معیشت بحالی کی نوید

اگر یہ منصوبہ اپنی اصل روح کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو مستقبل روشن ہو سکتا ہے

اگر یہ منصوبہ اپنی اصل روح کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ فوٹو:فائل

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگست میں اقتدار نگراں حکومت کے سپردکردیں گے، آئی ایم ایف سے مشکلات کے باوجود معاہدہ کرنے میں کامیاب رہے، معیشت، خارجہ تعلقات، توانائی امن و امان دیگر شعبوں میں بدترین بدانتظامی، کرپشن، نااہلی اور سازشوں کی لگی آگ بجھائی، دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعاون کوکبھی فراموش نہیں کریں گے۔

بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف نے جن صائب خیالات کا اظہارکیا ہے وہ حالات کی درست نشاندہی اور معیشت بحالی کی نوید قوم کو سنا رہے ہیں، پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو ملکی معیشت اور سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے جو درپیش چیلنجز تھے، ان کو حل کرنے اور ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے میں کامیابی ایک بڑا بریک تھرو قرار دیا جاسکتا ہے۔

ہماری ملکی سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں مثبت کام کرنے کے بجائے افواہ سازی پر وقت ضایع کیا جاتا ہے جس سے ملک کا امیج اقوام عالم میں خراب ہوتا ہے۔ ایک گردان تھی کہ ملک ڈیفالٹ کرجائے گا، جب ہزار جتن کرنے کے بعد آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا گیا تو پھر ملک میں الیکشن نہ ہونے کا پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا۔

اب وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ وہ اقتدار نگراں سیٹ اپ کے سپرد کردیں گے۔ آنے والے دنوں میں نگراں سیٹ اپ کی ذمے داری ہوگی کہ وہ معاشی اصلاحات کا تسلسل برقرار رکھے، حکومتی اخراجات میں کمی اور بے تحاشا مراعات کے کلچرکو ختم کر کے کفایت شعاری کو اپنائے، بلاشبہ متوقع عام انتخابات کا نتیجہ بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی استحکام آ جائے جس کی فی الوقت امید ہی کی جا سکتی ہے تو پاکستان کی برآمدات اس وقت 30 ارب ڈالر سالانہ ہیں جنھیں 88ارب ڈالر تک بڑھانے کی گنجائش موجود ہے مگر اس کے لیے منصوبہ بندی اور معاشی پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے۔

جونہی آئی ایم ایف سے اسٹاف کی سطح پر معاہدے کی خبر آئی اسٹاک ایکسچینج میں تیزی بھی آ گئی حتیٰ کہ 40ہزار والی نفسیاتی حد بھی عبور ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ بھی بہتر ہونا شروع ہو گیا، یہ ایک حد تک خوشی کی بات ہے کہ معیشت تو چل نکلے گی اور بہتری ہوگی، اسی میں عوام کا بھی بھلا ہونا چاہیے۔

گو آئی ایم ایف کے ساتھ عبوری معاہدے کے تحت 3 ارب ڈالر کے حصول نے مارکیٹس میں مثبت لہر ضرور پیدا کی ہے مگر اسے پائیدار بنانے کے لیے ابھی مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بظاہر تین ارب ڈالر کی ان تین اقساط سے معیشت کے مسائل حل تو نہیں ہوتے، لیکن اس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے مالیاتی اداروں سے بھی توقع کے مطابق مطلوبہ قرض مل جائے گا، اگلے ہفتے کے دوران مرکزی بینک کے ذخائر میں چھ کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا۔

جس کے بعد مجموعی ذخائر نو ارب 83 کروڑ 85 لاکھ ڈالر ہوگئے جب کہ رواں ہفتے سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر، آئی ایم ایف سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر اور عرب امارات سے ایک ارب ڈالر موصول ہوئے تاہم انھیں آیندہ ہفتے جاری ہونے والے اعداد وشمارمیں شامل کیا جائے گا۔

دنیا کے مالیاتی نظام میں آئی ایم ایف کی حیثیت مرکزی ہے، اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ گزشتہ برس کے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے طور پر امدادی کانفرنس میں کیے گئے وعدوں کی بھی تکمیل نہیں ہوئی تھی اور اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ دس ارب ڈالر کے وعدوں کی بھی باری آ جائے گی اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی رہائش اور انفرااسٹرکچر کی بحالی کے لیے کام ہو سکے گا۔

پچھلے سات ماہ کے عرصے میں پہلی بار مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 29 فیصد پر آ گئی ہے۔ مہنگائی میں 9 فیصد کی کمی کا رحجان گرانی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عام آدمی کے لیے خوش آیند ہے۔

ادارہ شماریات کے مطابق 43 فیصد کمی کے باوجود تجارتی خسارہ تقریباً ساڑھے 27 ارب ڈالر ہے جو ادائیگیوں کے توازن میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، افراط زر بجٹ کے اہداف سے زیادہ ہے جس سے مہنگائی میں توقع کے مطابق کمی نہیں آ سکے گی۔


پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط بھی پوری کرنی ہیں جس کے لیے عوام پر مزید ٹیکس لگانا ہوں گے، سود کی شرح بھی بڑھانا اور سرکاری اخراجات میں کمی لانا ہوگی۔ ایسا کرنا کسی بھی حکومت کے لیے عوامی مقبولیت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے، اس لیے اہل اقتدارکا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا۔

پاکستان کی معیشت پر جو زد پڑی اس کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی کہ مہنگائی نے برا حال کر دیا جس کے باعث تنخواہ دار اور دیہاڑی دار طبقہ گذر اوقات کے بھی قابل نہ رہا تھا۔ عدم اعتماد کے نتیجے میں سابقہ حکومت چلی گئی اور اتحادی حکومت بن گئی، لیکن محاذ آرائی کسی طور پر ختم نہ ہوئی۔

ملک میں بے ر وز گاری اور مہنگائی ہے جب کہ ہماری اشرافیہ کا طبقہ اپنے طور پر مسائل کا '' شکار'' ہے، اور عوام کا نام لے کر اپنے مطالبات اور ضروریات پر زور دے رہا ہے، ایسا احساس پیدا کیا جا رہا ہے کہ کسی کو ملک کا احساس نہ رہے، اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ دنیا میں جو سامراجی نظام ہے، اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف مالیاتی طور پر ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی معاشیات کوکنٹرول کرتا ہے اور اب موجودہ حکومت نے جس مجبوری اور مشکل سے معاہدہ کیا وہ بھی ایک داستان ہے۔

چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے گرین پاکستان انیشی اٹیو کے تحت ''غذائی تحفظ '' پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اِس منصوبے کو 1960کے بعد ملک کے لیے دوسرا بڑا زرعی انقلاب قرار دیا۔

اُن کے مطابق اِس کے ذریعے پاکستان کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی اورآیندہ پانچ سال میں 40 سے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے جس سے لگ بھگ40 لاکھ لوگوں کو روزگار کے مواقعے ملیں گے۔ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والا زرعی ملک ہے، ایک وقت تھا کہ پاکستان نہ صرف اپنی غذائی ضروریات پوری کرتا تھا بلکہ دنیا بھر کو زرعی مصنوعات برآمد بھی کرتا تھا۔

1960 کی دہائی میں پوری دنیا میں زرعی انقلاب آیا، عالمی زرعی پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے شعبہ زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے انقلاب برپا کر دیا تھا، اِس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے، زرعی پیداوار اپنے عروج پر پہنچی لیکن پھر ناقص پالیسیوں، عدم توجہی، سیاسی عدم استحکام اور بیرونی مداخلت نے اِس ترقی کو دھندلا دیا۔ ترجیحات بدلتی چلی گئیں، زرعی زمینوں پر قبضے، مہنگی زرعی اِن پُٹس اور فصلوں کے انتخاب کے غلط فیصلوں سے پاکستان کی زرعی پیداوار کم ہوتی چلی گی۔

آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا،کسی نے اِس پر غور نہیں کیا نہ ہی وسائل بڑھانے پر توجہ دی بلکہ رہائشی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے قیام کی روایت پڑگئی جس نے ملک کی زراعت کو بری طرح متاثرکیا۔

دنیا میں بہترین زرعی زمین رکھنے کے باوجود ہم زراعت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں بھی ناکام رہے، جدید تحقیق، آلات، مشینری اور صحت مند بیجوں کے استعمال کی بدولت دنیا نے فی ایکڑ پیداوار میں پاکستان کوکہیں پیچھے چھوڑ دیا، ا گرچہ آج بھی دنیا بھر میں کپاس کی پیداوار میں ہمارا ملک چوتھے، آم میں پانچویں، پیاز میں چھٹے، گندم میں آٹھویں، چاول میں 10ویں، آلو میں 18ویں اور مکئی کی پیداوار میں 20 ویں نمبر پر ہے۔

تاہم تشویشناک امر یہ ہے کہ بڑا زرعی ملک ہونے کے باوجود یہ سالانہ اربوں روپے کی غذائی اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ صدیوں سے زراعت کے ذریعے اپنا پیٹ پالنے والا پاکستان گندم کا بیج تک درآمدکرتا ہے، جس شعبے سے ملک کی معیشت وابستہ تھی اُسی کو نظر اندازکیا، اُس پر توجہ نہ دی اورآج زرعی زمین ملکی ضروریات بھی پوری نہیں کر پا رہی۔

اب پاکستان کو ایک نئے امتحان کا سامنا ہے جس کا نام گلوبل وارمنگ ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب بے وقت بارشیں،گلیشیئرپگھلنے سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال سے زراعت کو خاصا نقصان پہنچا ہے، گزشتہ سال تباہ کن سیلاب سے کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں جب کہ اربوں ڈالر مالیت کا انفرا اسٹرکچر بھی خراب ہوا۔ اِن حالات میں اِس بات کی اشد ضرورت محسوس کی جا ر ہی تھی کہ ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھیں اور زراعت پر توجہ مرکوز کریں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بروقت اقدامات کریں۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر نیک نیتی کے ساتھ کوشش کی جائے تو1960 کا سنہری دور واپس آ سکتا ہے۔گرین انیشی اٹیو پروگرام میں خلیجی ممالک بے حد دلچسپی رکھتے ہیں، وہ سرمایہ کاری کے ذریعے لاکھوں ایکڑ اراضی قابل ِ کاشت بنانے کے علاوہ یہاں پیدا ہونے والی فصلوں کے خریدار بھی ہیں۔

اگر یہ منصوبہ اپنی اصل روح کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو مستقبل روشن ہو سکتا ہے، زرعی انقلاب سے ملک میں معاشی انقلاب کی مضبوط اور دیرپا بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ فروعی اور ذاتی خواہشات کو قربان کر کے ہی ملک کو سنبھالا اور آئی ایم ایف سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔
Load Next Story