اس کی بہ دولت فریقین یعنی ڈاکٹر اور مریض کے درمیان رابطوں کو فروغ ملا ہے۔

سوشل ویب سائٹس کے ذریعے مریض ڈاکٹروں سے اپنے کسی مرض، اس کے علاج اور دیگر متعلقہ معاملات کے بارے میں سوالات کرسکتے اور تفصیلات جان سکتے ہیں۔ یہ ڈاکٹروں پر منحصر ہے کہ وہ فوری طور پر یا سوال آنے کے ایک خاص وقت کے بعد ان کا جواب دیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا ٹولز، جیسے Google Hangouts (میسیجنگ اور وڈیو چیٹنگ کا ایک پلیٹ فارم) کے ذریعے ڈاکٹر مریضوں سے پہلے کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ براہ راست انداز میں رابطے میں رہ سکتا ہے۔ یہ کُھلے پن کی صفت رکھنے والا اور بروقت کمیونیکیشن مریض کو ڈاکٹر سے مزید مطمئن کرتا اور طبی مشورے دینے والے مسیحا پر اس کا اعتماد بڑھاتا ہے۔

ہیلتھ کیئر کے حوالے سے سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والی تبدیلیوں کا زیادہ تر انحصار اس پر ہوگا کہ مختلف امراض کا شکار افراد سماجی ویب سائٹس کو کس طرح برت رہے ہیں۔ دنیا میں مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد اس وقت بھی سوشل ویب سائٹس، جیسے فیس بک، کو ایک دوسرے سے اپنے اپنے مرض، اس کے علاج اور اس کے نسخوں کے بارے میں معلومات کے حصول کے لیے استعمال کررہے ہیں۔


یوزرز کی بہت بڑی تعداد صحت کے حوالے سے پوسٹس آن لائن شیئر کرنے کی سرگرمی تندہی اور پورے ذوق وشوق سے انجام دیتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق صرف فیس بک پر آنے والی پوسٹس میں سے 24 فی صد صحت کی بابت ہوتی ہیں، اور یوزرز میں سے 27 فی صد ان پوسٹس پر کمنٹس کی صورت میں اپنی رائے دیتی ہے۔ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ لوگ صحت سے متعلق ان مشوروں اور تجاویز پر اعتماد کرتے اور ان سے متعلق پوری سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو سوشل میڈیا پر ان کے دوستوں اور اہل خاندان کی طرف سے سامنے آتی ہیں۔

صحت سے متعلق معلومات فراہم کرنے اور ان کے حصول کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی مرض میں مبتلا مریض کسی ویب سائٹ پر اپنا ایک گروپ بنالیتے ہیں۔ جو لوگ اس گروپ میں شامل یوزرز کی طرح کے صحت سے متعلق مسائل کا شکار ہوتے ہیں وہ خود اور ان کے اہل خانہ اس گروپ سے ناتا جوڑ لیتے ہیں۔ کسی خاص مرض کے علاوہ اس طرح کے پیجز کسی ڈاکٹر، جدید طریقۂ علاج اور ادویات کے متعلق بھی ہوتے ہیں۔ سوشل ویب سائٹس کے یہ پیجز ایک ایسی جگہ بھی ہوتے ہیں جہاں کسی ایمرجینسی کے وقت جاکر مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔

ان پیجز اور گروپس میں عام یوزرز ہی کی شیئر کی ہوئی پوسٹس نہیں ہوتیں، بل کہ ان کے لیے کلینکس اور طب سے متعلق تنظیمیں بھی معلومات فراہم کرتی ہیں۔ صرف مریض ہی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ایک دوسرے سے وابستہ نہیں ہوتے، بل کہ ڈاکٹر بھی اس سائٹس کے ذریعے باہم رابطے میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ٹوئٹر، فیس بک اور لنکڈان پر اپنے ہم پیشہ افراد کو ''فالو'' کرتے ہیں اور ان سے رابطے میں رہتے ہوئے صحت، امراض اور علاج سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔

سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سے وابستہ ہر ڈاکٹر طب سے متعلق مواد فراہم نہیں کر رہا، تاہم ان میں سے ہر ایک دیگر طبی ماہرین کی فراہم کردہ معلومات پڑھ کر اور اس نوعیت کی وڈیوز کا مشاہدہ کرکے اپنی پیشہ ورانہ استعداد میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس طرح وہ طب کی نئی تحقیقی کاوشوں، علاج کی جدید تیکنیکوں اور آئیڈیاز سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح سوشل میڈیا ڈاکٹروں کو یہ سہولت فراہم کر رہا ہے کہ وہ اپنے شعبے کے نئے رجحانات سے واقفیت اور معلومات حاصل کریں اور ان کے مطابق خود کو جدید تحقیق اور معلومات سے ہم آہنگ کرتے رہیں۔

سوشل میڈیا کی رابطوں اور تعلقات کی دنیا سے مختلف ممالک کے اسپتال بھی بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق امریکا میں ہر چار میں سے ایک اسپتال سوشل میڈیا سے وابستہ ہے اور صحت سے متعلق اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس طرح یہ ادارے سوشل ویب سائٹس کے ذریعے اسپتال کی دیواروں سے باہر مریضوں سے رابطے کے نئے راستے بنا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے اسپتال اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے زیرعلاج مریضوں یا وہ افراد جنھوں نے کبھی اسپتال میں علاج کروایا تھا، سے رابطے میں رہ سکیں۔ اسی طرح یہ اسپتال اپنی ویب سائٹس اور اپنے ڈاکٹروں کے لکھے ہوئے بلاگز کی تشہیر کر رہے اور ان کے ویورز کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔

یوٹیوب پر بنائی جانے والی اسپتالوں کی سائٹس مریضوں کو ان اسپتالوں کے بارے میں آگاہی دینے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی مریضوں، ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی یہ سرگرمیاں ہمیں صحت کے معاملات اور مسائل اور مختلف امراض کے بارے میں گھر بیٹھے آگاہی دینے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ تاہم پاکستان میں اس حوالے سے سرگرمیاں بہت محدود ہیں۔ جس طرح طب سے متعلق تنظیمیں اور فلاحی ادارے مفت میڈیکل کیمپ لگاتے ہیں، اسی طرح اگر ڈاکٹر اور اسپتال مختلف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اپنے پیجز اور اکاؤنٹس بنا کر کچھ وقت مریضوں کے لیے وقف کردیں، صحت کے حوالے سے کسی ایمرجینسی کی صورت حال میں مسئلے کا شکار شخص کی مدد کے لیے آن لائن ہیپ کا سلسلہ شروع کریں یا مناسب فیس کے ساتھ آن لائن مشوروں کا اہتمام کریں تو اس سے لاتعداد لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے اور ملک میں صحت کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہوگا۔
Load Next Story