الیکشن شیڈول پردہ داری کیوں

وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ دینا تو الیکشن کمیشن کا کام ہے

الیکشن کب ہوں گے؟ ایک جمہوری ملک میں یہ سوال اس قدر مشکل ہونا نہیں چاہیے لیکن وطنِ عزیز میں یہ سوال جواب کی تلاش میں ابھی تک خوار ہو رہا ہے۔ درویش صفت شاعر احسان دانش یاد آئے؛

عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا

یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے

خدا جانے حکومت اور اس کے اتحادیوں کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں یا پھر بے یقینی کی دھند میں کچھ کار ہائے سربستہ ابھی تک انجام نہیں پا سکے کہ الیکشن شیڈول کا روڈ میپ دینے سے کنی کترا رہی ہے۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ دینا تو الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

الیکشن کمیشن سے اب کون پوچھے؟ سپریم کورٹ نے پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن سے صوبائی الیکشن کی تاریخ دینے کا بھاری پتھر اپنے ذمے لے کر رہنمائی کی مگر کئی ہفتوں کی عدالتی ریاضت کا جو نتیجہ نکلا اس نے اس محاورے کی تصویر کھینچ دی؛ سر پنچوں کا حکم سر آنکھوں پر مگر پرنالہ وہیں رہے گا!

قومی اسمبلی کی مدت اگست کے دوسرے ہفتے میں مکمل ہو رہی ہے۔ معاملہ سیدھا ہے کہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد ساٹھ دن کے اندر اندر انتخابات ہوجانے چاہیں۔

اس تاریخ کے تعین میں الیکشن کمیشن کو فال نکالنے کی ضرورت ہے نہ اسے طاقت کے ایوانوں میں ستاروں کے چال چلن کی کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔

جس روز مدت پوری ہو، اس کے ساٹھ دن کے بعد الیکشن کی تاریخ۔۔۔ اللہ اللہ خیر صلّا لیکن اتنی آسانی سے خیر صلّا ہو جائے تو کہانی کار کو کون پوچھے!نو مئی سے پہلے تو اس کہانی پر زور تھا کہ اس قدر معاشی بحران اور سیاسی سونامی میں الیکشن! توبہ توبہ، ریاست بچاؤ بچاؤ چیخ رہی لیکن یہاں سیاست کی سوجھ رہی ہے۔ الیکشن کا کیا ہے ایک سال بعد ہو جائیں گے۔

مولانا فضل الرحمان تو واضح انداز میں بار بار جتلا چکے تھے، ن لیگ کی قیادت بھی اشاروں کنایوں میں یہی عندیہ دے رہی تھی کہ ابھی بہت کام نمٹانے کو ہیں، باہر بیٹھے کو واپس لانا ہے، اندرون ملک اک کانٹا ہے جس کا کچھ انتظام کرنا ہے۔

ایک جند تے دکھ نی ہزار (ایک جان کو ہزار روگ) والا معاملہ ہے۔ یہاں جان پر بنی ہوئی ہے اور اُدھر الیکشن میں جان اٹکی ہوئی ہے۔ حکومتی وزراء قیاس کے گھوڑے دوڑا کر یہ امکان بھی ڈھونڈ لائے کہ آئین میں گنجائش ہے، ماضی میں ایک بار الیکشن موخر ہوئے، مطلب کی کوئی مثال نکل آئے تو ماضی دوہرانے میں کیا مضائقہ ہے!


ایک کہانی یہ بھی گردش میں ہے کہ اگر قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت سے دو چار دن قبل تحلیل کر دی جائے تو اس صورت میں آئین میں90روز میں انتخابات کروانے کی ہدایت ہے۔

یوں تیاری کے لیے مزید ایک ماہ مل جائے تو برا سودا نہیں۔ تاہم وزیر اعظم نے اپنے تئیں ایک رسمی خطاب کے ذریعے قوم کو نوید دی ہے کہ ہم تو وسط اگست تک کے مہمان ہیں، ہم نے پندرہ ماہ میں چار سال کا گند (بقول ان کے ۔۔) صاف کر دیا ہے، آئی ایم ایف پروگرام کا ٹنٹا بھی نکل گیا۔ اب آپ جانیں اور نگران سیٹ اپ!

نگران سیٹ اپ کی یوں تو ایکسپائری ڈیٹ آئین میں معین ہے لیکن پنجاب اور کے پی کے میں نگران سیٹ اپ اپنی ایکسپائری تاریخ کے بعد بھی بھلا چنگا اور جاری و ساری ہے۔ کچھ واقفان حال کہتے ہیں کہ نگران سیٹ اپ تو حکومت ہی کی پراکسی ہیں۔

اسی بناء پر اکثر احباب کو اندیشہ ہے کہ وفاق میں نگران سیٹ اپ پر بھی اگر پنجاب اور کے پی کے سیٹ اپ کا رنگ چڑھ گیا تو کیا ہوگا؟ وزیر اعظم نے اپنے کوچ کی تاریخ تو دے دی ہے مگر ایک ماہ کے اندر اندر نگران سیٹ اپ کے لیے روڈ میپ ابھی تک خراٹے لیے سو رہا ہے۔

یادش بخیر اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض سے ابھی تک مشاورت کا آغاز نہیں ہوا۔ دوبئی کی ملاقاتوں اور اندرون ملک ملاقاتوں میں کئی نام گردش میں ہیں جن کے ماتھے پر اپنے اپنے سپانسر کا نام ان کے اپنے نام سے بڑا لکھا نظر آتا ہے۔

ایسے نگران سیٹ اپ کی ممکنہ باگ ڈور کس کس کے ہاتھ میں ہوگی اور امکانی طور پر کب اور کیسے استعمال ہو گی، یہ سوچ کر اکثر لوگ اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہیں۔

الیکشن اپنے وقت پر ہو جائیں گے؟ کس تاریخ کو ہوں گے؟ ان سوالوں کے جواب حکومت دینے سے کترا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن جانے اور اس کا کام۔ البتہ حکومت پوری تندہی سے 'کچھ ' انتخابی اصلاحات کی فکر میں ہے۔

رازداری سی ہے مگر کچھ کچی پکی خبریں گردش میں ہیں، تاہم ابھی تک اصلاحات کی سفارشات کا فائنل ڈرافٹ سامنے نہیں ہے۔ شنید ہے کہ قومی اسمبلی کے الوداعی اجلاس میں ڈرافٹ منظور کروا لیا جائے گا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہDevil is in the details یعنی تفصیلات میںاصل راز چھپا ہوتا ہے۔ سو! یہ ابھی واضح نہیں کہ اصلاحات کی شکل کیا ہوگی ۔

اگر حکومت کی گزشتہ سوا سال کی قوانین اجرائی کے خدو خال سامنے رکھے جائیں تو مخالفین کے اندیشہ ہائے دوردراز قریب از جاں محسوس ہوتے ہیں۔

نو مئی کے بعد جس تیزی سے سیاسی منظر نامہ بدلا ہے ، وہ پی ڈی ایم کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ پی ٹی آئی میں حد درجہ توڑ پھوڑ اور استحکام پارٹی کی صورت میں نئے بلاک کا ظہور بیلٹ اور الیکشن ڈے پر کیسے اثر انداز ہوگا، ٹاک شوز کے شور شرابے کے برعکس یہ امکان کئی حیرانیوں کو جنم دے سکتا ہے۔

پی ڈی ایم کی قیادت تجربہ کار ہے وہ ایسی ممکنہ حیرانیوں کا راستہ بھلا کیسے چھوڑ سکتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ گومگو کی صورت قائم ہے یا قائم رکھی جا رہی ہے! ورنہ اب تک تو جا بجا بینروں، کارنر میٹنگز، جلوسوں، انتخابی دفاتر کی بہار اور' انشاء اللہ MNA' کی رونقیں لگ چکی ہوتیں!!!
Load Next Story